برطانوی جریدہ دی گارڈین نے لکھا ہے کہ پاکستانی فوج جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا کسی بھی طرح کی ڈیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔
برطانوی جریدے نے لکھا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں جبکہ ان کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم دی گارڈین اپنی قانونی ٹیم کے ذریعہ عمران خان تک سوالات پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے۔
دی گارڈین کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ گزشتہ برس اگست میں گرفتار ہونے کے بعد ان کا فوج کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرنے سے انکار نہیں کریں گے حالانکہ ماضی میں وہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر اپنی حکومت گرانے اور انہیں جیل میں قید کرنے میں کردار ادا کرنے کے الزامات لگا چکے ہیں۔
لندن میں قائم بین الاقوامی سطح کے جریدے کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ فوج کے ساتھ ڈیل جمہوری اقدار کو نقصان پہنچانے والے ذاتی مفادات یا سمجھوتے پر نہیں بلکہ اصولوں اور عوامی مفادات کی بنیاد پر ہو گی۔ عمران خان نے مزید کہا کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کی بجائے اپنی زندگی جیل میں گزارنے کو ترجیح دیں گے۔
دی گارڈین نے لکھا ہے کہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مداخلت اکثر جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ عمران خان کے 2022 میں فوج کی قیادت کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور پھر انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا جبکہ اس کے بعد عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر اپنے خلاف قاتلانہ حملے اور اپنی گرفتاری میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے الزامات لگانا شروع کر دیے۔
برطانوی جریدے کے مطابق عمران خان کو فی الحال 100 سے زائد
مقدمات کا سامنا ہے جن سے متعلق عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ موجودہ حکومت تشکیل دینے والے
ان کے سیاسی و فوجی مخالفین کی جانب سے بنائے گئے ہیں۔ بہر حال جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے متعلق عمران خان کے بیانات میں
مفاہمتی رویہ بڑھتا جا رہا ہے۔ رواں برس جولائی میں عمران خان نے عوامی سطح پر نئے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی شرط کے ساتھ فوج کو مذاکرات کی پیشکش کی۔
دی گارڈین نے لکھا ہے کہ سینئر عسکری قیادت کے مطابق عمران خان گزشته چند مہینوں سے فوج کے ساتھ پس پردہ بات چیت کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ
عمران خان نے اپنی رہائی کے لیے ڈیل کی کوششوں میں غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے تاہم فوجی قیادت نے عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے واضح طور پر انکار کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح کے جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کی سینئر شخصیات نے عمران خان کی جانب سے رہائی کے لیے ڈیل کی کوششوں پر تبصرے میں کہا ہے کہ عمران خان عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کریں اور فوج کے ساتھ کسی بھی ڈیل کی توقع نہ رکھیں۔ عمران خان ہر کسی کو قانون کی پیروی کا کہتے ہیں لیکن خود اپنے لیے قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے۔
برطانوی جریدے نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کا از سر نو تعین کرتے ہوئے اسے پانچ برس تک بڑھا دیا ہے جبکہ حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ کے معاملات میں بھی تبدیلیاں کی ہیں جس سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الزام لگایا ہے کہ یہ فوج کے ایجنڈے کو پورا کرنے اور عمران خان کی رہائی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
دی گارڈین کے مطابق عمران خان نے پارلیمنٹ میں ہونے والی آئینی ترامیم اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف رواں ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کو احتجاج کی ہدایات جاری کی ہیں جسے ’فائنل کال‘ کہا جا رہا ہے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کو مسلسل کریک ڈاؤن کا سامنا ہے جبکہ پارٹی قیادت میں شامل کچھ افراد جیلوں میں قید ہیں اور باقی پاکستان سے باہر جا چکے ہیں۔
برطانوی جریدے نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اب تک تصدیق نہیں کی کہ آیا وہ رشوت سے لے کر دہشتگردی تک عمران خان کے خلاف مبینہ جرائم کے مقدمات سویلین عدالتوں کی بجائے فوجی عدالت میں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں تاہم عمران خان اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی سویلین پر فوجی عدالت میں مقدمہ کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے یہ خیال مضحکہ خیز اور تشویشناک ہے کہ کوئی دوسری عدالت مجھے مجرم نہیں ٹھہرائے گی۔
لندن سے شائع ہونے والے جریدے کے مطابق اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں کیسے حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے الزام لگایا کہ عمران خان کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور ان کے بیٹوں کو فون کال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ حکومت کی جانب سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان کو ان کے ذاتی باورچی کے ساتھ ایک پرتعیش ماحول فراہم کیا گیا ہے۔
دی گارڈین نے لکھا ہے کہ عمران خان نے حکومتی دعوؤں کے برعکس کہا ہے کہ انہیں ڈرانے، الگ تھلگ کرنے اور ان کے عزم کو توڑنے کے لیے مخصوص ماحول میں رکھا گیا ہے۔
عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ مجھے 15 روز تک کسی بھی انسانی رابطے سے روک کر رکھا گیا اور میرے سیل میں بجلی نہیں تھی جبکہ مجھے ورزش اور بنیادی آزادیاں فراہم کیے بغیر 24 گھنٹے لاک اپ میں رکھا گیا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق عمران خان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صحافیوں کو ان سے ملنے سے روکنے یا ان کے ٹرائلز کی آزادانہ کوریج پر پابندی لگانے سے شفافیت سے متعلق سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ بہر حال عمران خان نے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر یقین ہے کہ بالآخر انصاف ملے گا اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر عوام کی مرضی ہے تو انہیں دوبارہ وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے کا موقع ملے گا۔
تبصرہ کریں