باغوں کا شہر، تعلیم و ثقافت کا مرکز، میرا سوہنا شہر لاہور آج کل سموگ کی زد میں ہے آپ کی سماعت سے ٹکرانے والے الفاظ میں بھی شاید سرفہرست یہی الفاظ ہوں گے فوگ ( Fog ) اور پھر سموگ، فوگ سموگ، سموگ فوگ یہ چکر کیا ہے؟
چلیں ہم بتاتے ہیں لیکن پہلے ایک راز کی بات بتا دیں وہ یہ کہ ہماری وزیر اعلیٰ (اپنے ابا جان کے ہمراہ) جنیوا اور لندن علاج معالجے کی غرض سے گئی تھیں جبکہ آپ سمجھ رہے تھے سیر سپاٹے کے لیے گئی تھیں۔ آپ کیا جانیں انہیں اپنے صوبے کے دل لاہور کے ہزاروں مریضوں (بچے بوڑھے جوان) کی کتنی فکر ہے۔ جب ہی تو وہ محض اپنے ذاتی معالجین سے مشورے کے بعد وطن واپس آ چکی ہیں۔۔۔۔ اب خوش؟؟
اب دیکھ لیتے ہیں سموگ ہے کیا؟
قارئین! ہوتا کچھ یوں ہے کہ سردیوں میں بادلوں کو چین نہیں آتا لہذا رات کے وقت زمین کی سطح پر آ جاتے ہیں اور صبح سورج نکلنے کے بعد عموماً بھاگ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو ہم Fog یا دھند کہتے ہیں۔ آج جس صورتحال کا ہم سامنا کر رہے ہیں اسے دھند نہیں بلکہ سموگ کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دھند جب فضا میں موجود آلودگی سے آلودہ ہو جاتی ہے تو اس کا رنگ پیلا یا سیاہ ہوتا ہے۔ پھر مختلف گیسز، مٹی وغیرہ دھند میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کے ذرات بڑی مقدار میں ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ صنعتیں اور گاڑیاں بھی دھواں چھوڑتی ہیں۔ سورج کی کرنیں جب ان گیسوں اور ذرات پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔
ایسی فضائی آلودگی جو آپ کی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے پیارے قارئین!آپ اسے بے دھڑک سموگ کہ سکتے ہیں۔
سموگ کا مسئلہ شروع کب ہوا؟
کوئی بھی مسئلہ ایک دن کی پیداوار نہیں ہوتا۔ برسوں کی غفلت، سستی، نااہلی، بے عملی اور خیانت کی پیداوار ہوتے ہیں مسائل۔۔۔۔
آپ لوگ جانتے ہیں نا کہ ہم لوگ تو کائنات کے ایک نہایت خوبصورت نظریے کے علمبردار تھے۔ یہی ہماری شناخت تھی۔ یہ نظریہ کیا تھا۔ یہی نا کہ یہ زمین تمہارے پاس امانت ہے تم اس کے خلیفہ ہو۔ اس کا بھرپور خیال رکھنا اسے اور اس سے جڑے تمام معاملات کو بگڑنے نہ دینا۔
بنانے والے نے سمندر، دریا، وادیاں ندیاں پہاڑ، چشمے، درخت، پھل، پھول، سہانے موسم، شفاف دھوپ، چاند کی پیاری کرنیں یہ سب کچھ زمین کے ساتھ ہمیں دیا۔ ہمارے آباء نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے لٹیروں، فسادیوں، آگ اور خون کے شیداؤں سے اس زمین کی حفاظت کی لہذا ہر سو لہلہاتے کھیت، سبزہ، درخت، چرند پرند، پھل ذائقے دار، خوبصورت خوشبودار پھول، زمین کی شناخت تھے مگر ہمیں جانے کیا ہوا آباء کے طور طریقے چھوڑ دیے۔ پھر ہمیں دولت اور مادی وسائل میں انتہا درجے کی کشش محسوس ہونے لگی۔۔
ہم درخت کاٹنے لگ گئے بڑے بڑے مال کھڑے کر لیے۔ دھواں چھوڑتے کارخانے آبادیوں کے اندر قائم کر لیے تاکہ سرمایہ دار کا رعب آبادی پر قائم رہے۔ اسی طرح کی کچھ اور دھواں اور گرد چھوڑتی سرگرمیاں بھی ہونے لگیں۔
پھروہی ہوا جو ہونا تھا۔ فضا میں آلودگی کا تناسب بڑھتا گیا۔۔۔
ایک نکتہ اور بھی
آپ جانتے ہیں نا کہ جو لوگ اپنی شناخت گم کر بیٹھیں ان کی قدر وقیمت گھٹ جاتی ہے۔ جو مسافر راستہ بھول جائے، نشان منزل بھول جائے اسے لوگ کیا کہیں گے؟ پاگل کہ کے نظر انداز کر دیں گے یا پھر ترس کھائیں گے اس پر ۔۔۔ کچھ یہی حال ہمارا نہیں کیا؟ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ماحولیات بارے کانفرنس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کہ چکے ہیں کہ اب ہمیں قرض نہیں مدد درکار ہے۔۔۔۔
قارئین !لاہور کے بعد ملتان، راولپنڈی، اسلام آباد حتیٰ کہ خیبرپختونخوا کے شہروں تک بھی سموگ کا سلسلہ جا پہنچا ہے۔
تا دم تحریر لاہور فضائی آلودگی میں دوسرے نمبر پہ ہے۔ صورتحال تشویشناک ہے اور ہم اس حالت میں ہیں کہ ہم پر ترس کھایا جائے۔ کوئی انگلی پکڑ کر ہمیں بتلائے، چلائے، راہ دکھائے ۔۔۔
پاکستان کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب سے جاری ایئر کوالٹی انڈکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد چوبیس گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر مقرر ہے جبکہ رواں ماہ میں لاہور کی ایئر کوالٹی کئی مرتبہ 300 سے 500 کے درمیان رہ چکی ہے بلکہ تناسب اس سے زیادہ بھی نوٹس ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ہر عمر کے افراد کے لیے خطرناک ہے۔
سموگ کی حفاظتی تدابیر
وطن عزیز میں مسند اقتدار پر چالیس سال سے براجمان خاندان اور ان کی پارٹی اگر چاق چوبند ٹیم، واضح نصب العین اور مخلص کارکنان کی حامل ہوتی تو شاید مسائل بھی ایسی شدت اختیار نہ کرتے۔۔۔
حکومت کچھ معروضی اقدامات تو اٹھا رہی ہے لیکن
قارئین! عشروں کی غفلت سے جو مسائل جنم لے چکے ہوں ان کا حل بھی سوچتے ہوئے یہی دیکھا جاتا ہے کہ مسئلہ کی بنیاد کیا ہے۔
ہم آپ کو بتائیں محکمہ جنگلات لاہور کو جو رقم دی گئی تھی درخت لگانے کے لیے وہ افسران کھا گئے، درخت لگائے نہیں۔ بس! نمائشی کارروائی کے طور پر کچھ پودے لگا دیے، دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ان کی افزائش بھی نہ ہو پائی۔
تو ثابت کیا ہوا؟ یہی نا کہ افراد کی تربیت کی ضرورت ہے۔ تربیت کون کرے؟ کیا یہ پارٹیاں جو یکے بعد دیگرے براجمان ہوتی ہیں۔ ان کے پاس بہترین انسان منظم کرنے کا تربیتی پروگرام ہے؟ نہیں ہے، قطعاً نہیں تو پھر آپ ان جماعتوں کے سپورٹرز کیوں ہیں؟؟؟
کیا آپ کو اپنے ملک میں ایسا کوئی سیاستدان/ لیڈر نظر نہیں آتا جو مرد کوہستانی یا مرد صحرائی نہ بھی ہو لیکن فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنا جانتا ہو ۔۔۔
ہمارا اگلا مشورہ آپ کے لیے یہی ہے کہ فطرت کے قریب آجائیے۔ مان جائیے اس جدید طرز زندگی نے ہماری صحت برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یورپی و مغربی ممالک نے ایک نظام وضع کیا، پھر اس پر جم گئے اور عوام کے دلوں میں قانون اور سی سی ٹی وی کیمرے کا خوف بٹھا دیا ہے لہذا وہاں نظام اچھے انداز میں چلتا ہے۔
ہم نسلی مسلمان ہیں۔ ہمارے عوام قانون اور کیمرے کو اہمیت نہیں دیتے۔ انھیں تعلیم وتہذیب سکھانے کی ضرورت ہے اور انہیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین معلم اور معمار تہذیب ﷺ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ ان کی یاد میں بس چند دن چراغاں کر کے اس کے لیے باعث آزار نہ بنو، ان کی اداؤں کو اپناؤ۔
روایت میں آتا ہے کہ ایک کھجور کا تنا تھا جس پر نبی کریم ﷺ دوران خطبہ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺ کے لیے منبر رکھ دیا گیا اور آپ ﷺ نے اس تنے کے ساتھ ٹیک لگانا چھوڑ دیا تو یہ تنا بچے کی طرح رونے لگا۔ آپ ﷺ منبر سے نیچے اترے اور اس تنے کو محبت سے اپنے ساتھ لگایا تب اسے سکون ہو گیا ۔۔۔
پیارے قارئین! آج ہی ایک کام ہم کر لیں ایک تنا یا پودا یا درخت کوئی ایسا ہو جس کے ساتھ ہماری نشست و برخاست ہو۔ ہم اس کی دیکھ بھال کریں، اس سے پیار کریں، وہ ہم سے پیار کرے۔ اگر ہم اس کے ساتھ ٹیک نہ لگا پائیں آنے والی نسل لگائے گی ٹیک ۔۔۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہونے لگے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو (جس کو وہ لگانا چاہ رہا ہو) تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگا دے ۔۔۔”
کس قدر اہمیت ہے شجر کاری کی کہ قیامت کا نقارہ بج چکا ہو پھر بھی اس کے امکان کو رد نہیں کیا گیا۔ آپ ﷺ کی یہ ہدایات کیا کسی کے استفسار پر تھیں کہ سموگ کیا ہوتا ہے؟ ہمیں سموگ کے نقصانات بتائیں، ہمیں سموگ سے بچاؤ کی تدابیر بتائیں ۔۔۔ نہیں، کسی نے ایسا سوال نہیں کیا تھا۔ فضائی آلودگی اس دور میں نام کی نہیں تھی۔ ان حالات میں آپ ﷺ درخت اور پودوں کی اہمیت پر بات کر رہے ہیں ( اور تاریخ گواہ ہے اس معلم تہذیب کے شاگردوں نے عین میدان جنگ میں بھی ماحولیاتی حسن کو بگڑنے نہیں دیا) تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فضائی آلودگی کی ایسی شدت کے دوران آپ ﷺ کی تعلیمات اور طرز عمل کیا ہوگا ۔۔۔
تو کس قدر ظالم ہیں وہ افسران جو شجرکاری کا پیسہ ہڑپ کر گئے۔ کس منہ سے یہ لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں۔۔۔
قارئین! آئیے! اب ہم سموگ سے بچاؤ کی تدابیر دیکھ لیتے ہیں۔
•گھر سے نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں
• اپنے ہاتھوں اور آنکھوں کو بار بار دھوتے رہیں۔
•بچے اور عمر رسیدہ افراد بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں۔
• گھروں اور دفاتر میں کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔
گھروں میں ہوا کی صفائی کے لیے Air Purifiers استعمال کریں اگر جیب اجازت نہیں دیتی تو وزیر اعلیٰ سے رابطہ کریں (اگر رابطہ ہوتے ہوتے سموگ ہی ختم ہو جائے تو ہمارا مشورہ اگلی سموگ کے لیے سنبھال رکھیے)
•آنکھوں کی حفاظت کے لیے چشمے کا استعمال کریں
” کوڑا کرکٹ کو بلا وجہ جلانے سے احتراز کیجیے ۔اپنی کوشش کی حد تک فضا کو آلودہ ہونے سے بچایے بھلے سگریٹ نوشی ہی ترک کرنا پڑے۔۔۔
خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم اس دیس کو واقعی ایسا بنا دیں کہ جو ہر وقت ہم قومی ترانے میں گنگناتے ہیں
۔۔۔ کشور حسین شاد باد
تبصرہ کریں