ہابسن چوائس انگریزی زبان کی ایک مشہور اصطلاح ہے، سادہ مفہوم میں اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک آپشن ہے، ماننی ہے یا نہیں، دوسری کوئی آپشن نہیں۔
اس کا پس منظر دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ سولہویں صدی میں تھامس ہابسن نامی ایک تاجر کیمبرج، انگلینڈ میں رہتا تھا۔ اس کے پاس چالیس، پچاس گھوڑوں پر مشتمل ایک اصطبل تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کرایے پر دیا کرتا تھا۔ ان گھوڑوں میں سے چند ایک اعلیٰ نسل کے تھے۔ ہر گاہک کی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے سفر کے لیے سب سے عمدہ گھوڑا منتخب کرے۔
تھامس ہابسن نے اس سے پریشان ہو کر گھوڑے کرایہ پر دینے کی ایک شرط رکھ دی۔ وہ گاہک سے کہتا کہ آپ اصطبل میں جا کر گھوڑا پسند کریں، دروازے سے قریب بندھا ہوا گھوڑا آپ کو ملے گا۔ لینا ہے تو وہی ملے گا، ورنہ نہیں۔
اس شرط سے گاہک بڑے چکرائے کہ یہ کیسی چوائس ہے، جس میں ایک ہی آپشن ہے۔ ہابسن نے مگر اس شرط پر سختی سے عمل درآمد کرایا۔ یہ بات آس پاس کے دیہات میں بھی پھیل گئی اور کئی لوگوں نے ہابسن چوائس کے فارمولے کو اپنایا۔ یوں یہ اصطلاح ہابسن چوائس کے نام سے انگریزی لغت کا حصہ بن گئی، جس کے مطابق کسی معاملے میں بظاہر انتخاب کی آزادی ہو، مگر عملی طور پر ایک ہی آپشن موجود ہو۔ آگے بڑھنا ہے تو اسی واحد آپشن پر عمل کرنا پڑے گا۔
ہابسن چوائس کی اصطلاح پچھلے کئی روز سے بار بار میرے ذہن میں آ رہی ہے، آج کل مختلف نیوز چینلز پر یہی موضوع زیربحث ہے کہ کیا بشریٰ بی بی تحریک انصاف کو لیڈ کریں گی؟ کیا بشریٰ بی بی کو تحریک انصاف کی قیادت سنبھالنا چاہیے؟ اگر ایسا کریں تو کیا یہ تحریک انصاف کے اینٹی موروثیت بیانیہ کے خلاف نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستانی سیاست میں خواتین سیاستدانوں کے حوالے سے پہلا معتبر اور بڑا نام تو محترمہ فاطمہ جناح کا ہے۔ انہیں ایوب خان کی حزب اختلاف کے رہنماؤں نے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ الیکشن مادر ملت جیت گئیں، مگر نتیجہ ایوب خان کے حق میں گیا۔ روزنامہ نوائے وقت نے یہ خبر دیتے ہوئے بڑی دلچسپ اور معنی خیز سرخی جمائی، لیڈ سرخی تھی ’الیکشن کمیشن نے ایوب خان کی جیت کا اعلان کر دیا‘ سمجھنے والے اس فقرے میں پوشیدہ طنز اور کاٹ سمجھ گئے۔
دوسرا بڑا نام بیگم نصرت بھٹو کا ہے، جو اپنے وزیراعظم خاوند ذوالفقارعلی بھٹو کی گرفتاری کے بعد سیاست میں سرگرم ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تجویز پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما شیخ رشید احمد (بابائے سوشلزم) نے بھٹو صاحب کو عدالت میں ملاقات کے دوران پیش کی۔
پارٹی کے وائس چیئرمین تب شاید مخدوم طالب المولیٰ تھے، بھٹو صاحب نے قائم مقام چیئرپرسن کے عہدے پر بیگم نصرت بھٹو کو مقرر کر دیا۔ پارٹی کے کئی سینیئر رہنما اس پر چیں بہ جبیں بھی ہوئے، مگرحقیقت یہ ہے کہ پارٹی بیگم صاحبہ کی قیاد ت میں متحد ہوئی، ورنہ پارٹی کے بعض مرکزی رہنما، حتیٰ کہ خود بھٹو صاحب کے اپنے کزن ممتاز بھٹو پر بھی کمپرومائز کرنے کا الزام لگا۔
بھٹو صاحب کو بدقسمتی سے پھانسی ہوگئی، یوں بیگم نصرت بھٹو جو قائم مقام کے طور پر سیاست میں متحرک ہوئیں، انہیں بھٹو لیگیسی سنبھالنا پڑی، جو بتدریج ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوگئی۔
تیسری مثال اس سے کچھ پہلے کی ہے جب نیپ کے رہنما خان عبدالولی خان حیدرآباد سازش کیس میں گرفتار ہوئے، ان کی اسیری کے دوران احتجاجی تحریک کو صوبہ سرحد (موجودہ کے پی) میں لیڈ ولی خان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان نے کیا۔ اس سے پہلے وہ گھریلو خاتون تھیں، مگر ضرورت پڑنے پر وہ سر پر چادر لیے باہر آئیں اور پارٹی جلسوں سے بھی خطاب کرتی رہیں۔
جنرل ضیا کے مارشل لا کے بعد حیدرآباد سازش کیس ختم کر دیا گیا، ولی خان اور دیگر پشتون، بلوچ قوم پرست رہنما رہا ہوگئے تو بیگم نسیم ولی خان واپس گھر چلی گئیں۔ یہ اور بات کہ ولی خان نے بعد میں اپنی بیگم صاحبہ کو ساتھ رکھا اور انہیں بھرپور تکریم دی، مگر نسیم ولی خان پھر فرنٹ پر نہیں رہیں۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کی ایک “خوبی”، جس سے ان کے حامی سخت پریشان ہیں
فوج عمران خان سے ڈیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، برطانوی جریدہ
عمران خان کی زندگی بدلنے والے روحانی لوگ
عمران خان ’سسرال‘ میں وقت کیسے گزاریں؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں جب ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو پراسرار طور پر کراچی میں قتل کر دیا گیا تو کچھ عرصہ کے بعد ان کی بیوہ لبنانی نژاد غنویٰ بھٹو متحرک ہوئیں۔ انہوں نے پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو کے خلاف پرجوش سیاست کی، سخت تنقیدی تقریریں بھی کرتی رہیں، دو تین الیکشن لڑے، ایک بار شاید ایم پی اے بھی بنیں، مگر مجموعی طور پر غنویٰ بھٹو کا سیاسی کیریئر کچھ زیادہ تابناک نہیں رہا۔
جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم میاں نواز شریف کا تختہ الٹا تو مسلم لیگ ن پر بھی سکتے کا عالم طاری ہوگیا۔ تب میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز شریف باہر آئیں اور انہوں نے اپنی پرجوش تقریروں سے لیگی کارکنوں میں ایک نئی روح پھونکی۔ کلثوم نواز شریف کا سیاسی کیریئر مختصر رہا، کیونکہ میاں نواز شریف مشرف حکومت سے ایک معاہدے کے بعد کئی برسوں کے لیے جلاوطن ہوگئے۔ بعد میں بیگم کلثوم نواز کا کردار پس منظر میں رہا۔
2018 میں عمران خان کی اقتدار میں آمد کے بعد مسلم لیگ ن کے لیے مشکل وقت شروع ہوا، تب مریم نواز شریف کا کردار بھی اہم اور نمایاں رہا۔ وہ نواز شریف کے تیسرے دور میں سیاسی طور پر ایکٹو ہوچکی تھیں، انہیں کسی حد تک میڈیا وغیرہ کو ڈیل کرنے کی غیر رسمی ذمہ داریاں بھی دی گئیں۔ پانامہ کیس اور اس کے بعد کے نیب کیسز میں مریم نواز شریف کو بھی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں اسیر بھی رہیں۔ مریم نواز شریف نے رہائی کے بعد پرجوش انداز میں لیگی سیاست کو اٹھایا اور ثابت کیا کہ وہ نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں۔
ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ میاں نواز شریف کے سیاسی ورثے کے وارث ان کے بھتیجے حمزہ شہباز شریف ہوں گے، تاہم پچھلے پانچ سات برسوں میں مریم نواز شریف ٹاپ پر آ گئیں۔ واضح ہوگیا کہ اب میاں نواز شریف کی سیاسی وارث ان کی صاحبزادی ہوں گی۔ جس کسی نے پارٹی میں رہنا ہے، اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا۔ جس کو اتفاق نہیں تھا، اسے پارٹی سے باہر ہونا پڑا۔
فروری 2014 کے انتخابات کے بعد مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو موقعہ ملا تو وہ اگلا وزیراعظم خود بننے کے بجائے اپنی صاحبزادی کو بنائیں گے۔
تحریک انصاف کی سیاسی زندگی مسلم لیگ، پی پی پی وغیرہ سے خاصی کم ہے۔ پارٹی کے بانی عمران خان پر حقیقی معنوں میں مشکل سیاسی وقت پچھلے سال پانچ اگست کے بعد شرو ع ہوا، جب سے وہ پابند سلاسل ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ ہی پارٹی کے وائس چیئرمین اور سب سے تجربہ کار سیاستدان شاہ محمود قریشی اسیر ہیں۔ پارٹی کے صدر چودھری پرویز الٰہی بھی کئی ماہ تک گرفتار رہے، اب وہ ضمانت پر رہا ہیں، مگرشاید مصلحتاً سیاسی طور پر ایکٹو نہیں۔
خان صاحب کے کئی برسوں تک قریبی ساتھی رہنے والے اسد عمر، فواد چودھری وغیرہ نو مئی کے بعد کے منظرنامے میں پارٹی سے الگ یا لاتعلق ہوگئے، پرویز خٹک نے اپنی پارٹی بنائی اگرچہ بری طرح ناکام ہوئے۔ حماد اظہر، مراد سعید وغیرہ روپوش ہیں۔ خیبر پختونخوا سے البتہ اسد قیصر، عمرایوب وغیرہ پارلیمانی سیاست میں ایکٹو ہیں۔ بیرسٹر گوہر خان، بیرسٹرسلمان اکرم راجہ تحریک انصاف میں نئی انٹری ہیں، مگر دونوں کو خان صاحب نے اہم مناصب سونپے۔
تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی میں پرانے لوگوں اور نئے آنے والوں میں کشمکش جاری ہے، تین چار دھڑے اور گروپ بن چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا صوبائی سطح پرخاصا طاقتور مخالف دھڑا ہے۔ عاطف خان، شہرام تراکئی، جنید اکبر وغیرہ گنڈاپور صاحب کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔
ادھر شیر افضل مروت کی صورت میں ایک ایسا اَن گائیڈڈ میزائل ہے جو اکثر اپنی صفوں کی طرف فائر داغ دیتا ہے۔ اس سب کا نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کارکن شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون سا لیڈر کمپرومائزڈ ہے اور کون سامخلص؟ خان صاحب کی قید اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ان کے کیسز اڈیالہ جیل میں چلائے جا رہے ہیں اور کارکن ان سے نہیں مل پاتے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
یہ سب پس منظر اور تناظر سمجھ لینے کے بعد بڑے آرام سے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان جتنا زیادہ عرصہ جیل میں مقید رہیں گے، اتنے ہی امکانات بڑھتے جائیں گے کہ قیادت ان کے گھر کا کوئی بندہ سنبھالے جس پر خان صاحب اور پارٹی کارکنوں کو یکساں اعتماد ہو۔
عمران خان سب سے زیادہ اعتماد اپنی اہلیہ پر کرتے ہیں اور انہیں زیادہ تکلیف بھی ان کی گرفتاری پر ہوئی تھی۔ وہ اعلانیہ کئی بار اپنی اہلیہ کو دینی تعلیم کے حوالے سے اپنا مرشد بھی کہہ چکے ہیں۔
ویسے تو عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی پچھلے چند ماہ میں ایک مضبوط مزاحمتی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ ان کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ صاف گو اور اپنے خیالات کے اعتبار سے یکسو اور واضح ہیں۔ کھل کر وہ ہر بات کہہ ڈالتی ہیں۔ اپنے بھائی کی طرح دبنگ ہیں اور گرفتاری، قید سے نہیں گھبراتیں۔
اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ علیمہ خان کا انتخاب کرتے ہیں یا بشریٰ بی بی کا؟ حالات اور واقعات بہرحال اس طرف جا رہے ہیں کہ کم از کم عبوری مدت کے لیے پارٹی کی ذمہ داری کوئی ایسا فرد سنبھالے جس میں کارکنوں کو عمران خان کی شخصیت نظرآئے۔
اصول یہ کہتا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی یا علیمہ خان ہی ہوسکتی ہیں۔ اگر آل آؤٹ وار کی طرف جانا ہے تو پھر علیمہ خان اور اگر سیاست اور احتجاج دونوں کا امتزاج بنا کر چلانا ہے تو پھر بشریٰ بی بی۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کرنا موروثیت کہلائے گا یا نہیں؟ اگر عبوری دور کے لیے ایسا کیا جائے تو شاید یہ موروثیت نہیں بلکہ ہابسن چوائس کہلائے گا۔ ایسی چوائس جس کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔
تبصرہ کریں