میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب ( جسے میں کئی بار پڑھ چکی ہوں ) کا تیرہواں باب ان سطور سے شروع ہوتا ہے:
’ قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے، ایک طبقہ عوام، دوسرا طبقہ خواص۔ طبقہ عوام اگرچہ کثیر تعداد میں ہوتا ہے اور قوم کی عددی قوت اسی طبقہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے، نہ یہ جاہ و منزلت رکھتے ہیں، نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کا کام نہیں ہوتا، محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کا کام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے یا نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں، انہی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے والے اور ان پر پوری قوم کو ساتھ چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں، جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ، دولت، عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے۔‘
اس کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں بتاؤں گی۔
اپنے ملک میں خواص کے طرزِ عمل کو دیکھ کر ایک آہ دل سے نکلتی ہے ان الفاظ کی صورت میں۔۔۔
ہمارے بھی ہیں خواص کیسے کیسے۔۔۔
2014ء کے پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے/ اسلام آباد پر چڑھائی کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں کہ کس طرح دارالحکومت ( جو کہ پورے ملک کا چہرہ ہوتاہے۔) کو گندہ کیا گیا۔ کوڑا کرکٹ تو ایک طرف جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا وہ لب ولہجہ آج پوری طرح پَر پُرزے نکال چکا ہے۔ واضح رہے کہ میں کسی ایک فریق کو موردِ الزام نہیں ٹھیرا رہی۔ سب سے پہلے خواص ( حکومت، سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ، تجزیہ کار، صحافی ) کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
‘کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری!
خدارا ! اپنی اداؤں پر نظرِ ثانی کیجیے، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو آزادی سے کام کرنے دیجیے، آپ کی اداؤں کی وجہ سے ملک کا وقار، معیشت، عوام کی زندگی داؤ پر لگی ہے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ جب بھی کوئی اہم شخصیت پاکستان کے دورے پر آتی ہے آپ لوگ دھرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ ہم نے بہت غور کیا وجہ سمجھ نہیں آئی اس کی۔ آپ کسی بھی اور دن دھرنے کا پروگرام رکھ سکتے ہیں لیکن جانے کیوں اسے ایسے مواقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں آپ لوگ۔ دوسرا سوال بانی پی ٹی آئی سے یہ ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو اپنے پیچھے چلنے والوں، خود پر مر مٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟؟؟؟
جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ سرسبز درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ ہو جاتی ہے۔ پولیس والے اور رینجرز کے نوجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے اپنے کارکن کو اپنے شیداؤں کو۔
اب کچھ سوال پی ٹی آئی کی اس قیادت سے جو اس وقت جیل سے باہر ہے۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب! آپ کی اس ادا کو کیا نام دیا جائے کہ شروع میں تو بڑی بڑھکیں مار رہے ہوتے ہیں مگر جہاں خطرہ محسوس ہوا آپ رفو چکر ہو گئے۔ بشریٰ بی بی نے بھی یہی کیا۔ کارکنان کو تو ڈٹ جانے کی تلقین کی اور خود جب خطرہ سامنے آیا تو پیچھے ہٹ گئیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی ’اغوا‘ کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟
آپ کیا سمجھتے ہیں یہ راہ کانٹوں بھری نہیں ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔۔ آپ کو کون سمجھائے کہ جو جدوجہد کی راہ ہوتی ہے اس میں جو کھڑا رہتا ہے اسی کی قامت ایفل ٹاور تک کو شرما دیتی ہے، جو زخم سہتا ہے اسی کے قدموں میں گلاب و سوسن آ بکھرتے ہیں ۔۔۔ جو مرتا ہے وہی امر ہوتا ہے.
لیکن نہیں آپ نے تو انارکی پھیلانا تھی سو پھیلا لی۔ آپ کی جان آپ کے بچوں کی جان زیادہ محترم ہے۔ آپ کے کارکن کی زندگی کی تو کوئی قیمت نہیں۔
آپ کواگر واقعی اپنے مقصد سے محبت ہوتی تو جانتے کہ
تختہ دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
قوم کے خواص ( بشمول پی ٹی آئی قیادت) کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنئے ’پلیڈر‘ نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کسی کا Roll Model تو سامنے رکھنا ہوگا تو کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ اپنوں نے ہی نہیں غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100 A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی ﷺکا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے اربابِ اقتدار اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو شاید یہ لاشیں نہ گرتیں۔ شاید شجر و حجر بھی زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔
مجھے لگتا ہے ہم سب (عام آدمی سے لے کر اشرافیہ) کا حال یہ ہے کہ بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
"”ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "”
اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہمیں متقین کا امام بنا ۔
تم ان کے پیچھے کیوں خوار ہوتے ہو جن کی اپنی منزل واضح نہیں جو تمھارے جذبات کو ’مذہب کا تڑکا‘ لگا کر ان سے کھیلتے ہیں۔ جو خود فانی ہیں اور فانی ہی پہ مٹتے ہیں۔ خود خاک کے پتلے ہیں اور تمھارے پَر جلا دینا چاہتے ہیں۔۔۔
کیوں نہ ہم اچھی کتابوں کا مطالعہ ہی کر لیں کہ ہمارا شمار سمجھدار قوموں میں ہو۔ ہمارا معاشرہ پڑھے لکھے افراد کا معاشرہ کہلائے جاہلوں کا نہیں ۔۔۔
تو اس کتاب کا نام بھی بتاتی چلوں جس میں سے پیراگراف کا انتخاب کیا جی اس کتاب کا نام ہے "تنقیحات”۔ اور مصنف ہیں سید ابو الاعلیٰ مودودی (رح)۔
تبصرہ کریں