گزشتہ ماہ اکتوبر کی پچیس تاریخ کو ’وی نیوز ڈاٹ پی کے‘ پر شائع شدہ اپنے کالم بعنوان ‘محترمہ بشریٰ بی بی کی رہائی پی ٹی آئی کے لیے اچھی خبر یا بُری‘ میں ایک خبر دی تھی’ بشریٰ بی بی کو رہائی سے پہلے اچھی طرح سمجھا بجھا دیا گیا ہے کہ اب انھیں کیسی زندگی بسر کرنی ہے۔ ان کی رہائی سے تحریک انصاف کا پورا کلچر تبدیل ہوجائے گا، کم از کم عمران خان کی رہائی تک جبکہ عمران خان کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔’
یہ بھی لکھا تھا ‘اب بشریٰ بی بی پارٹی کو چلائیں گی لیکن اس انداز میں چلائیں گی کہ پس پردہ خود بھی غیر سیاسی رہیں گی اور ان کے رابطے بھی ان لوگوں کے ساتھ رہیں گے جن کا دعویٰ ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔’
اور یہ بھی لکھا تھا ‘بشریٰ بی بی کی رہائی سے تحریک انصاف پر ایک بُرا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ شاید جلد ہی عمران خان کی ہمشیرگان علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو بھی رہا کردیا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوگا، اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ آنے والے دنوں میں نند بھابھی کے درمیان کشمکش کے زیادہ مظاہر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ علیمہ خان شکوہ کر سکتی ہیں کہ بشریٰ بی بی ان کے بھائی کی رہائی کے بجائے پارٹی پر کنٹرول قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے بعد جوتوں میں جو دال بٹے گی، وہ پی ٹی آئی ورکرز کو خاصا مایوس کردے گی۔’
اس کالم کی اشاعت سے اگلے ہی روز خان کی تمام بہنیں رہا ہوگئی تھیں۔ رہائی کے بعد وہ لمحہ بھر کے لیے بشریٰ بی بی سے نہیں ملیں۔ 24 نومبر کو’ فائنل کال’ کا قافلہ جب پشاور سے چلا تو اس کی قیادت بشریٰ بی بی ہی کے پاس تھی۔ جب یہ قافلہ اسلام آباد کی چھبیس نمبر چونگی پر پہنچا تو عمران خان کی بہنیں ایک لحظہ کے لیے وہاں پہنچیں لیکن بشریٰ بی بی سے دور دور رہیں اور پھر واپس لوٹ گئیں۔ وہاں سے ڈی چوک تک بشریٰ بی بی تھیں یا پھر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور۔ صرف علیمہ خان، عظمیٰ خان ہی نہیں، پی ٹی آئی کے دیگر تمام قائدین بھی اس قافلہ سے دور دور رہے۔
اب پی ٹی آئی کا پورا کلچر تبدیل ہوچکا ہے۔ جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے قائدین کی بڑی تعداد بشریٰ بی بی سے دور کھڑی ہے۔ اگلے روز پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے رہنما اور سابق وزیر شوکت یوسف زئی بشریٰ بی بی کو پارٹی معاملات سے دور رہنے کو کہہ رہے تھے، وہ شکوہ کناں تھے کہ ڈی چوک تک پہنچنے والے احتجاجی قافلے میں پی ٹی آئی کے باقی لیڈران کرام کیوں شامل نہ ہوئے؟ اٹھائیس نومبر کو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اور استعفے دیے گئے۔
سنا ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے پی ٹی آئی کے قافلے ڈی چوک کی طرف عازمِ سفر ہوئے تھے لیکن اس کے بعد وہ گردِ راہ میں کہیں گم ہوگئے۔ سنا تھا کہ حلیم عادل شیخ سینکڑوں گاڑیوں کے ساتھ سندھ اور پنجاب کے درجنوں اضلاع کو روندتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے لیکن اس کے بعد کہاں گم ہوگئے، کسی کو کچھ اتا پتا نہیں۔ لاہور سے حماد اظہر چند ایک لوگوں کے’ فقید المثال’ قافلے کے ساتھ کسی دریا کے پل پر کھڑے نعرے لگاتے ویڈیو بنواتے دیکھے گئے لیکن اس کے بعد یہ چراغ بھی بجھ گیا۔ عالیہ حمزہ بھی اپنے چمکتی دمکتی کار کے ساتھ شاہدرہ لاہور میں دیکھی گئیں، ان کے ساتھ چند موٹر سائیکل سوار بھی تھے لیکن اس کے بعد یہ روشنی بھی گُل ہوگئی۔
محترمہ بشریٰ بی بی نے حکم دیا تھا کہ کسی لیڈر نے گرفتار نہیں ہونا ورنہ پارٹی سے’ کک آؤٹ’ ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ لوگ گرفتار بھی نہیں ہوئے اور جناح ایوینیو بھی نہیں پہنچے۔ اب پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ اسلام آباد نہ پہنچنے والے لیڈران کے بارے میں پارٹی ہی کچھ فیصلہ کرے گی۔ کیا واقعی فیصلہ ہو جائے گا؟
اس ساری صورت حال میں پی ٹی آئی ورکرز خاصے مایوس ہیں۔ بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا سے آنے والے انقلابی نوجوان۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان والے کہاں ہیں؟ آخر بار بار خیبر پختونخوا ہی کے لوگوں کو کیوں آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے؟ یہ نوجوان اپنے موجودہ لیڈران کرام سے گتھم گتھا ہیں۔ ان کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔ انھیں گاڑیوں میں قید کردیتے ہیں، نہ کھانا کھانے دیتے ہیں، نہ نماز کے لیے وضو کرنے جانے دیتے ہیں، نہ ہی’ جنگل پانی’ کے لیے چھٹی دینے کو تیار ہیں۔ وہ نہ بشریٰ بی بی کو جانتے ہیں نہ علی امین گنڈا پور کو اور نہ ہی عمر ایوب خان کو، وہ صرف اور صرف عمران خان کو جانتے ہیں( یہ جناح ایونیو میں کھڑے پی ٹی آئی ورکرز ہی کے الفاظ ہیں)۔
محترمہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی نے ‘ فائنل کال’ کے لیے جو تیاری کی تھی اور ایم این ایز، ایم اپی ایز کو جو اہداف دیے گئے تھے، ان کے مطابق پاکستان بھر سے 80ایم این ایز ہی کو 8لاکھ لوگوں کے ساتھ ڈی چوک پہنچنا تھا۔ خیبر پختونخوا کے 58ایم پی ایز کو قریباً 3لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد آنا تھا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے 103 ایم پی ایز ہیں۔ انھیں خود بھی اسلام آباد پہنچنا تھا اور اپنے ساتھ سوا پانچ لاکھ لوگوں کو بھی لانا تھا۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 6ایم پی ایز ہیں۔ انھیں 30ہزار لوگوں کے قافلے کے ساتھ جناح ایونیو پر پہنچنا تھا۔ بلوچستان میں ایک ایم اپی اے ہیں اور آزاد کشمیر میں 31ایم ایل ایز ہیں، گلگت بلتستان میں بھی 21ممبران ہیں۔ ان سب کو کم از کم پانچ، پانچ ہزار افراد لانے کا ہدف ملا تھا۔ یوں کل ملا کر سترہ، اٹھارہ لاکھ لوگوں کو ڈی چوک پہنچنا تھا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ان اراکین کے علاوہ جو لوگ اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ کے خواہش مند ہیں، ان کو دیے گئے اہداف بھی شامل کیے جائیں تو کم از کم تیس، پینتیس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد پہنچنا چاہیے تھا۔ لیکن اہداف پورے کرنا تو دور کی بات، کیا یہ منتخب ارکان خود بھی اسلام آباد میں داخل ہوئے؟ صوبہ خیبر پختونخوا سے دس، پندرہ یا پھر بیس ہزار لوگ اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ یہ مختلف ماہرین کے اندازے ہیں۔
کہا جارہا تھا کہ ملک بھر سے پی ٹی آئی کے لاکھوں ورکرز اسلام آباد، راولپنڈی اور اس کے گرد و نواح میں چوبیس نومبر سے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں، جیسے ہی چوبیس نومبر کا سورج طلوع ہوگا، یہ لوگ جناح ایونیو کو بھر دیں گے، پھر محترمہ بشریٰ بی بی کا استقبال کریں گے، پھر یہ عظیم الشان لشکر اڈیالہ جیل کی طرف روانہ ہوگا اور خان صاحب کی بیرک کا تالہ کھولے گا، انھیں کندھوں پر بٹھائے گا اور ایوان وزیراعظم پہنچائے گا۔
محترمہ بشریٰ بی بی، جناب علی امین گنڈاپور اور دیگر لیڈران کرام ! کیا یہی طے ہوا تھا اور یہی منصوبہ تھا نا؟
ایسا کیوں نہ ہوسکا؟ یہ حساب کتاب خود پی ٹی آئی بند کمروں میں بیٹھ کر کرے گی، ہم باہر بیٹھے ایک تجزیہ کار کے طور پر محسوس کرتے ہیں کہ جب تک عمران خان جیل میں رہیں گے، پی ٹی آئی ہر گزرتے روز مزید انتشار کا شکار ہو گی۔ اور اس کے ذمہ دار وہ لیڈران ہیں جو گھروں میں بیٹھ کر انقلاب لانے کے خواہش مند ہیں، خان کے باہر ہوتے ہوئے ان لیڈران کرام کو طوعاً و کرھاً کچھ نہ کچھ متحرک ہونا ہی پڑتا تھا لیکن اب خان صاحب جیل میں اور پی ٹی آئی کی زمامِ کار محترمہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں ہے۔
عمران خان کی رہائی کی صورت میں پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار قدرے کم ہوسکتا ہے۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما جناب سردار لطیف خان کھوسہ بتا رہے تھے کہ حکومت عمران خان کی رہائی کے لیے تیار ہوگئی تھی لیکن پھر کچھ لوگوں نے معاملات خراب کردیے۔ وفاقی وزیر داخلہ جناب محسن رضا نقوی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پیچھے بھی کوئی قیادت ہے۔ نقوی صاحب کا اشارہ شاید اسی قیادت کی طرف ہے جو عمران خان کی رہائی نہیں چاہتی۔ خان باہر آگیا تو اس ‘قیادت’کے مزے ختم ہوجائیں گے۔
آخر میں یہ خبر کہ جب سے پی ٹی آئی کی زمامِ کار محترمہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ لگی ہے، شہباز شریف حکومت بہت آسودہ ہوچکی ہے۔ اب وہ چاچے پھجّے کے سری پائے کھائے گی اور گوالمنڈی لاہور کی مکھن پیڑے والی گاڑھی لسّی پیے گی اور جیے گی۔
عبید اللہ عابد، بادبان
تبصرہ کریں