سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 9 مئی 2018 کے واقعہ پر آٹھ ماہ بعد خاموشی توڑتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں سخت ٖفیصلہ تحریر کیا ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق انہوں نے سپریم کورٹ کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پشاور میں بنچ ازسر نو تشکیل دینے کا چیف جسٹس کا فیصلہ غلط تھا اور جسٹس قاضی فائز سے اتفاق کرتا ہوں ۔
چھ صٖفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ 9 مئی کے دن پشاور میں انسانی حقوق کے مقدمات سنتے ہوئے ایک موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے وکیل سے پوچھا کہ کیا ہیومن رائٹس سیل کے ڈائریکٹر کو یہ کیس اس طرح لگانے کا اختیار تھا تو چیف جسٹس نے اس اختلاف پر فورا کہا کہ یہ بنچ ٹوٹ گیا ہے اور ہم ازسر نو بنچ تشکیل دیں گے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کے مطابق دوبارہ عدالت لگی تو اس میں جسٹس قاضی فائز شامل نہ تھے، چیف جسٹس اور میں نے مقدمات سنے ۔
فیصلے کے مطابق بعد ازاں جسٹس قاضی فائز نے اختلافی نوٹ لکھا ۔ میں آج تک انتظار کرتا رہا کہ 9 مئی کو سنے گئے مقدمات میں چیف جسٹس تحریری حکم جاری کریں گے اور جسٹس قاضی فائز کے نوٹ کا بھی جواب دے کر آئینی سوالات کا جواب دیں گے مگر تاحال ایسا نہ کرنے پر میں یہ فیصلہ لکھ رہا ہوں کیونکہ چیف جسٹس 17 جنوری کو ریٹائر ہو رہے ہیں ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ میں اپنے ساتھی جج قاضی فائز سے متفق ہوں کہ چیف جسٹس کا ان مقدمات میں بنچ کا دوبارہ تشکیل دینا غیر ضروری تھا اور اس کی عدالتی مثال پہلے نہیں ملتی جس سے نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق اس دن ازسر نو تشکیل دیے گئے بنچ کی جانب سے سنے گئے مقدمات کی دوبارہ سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیے جائیں اور مقدمات کے اسٹیٹس کے حوالے سے عدالتی ریکارڈ کو درست کیا جائے ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ 9 مئی کو سنے گئے کچھ مقدمات کے حکم نامے میرے سامنے دستخط کرنے کیلئے لائے گئے مگر میں نے اس لئے انکار کیا کہ پہلے جسٹس قاضی فائز کے نوٹ کا جواب لکھا جائے ۔