جون ایلیا اور زاہدہ حنا کی بیٹی فینانہ فرنام کی دل گداز تحریر
آج ابو کی انیسویں برسی ہے۔ دنیا اور ان کے مداحوں نے انھیں آج کے دن کھویا تھا مگر میں نے ابو کو سالہا سال پہلے کھو دیا تھا۔ یہ وہ موضوع ہے جس پہ میں بات نہیں کرتی یا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں برسوں خاموش رہی۔ بہت سے لوگوں نے چاہا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں مگر میں نے ہمیشہ ٹال دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ سمجھتی ہوں، یہ بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے اور اپنے گھر کی بات میں دنیا سے کیوں کروں۔
سحینا اور میں نے کئی دفعہ چاہا کہ ہم اس لیے ابو کے بارے میں بات کریں کیونکہ ہماری خاموشی کی وجہ سے لوگوں نے ایسی باتیں کیں جو بڑی تکلیف دہ تھیں اور سچ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔

میری، سحینا اور زریون کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے دونوں والدین مشہور ہیں اور مشہور لوگوں کی زندگی پر بات کرنا ان کے مداح اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بات اتنی سادہ ہوتی تو کوئی مشکل نہ تھی مگر سچائی کا علم ہوئے بغیر یا ایک طرف کی بات سن کر رائے قائم کرنا اور اس پر یقین کرلینا زیادتی ہے۔ ہماری خاموشی نے لوگوں کی مزید حوصلہ افزائی کی۔ جس کا جو دل چاہا وہ اس نے کہا اور لکھا۔
آج سے زیادہ کوئی دن موضوع نہیں جب میں وہ سب یہاں لکھوں جو لکھنا آسان نہیں اور جسے لکھنے سے میں ہمیشہ بھاگتی رہی۔
بارہ برس کی عمر تک یہ تصویر ہی میری زندگی کا سچ تھی۔ میں زندگی کو ایسا ہی سمجھتی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ تصویر میری زندگی کا اصل سچ نہیں ہے. مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت جب یہ تصویر کھینچی گئی تب اس میں امی ابو سچ میں ایسے ہی تھے ایک دوسرے کے لیے یا وہ میری سالگرہ پہ مجھے خوش کرنے کے لیے اس تصویر میں وہ رنگ بھر رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا۔
جب ایک دن آدھی رات کو میں نے ابو کو امی سے لڑتے ہوئے سنا تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کیفیت کو میں آج بھی بیان نہیں کرسکتی۔ میں صبح کے انتظار میں جا گتی رہی۔ مجھے امی سے بات کرنا تھی۔ مجھے جاننا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ مجھے اس وقت رونا چاہیے تھا۔ میں اگر کسی فلم میں بھی کوئی جذباتی منظر دیکھ لوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ سینما میں میرے بچے خوب ہنستے ہیں مجھے اس طرح جذباتی ہوتا ہوا دیکھ کر، مگر اس رات میری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں گرا تھا۔

صبح میں نے جب امی سے پوچھا کہ کیا کل رات ابو آپ سے لڑ رہے تھے؟ تو وہ ایک سوال تھا اپنے کانوں سے سب سن کر بھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو دنیا کا آئیڈیل جوڑا سمجھتی تھی اور ابو میرے آئیڈیل تھے۔ میں ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی، امی سے بھی زیادہ۔ اور اس لہجے کی توقع میں ان سے نہیں کرتی تھی۔
امی نے مجھے بہلا لیا تھا۔ وہ شاید مجھے میری اس خیالی دنیا سے اصلی دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ حقیقت مجھے بہت زیادہ تکلیف دے گی مگر کب تک۔ میں نے امی کی بات پر یقین کر لیا شاید اس لیے کہ میں کچھ اور جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امی ابو کے اختلافات کمرے میں ہی حل ہوجاتے تھے مگر چند برس بعد یہ اختلافات کمرے کی چاردیواری سے نکل کر لوگوں کی گفتگو کا موضوع بن گئے۔
وہ بہت مشکل وقت تھا۔ امی اور ہم تینوں بھائی بہنوں نے لوگوں سے وہ کچھ سنا اور برداشت کیا جو بہت تکلیف دہ تھا اور یہ اس لیے ہوا کہ ابو ہر جگہ بیٹھ کر ہمارے لیے جو دل چاہتا وہ کہتے اور لوگ ان کی بات کا یقین کر لیتے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جون ایلیا ان کے لیے ان کے پسندیدہ شاعر ہیں مگر میرے تو وہ باپ ہیں۔ میں زندگی کو ان کے مصرعے میں تلاش نہیں کر سکتی تھی۔ میری تو زندگی تھے وہ۔ میرے، سحینا اور زریون کے تو باپ تھے وہ ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہیے تھا جو کہیں کھو گیا تھا۔

وہ یہ بھول جاتے تھے کہ ہم کس جماعت میں پڑھ رہے ہیں یا ہماری عمر کتنی ہے۔ انھیں ہماری سالگرہ یاد نہیں رہتی تھی۔ وہ جب مجھے یا سحینا کو پکارتے تو ہمارے بجائے اپنی بھتیجیوں کے نام لیتے۔ ابو نہ تو خود امی کو قبول کر سکے اور نہ ان کے خاندان نے امی کو کبھی قبول کیا۔ اس لیے کہ امی امروہہ کی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ شیعہ تھیں۔ ان باتوں کی وجہ سے امی ابو میں وہ فاصلے پیدا ہوگئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابو سے یہ بات ہضم کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا کہ وقت کے ساتھ امی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور ان سے ایسی سوچ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
میں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ میں کس کی بیٹی ہوں تو سرگوشیاں شروع ہو جاتیں اور جو کچھ سننا پڑتا اس سے تکلیف ہوتی۔
جب نویں کلاس میں امتحانی فارم آئے تو میں نے گھر جا کر کہا کہ میں اپنا نام تبدیل کرناچاہتی ہوں۔ تب میرا نام فینانہ جون تھا۔ امی بہت حیران ہوئی تھیں کہ میں کیوں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے ابو کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگانا۔ میں اس وقت سولہ سال کی تھی اور یہ فیصلہ کرنا میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ مگر میں جانتی تھی کہ وہ رشتہ جو دنیا میں مجھے سب سے پیارا تھا وہ میرے اور ابو کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ختم ہوگیا ہے۔ ابو میرے لیے اس دن مر گئے تھے، میرے لیے زندگی کے معنی تبدیل ہو گئے تھے۔ میرا نام جون سے فرنام ابو نے ہی رکھا تھا۔ میں جب پیدا ہوئی تو ابو نے میرا نام فینانہ جون رکھا تھا۔ ابو سے جب میرا رشتہ ٹوٹ گیا تو میرے لیے سب کچھ بدل گیا، میری پہچان بدل گئی اور ایسا ابو کی وجہ سے ہوا اس لیے میری ضد تھی کہ اب جو نام رکھا جائے گا وہ ابو ہی رکھیں گے۔

میرے لیے بہت مشکل تھا لوگوں کا سامنا کرنا، ان کے چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب دینا مگر پھر مجھے سمجھ میں آگیا کہ میں ابو کے کیے کی ذمہ دار نہیں ہوں. وہ اپنے کیے کے ذمہ دار خود ہیں۔ ابو اکثر امی سے لڑائی کے بعد کہتے کہ انھیں یاد نہیں کہ پچھلی رات کیا ہوا تھا اس لیے کہ وہ شراب کے نشے میں تھے مگر ہم سب جانتے تھے کہ وہ مکمل ہوش و حواس میں یہ سب کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے یہ مسائل نہیں کہ وہ گھر کے کرائے یا سودا سلف کے بکھیڑوں میں پڑے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے تھے۔ میں نے اپنے دادا دادی کو نہیں دیکھا۔ ان کا انتقال امی ابو کی شادی سے پہلے ہو گیا تھا۔ وہ دونوں سادہ مزاج تھے اور ابو کے طرز زندگی سے دکھی رہتے تھے۔ ابو کا یہ خیال کہ شاعر اور ادیب کو زندگی کے ان جھمیلوں سے آزاد ہونا چاہیے دراصل زندگی اور اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے فرار تھا۔
جب میں چار برس کی تھی تو ابو مجھے اپنے ساتھ علیم ماموں (مشہور شاعر) کے ہاں لے کر گئے۔ امی مجھے نہیں بھیجنا چاہتی تھیں، مگر ابو ضد کرکے لے گئے۔ جب ابو رات دو بجے واپس آئے اور امی نے ان سے دروازے پر پوچھا کہ فینی کہاں ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا ’مجھے کیا معلوم اندر ہو گی‘۔ میں سوچتی ہوں کہ امی پہ اس وقت کیا گزری ہو گی۔ امی مجھے جاکر لائی تھیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ چاہے شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا موسیقار ہم فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی طرح کیسے زندگی گزار سکتا ہے۔ وہ تو شاعر ہے، مصور ہے تو اس سے ذمہ داری کا تقاضا کیسے کیا جائے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر والے بھی ہیں اور گھر والوں کے لیے ان کا زندگی کے ہر قدم پہ موجود رہنا اور ساتھ دینا ضروری ہے۔
میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ابو کے مداح ابو کے بچوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم ابو کو سرکار، مرشد جون ایلیا سمجھیں ہم ان کے چاہنے والوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہمارے لیے وہ فقط باپ تھے۔ ہمیں ان سے صرف محبت اور شفقت چاہیے تھی۔ اولاد اپنے باپ سے اتنا تو چاہ ہی سکتی ہے۔ باپ شاہ ہو یا گدا، اولاد کے لیے صرف باپ ہوتا ہے۔ ہم تینوں بھی صرف اپنے باپ سے ان کی محبت چاہتے تھے۔
ابو سے زیادہ خوش قسمت انسان میں نے نہیں دیکھا۔ قدرت نے انہیں سب دیا عزت، شہرت، مگر وہ خوش نہیں رہ سکے کیونکہ انھوں نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی۔ جو انسان محبت کرنے والے ماں باپ کا اور اولاد کا نہ ہو وہ اپنا بھی نہیں ہو پاتا۔
ابو کے انتقال کی خبر مجھے فون پر امی نے دی تھی۔ مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ ابو نہیں رہے۔ وہ میری زندگی سے بہت پہلے رخصت ہو گئے تھے اور اس دن وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہمارے لیے باپ کا خانہ خالی رہا جس کی وجہ سے زندگی وہ نہیں رہی جیسا اسے ہونا چاہیے تھا مگر امی، نانی اماں، خالہ، ماموں، بوا، انکل اور رحمت ماموں ان سب نے ہمیں بہت پیار دیا۔ ابو کے ہوتے ہوئے ان کے بغیر زندگی کا قرینہ ان سب سے سیکھا۔ زندگی کو ہم نے سر اٹھا کر جیا اور ہر لمحے زندگی نے جو خوشیاں اور نعمتیں ہمیں دیں ہم اس پر شکرگزار رہے۔
ابو اگر ہماری زندگی میں ہوتے تو زندگی بہت الگ ہوتی جو زندگی ان کے بغیر جینی پڑی اس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اس نے ہمیں وہ بننے میں مدد دی جو آج ہم ہیں۔ میرے دونوں بہن اور بھائی نہ صرف بہت اچھے انسان ہیں ان کو اس کی بھی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے سر اٹھا کر زندگی کو جیا جو آسان نہیں تھا۔ امی کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا تو مشکل ہے کہ انھوں نے کیسے تین بچے تن تنہا پالے اور ہم اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔
میری جب کامران سے شادی ہوئی تھی تو امی نے ان سے اور ان کے گھر والوں سے ابو کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کی تھی۔ میں نے اپنے طور پر بھی کامران سے بات کی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ ابو کے مداح ہیں اور ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابو زندہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی میں کہیں نہیں ہیں۔ وہ آج بھی ابو کے مداح ہیں مگر وہ میرے اور ابو کے تعلق کے ٹوٹ جانے کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں۔ میرے دونوں بچے میرے باپ سے میرے تعلق کو جانتے ہیں۔ میری بیٹی ان کی شاعری پڑھتی ہے اور میرا بیٹا کالج سے آکر بتاتا ہے کہ اس کے دوست محبت میں ناکام ہو کر ابو کی شاعری پڑھتے ہیں۔
29 پر “جون ایلیا: ابو سے میرا رشتہ کیوں اور کیسے ٹوٹا؟” جوابات
فینانہ فرنام نے بہت پرائیویٹ بات چوراھے پر کیوں رکھی، یہ سوچ کر دل دھل گیا ھے۔ بھلے کوئی اتنا سچ بھی بولتا ھے فینانہ جی 🙏🏻
یہ کام بھی جون ایلیا کی بیٹی ہی کر سکتی تھی جو اتنا سچ بولتا تھا کہ لوگ حیران و ششدر رہ جاتے تھے ۔۔۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ہمارے اکثر ادیب اور شاعر "الہامی شعور کی عطا” برداشت نہیں کر پاتے اور نشے میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر تو زندگی موت کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش میں پٹڑی سے ایسے اترتے ہیں کہ خالق سے الجھ جاتے ہیں، پہلی لڑائی خود سے دوسری خدا سے لڑتے ہیں۔ پھر وہ ماحول کو رزم گاہ بنا لیتے ہیں۔ میاں بیوی کی اعلانیہ لڑائی ہمارے معاشرے کا ایسا المیہ ھے جس پر ہم بات نہیں کرتے حالانکہ اس پر مکالمہ ہونا چاہیئے خصوصاً جب اولاد براہ راست متاثر رہی ہو۔ ہمارے اکثر بڑے لوگوں کی اولادیں ان کو بڑا ماننے سے انکاری ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ بڑا شخص حقیتاً کتنا بڑا ھے، وینا جناح ہو یا حیدر فاروق مودودی اور فرینانہ فرنام سبھی کو اپنے والد سے شکایتیں ہیں۔ (حالانکہ موخرالذکر کے علاوہ دیگر دونوں بڑے لوگ حقیقتاً محسنین ملت ہیں)
ہمارے آرٹسٹ، شعراء، پینٹرز، فلم ڈائریکٹر، فنکار، سیاستدان، گلوکار، ادیب حتیٰکہ قوال سگریٹ شراب اور دیگر کبائر میں ایسے مبتلا ہو جاتے ہیں جیسے ان پر سب کچھ نشہ کرنے کی وجہ ہی اترتا ھے۔ ان کے مداحین بھی ان کو قبول کرتے آئے ہیں۔ فرینانہ کے والدین کو میں الگ الگ سے جانتا تھا، یعنی جون ایلیا کو ان کی شاعری کے دروازے سے اور زاہدہ حنا کو ان کے کالمز کی کھڑکی سے۔ پہلی مرتبہ جب علم ہوا کہ دونوں میاں بیوی ہیں تو دھچکا سا لگا لیکن ان کی پرائیویٹ زندگی بارے ان کے قریبی دوستوں کے علاوہ کسی کو کچھ علم تھا نہ کوئی جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ ہمیں فرنام کی جرات کی تحسین کرنی چاہیئے اور ان کے انکشافات میں جو عبرت کا سبق ھے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اولاد کی ذمہ داری سے فرار کوئی راستہ نہیں، بند گلی ھے۔ یورپ امریکہ نے تو ایسے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کر رکھی ھے لیکن ہمارے ہاں اس مسئلے کو "عزت کی چادر” سے ڈھانپ دیا گیا ھے۔
آخر میں ایک دو باتیں اور بھی کرنا ہیں۔ پہلی بات، یہ مختلف مسالک/مذاہب کے جوڑے بنانا آسان نہیں ہوتا۔ ہم تو مختلف برادری کو قبول نہیں کرتے، لسانی اور علاقائی اختلاف بھی میاں بیوی کے بیچ کی دیوار بن جاتے ہیں جس کے براہِ راست اثرات اولاد پر ہوتے ہیں۔ دوسری بات سگریٹ چرس شراب کو بڑے لوگوں کی نشانی سمجھنے سے انکار کرنا ہو گا۔ میں نے بہت قریب سے اس صدی کے ایک بڑے شعراء نعیم صدیقی, کمال سالارپوری، سلیم ناز بریلوی اور افضال صدیقی کو دیکھا ھے ۔۔۔ صوم و صلواٰة کے پابند اور خلوت کے پاکباز لوگ ۔۔۔ اپنے خاندان اور فیملی کی ضروریات کا خیال رکھنے والے لوگ ۔۔۔ نعیم صدیقی نے تو ایک طویل نظم اپنی بیگم کے نام لکھی ھے۔
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا
ایک سوالیہ نشان میرے ذہن میں صلیب کی طرح گھڑا ھے، "محبت کی اس داستاں میں ماں ہمیشہ ہیرو اور باپ ولن کیوں ہوتا ھے؟” شاید آپ میرے سوال کا جواب دے سکیں 🙏🏻
مجھے آج تفصیل پتہ چلی اور بھٹی صاحب نے بھی بہت اچھے انداز و الفاظ میں تفصیل پیش کی ہے
مجھے آج تفصیل پتہ چلی اور بھٹی صاحب نے بھی بہت اچھے انداز و الفاظ میں تفصیل پیش کی ہے
میں زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں ایک چھوٹا سا مزدور ہوں جتنی بھی تعلیم ملی اس میں مجھے صرف اردو سے لگاو تھا اور میں نے جب آٹھویں کلاس پاس کی تو پتہ چلہ کہ اگلی کلاس کے لئیے یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ آپ کون سے صعبہ میں اگلی تعلم یعنی نویں کلاس میں جانا چاہتے ہیں
مجھے کلاس کے کسی ٹیچر نے پوچھنے پر بھی نہیں بتایا کہ یہ سائینس کامرس اور آرٹس میں کیا فرق ہے۔ کلاس میں بس ٹیچر نے کیا کے ہاتھ کھڑا کیجئے۔ پہلے انہوں کہا کہ جو جو سائینس لینا چاہتے ہیں ہاتھ کھڑا کریں۔ کلاس کل 76 طلبہ تھے۔ 30 نے سائنس کے لئیے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔
ہم حیران تھے کہ یہ ہر کتاب کے الگ الگ پڑھنے والے بچے کیسے بناے جا رہے ہیں
ہم نے دوچا دیکھئیے آگے کیا کیا انتخاب سامنے آتا ہے۔ دوسرے نمبر پر آواز لگائی گئی۔ کون کون کامرس لینا ہے 24 بچوں نے اس کے لئیے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ اب بچے ہم 6 طلبہ۔ ہم سب پریشان کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ
استاد نے کہا کہ اب آخری شعبہ ہے جو باقی چھ طلبہ بچے ہیں میں انُکو آرٹس میں شامل کر رہا ہوں
مختصر یہ کہ اس اسکول میں۔ سائینس اور کامرس پڑھانے والے اساتزہ تو تھے لیکن آرٹس کا سججیکٹ پڑھانے والا کوئی ٹیچر نہیں تھا اور کلاس صر ف دو لگتی تھیں۔ ہمیں دونوں کی پچھلی کرسی ہر بیٹھا دیا جاتا اور کہا جاتا کہ خاموشی سے بیٹھنا کوئی سوال نہ کرنا کیونکہ یہ آپ کا شعبہ نہیں ہے۔
مطلب ہم یتیم ہو چکے تھے۔ ہم اسکول کے پرنسپل کے پاس چھ بچے گئیے ان کو اپنا مسعلہ بتایا تو انہوں صاف جواب دے دیا کہ اب چھ طلبہ کے لئیے اسکول کسی نئیے ٹیچر کو تو جوب پر نہیں رکھے گا آپ لوگ چاہے کلاس میں بیٹھو چاہے اردو اور تاریخ پاکستان کی کلاس کے بعد گھر چکے جاو۔
بس جی یہاں سے ہماری تعلیم کی بربادی کا آغاز ہوا۔ تین بچے تو اسکو ل چھوڑ کر چلے گئیے کیونکہ ان کی کارباری دکانیں تھیں ان کے والدین نے کہا کہ ہمیں بس جمع تفریک پڑھا لینا ہی کافی ہے۔ ہم نے اپنے والد سے بات کی وہ اسکول گئیے بات کی لیکن جواب یہی کہ آپ دو سجیکٹ اسکول میں پڑھوائی اور باقی چار آرٹس جے سبجیکٹ کے لئیے ٹیوشن پڑھائیے۔
خیر کوئی ٹیوشن نہیں پڑھی کے گھرکے مالی مساعل ایسے تھے کہ والد رکشہ چلاتے تھی میرا ایک چھوٹا بھائی تھا ایک بہن۔ جو میٹرک کے بعد شادی ہو کر سسرال چلی گئی تھی۔
جب نویں کلاس کا نتئجہ اخبار میں ڈھونڈا گیا تو پتہ چلا ہم چھ میں سے صرف دومیں پاس اور چار پیپرز میں فیل ہیں۔ پہلے دن تو گھر میں ڈنڈے سے پٹائی کی گئی۔ پھر اگلے سال کے گیارہ ماہ اسی اسکول میں صرف دو سبجیکٹ پڑھ کر دوسری خالی کلاس میں بیٹھے رہتے یا باہر گراونڈ میں پی ٹی کے ٹیچر کے ساتھ فٹبال کھیلتے۔ جب میٹرک کے امتحان کا اعلان ہوا تو بورڈ کا امتحان ایک ماہ بعد کسی دوسرے اسکول میں جانےطکے لئیے اسکول کا نام نوٹس برڈ پر لگا دیا گیا۔ تب ہم کو پریشانی ہوی کہ میٹرک میں چار پیپر نویں کے اور چھ پیپر میٹرک کے دینے ہیں اب تو بری طرح فیل ہونا ہے اور پٹائی بھی خوب کی جاے گی اور ہم کو بھئ اب رکشہ چلانا پڑے گا۔
ہم نے جا کر والد کو بتایا جو رات کو دیر سے تھکے ہوے آکر کھانا کھا کر نماز پڑھ کر سو جاتے اور صبح ہمارے اسکول جانے کے بعد اٹھ کر بنا ناشتہ کئیے رکشہ لیکر چلے جاتے کیونکہ والدہ نابینہ تھیں اور جو بہن ناشتہ بناتی تھی وہ اپنے سسرال چلی گئی تھی اس لئیے گھر میں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا نہیں پکتا تھا رات کو والد آتے تو ہوٹل سے سالن روٹی لیکر آتے ہم کو سوتے میں اٹھا کر کھانا کھایا جاتا
کہانی لمبی ہے مگر سننے والوں کو علم ہوگا غریب کے بچوں کو علم حاصل کرنے مییں کیا کیا پریشانی ہوتی ہے۔ ہم لانڈھی میں رہتے تھے۔ ولد نے بڑی مشکل سے ایک ٹیوشن تلاش کی اس ٹیچے نے بھی کہہ دیا بیس دن امتحان کو رہ گئیے ہیں اور میں ہفتہ میں صرف تین دن پڑھاتا ہو آپ کے بچے کو آٹھ دس دن میں دس سبجیکٹ میں کیسے پاس کروا سکتا ہوں اور میں صرف حساب کے سبجیکٹ کا ماسٹر ہوں باقی ماضامین بہت کم جانتا ہوں۔
خیر والد صاحب نے جد اپنی پریشانی بتائی تو وہ اس شرط پر تیار ہوے کہ اس سال تو بچہ صرف دو سبجیکٹ میں پاس ہو گا اس کو ایک سال اور میٹرک پڑھنا ہوگا تب گارنٹی سے فرسٹ کلاس حاصل کروا دونگا
خیر روز شام تین بجے لانڈھی سے صدر جانا پھر ونہاں سے پیدل ارام باغ آٹھ دن گئیے اور میٹرک میں سیکنڈ کلاس پاس کی۔ حساب میں سو میں سے نیانوے نمبر حال کر لئیے اس کے بعد جامعہ ملیہ کالج سے بے اے آرٹس میں کے جہاں شفع نقی جامعی کے ساتھ اردو کی کلاس میں کچھ شاعری کا پڑھنے میں پتہ چلا کہ اردو کی شروعات ہی اہل تشہی گھرانے سے ہوئی ہے اور مرزا انیس۔ اور مرزا دبیس۔ دونوں بھائی الگ الگ انداز میں مرشیہ لکھتے تھے بعد میں مراز غالب اور میر تقی میر اکبر الہہ آبادی۔ داغ۔ وغیرہ کے بعد تھوڑا سا اقبال کی طرف آیے تو والد اللہ کی طرف چلے گئیے ہمیں نوکری کرنے کی وجہ سے کراچی یونورسٹی سے اردو میں ایم اے کرنا بھی مشکل یوں پڑا کہ کہ چور پیپر تو اردو پڑھی لیکن دو پیپر فارسی میں ہونے کی وجہ سے فیل ہو گئیے اور اب فیس بک پر بڑھاپے میں پتہ چلا کہ مشہور ترین شاعر حضرات شراب اور نشہ میں کیا کیا برباد کرتے تہے میرے چار بیٹے ہیں بیٹی نہیں ملی لیکن کوبھی بھی نہ سگریٹ نہ پان گٹکا کچھ بھی نہیں کھاتے چاروں نے الگ الک پرائیویٹ یونیورسٹی سے الگ الگ شعبہ میں ماسٹر کیا دو نے فلائیٹ انجیرنگ کی ایک کراچی ایر پورٹ دوسرا قطر کے حمد ایرپورٹ پر کنٹرول ٹاور پر ہوتے ہیں تیسرا کینیڈا میں سوفٹویر انجنیر ہے کین کوڈیہ یونورسٹی سے ماسٹر کیا ہے چوتھا چھوٹے نے بجنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کیا اب جوب تو لگ گئی لیکن لنڈھی سے شیر شاہ انڈسٹریل ایریا جاتے ہوے روڈ کی خرابی ٹریفک جام کی وجہ سے دو تین بات بائیک سے گر چکا ہے کار تو اس لئیے نہیں لیجاتا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے ساری رات واپسی میں گزر جاتی رات تین بجے گھر آتا تا تھا۔ بائیک تو فٹپاتھ پت چڑھا کر اشا کی نماز گھر آ کر پڑھ لیتا ہے اور مجھے مجھے شاعروں کی جون اہلئیہ بننے سے باہر نکال کر ساتھ کھانا کھاتا ہے۔
اس تحریر سے دو باتیں ظاہر ہوتیں ہیں
1. وہ شراب کے رسیا تھے اور یہ بات تو سبھی کو پتہ تھی
2. اپنی کمائی شراب نوشی میں لٹائی ۔ گھر میں خرچ نہی کیا جبکہ سارا معاشی بوجھ بھی والدہ نے ہی برداشت کیا۔ اور اختلافات کی یہی وجہ بنی۔
#خالد_خودکلام
بہت خوبصورت تحریر اور میرے خیال میں ایک تلخ آفاقی حقیقت ۔ اکثر فنون لطیفہ ادب سے وابستہ لوگوں کا المیہ ہے کہ وہ گھریلو زندگی میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ اور بچے اس بات کا اثر لیتے ہیں
دوسری بات ننھیال سے قربت اور ددھیال سے نفرت یہ تحریر کا وہ حصہ ہے جو اکثر خواتین اپنے شوہر کا اپنی مرضی کے مطابق روزمرہ تابعدار نہ ہونا جون ایلیا اور زاہدہ حنا کے کیس میں نہیں مگر اکثر خواتین کا یہ اولاد کے ذہنوں میں زہر گھولنا کہ آپکے ددھیال والے مجھے پسند نہیں کرتے تھے تو بی بی آپ بھی تو شاید یہ چاہتی ہیں اکثر کہ یہ دوری پیدا ہو۔
ایسا نہیں ہوتا کہ ہمیشہ ایسی ہر کہانی میں باپ ولن اور ماں ہیرو ہو، جو رشتہ بھی انسان کو سہارا دیتا ہے وہ اس کا ہیرو بن جاتا ہے اور جو رشتہ دکھ دے وہ ولن بن جاتا ہے۔ ہماری توقعات کا پورا ہونا یا توقعات پر پورا نہ اترنا یہ ہمارے ہیرو اور ولن کا تعین کرتے ہیں
ایک کامیاب زندگی گزارتے اور زندگی کے سب رنگوں کو بغیر کسی معاشی مسائل کے انجوائے کرنے کے بعد ، ماں باپ کی باہمی رنجشوں کے باعث اپنے والدین میں سےکسی ایک کو چھوڑ دینا بھی کمال ہی ہے۔ بہرحال بڑے لوگوں کی بڑی باتیں !
جون مرحوم کے ساتھ ہی انکی ذاتی زندگی کے راز بھی چلے گئے سو جانے دیں !
اپنے باپ کا مرنے کے بعد امیج خراب کرنا
کیا ھی اچھا ھوتا بیٹی نے یہ نہ کیا ھوتا
بہتر ھوتا أپ اپنے باپ کا روشن پہلو بھی سامنے رکھتیں
انتہائی ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا ہے ایک بیٹی نے اپنے باپ کی اصل شبہہ دنیا کے سامنے پیش کی ہے
کہ انسان جب شہرت اور۔۔۔۔ نشے میں دھت ہوتا ہے تو ارد گرد کہ ماحول سے اتنا بے خبر ہو جاتا ہے کہ اپنے قریبی رشتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
جو کہ بعد میں اس کے لیے عمر بھر کا پچھتاوا یا زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔
پھر قریبی رشتے اس کے مرنے کے بعد بھی اپنی زندگی کی اس خلعش کو نہیں بھول پاتے ہیں
سچ ہمیشہ قابل تحسین ہوتا ہے وہ فینامہ کی زبانی ہو یا کسی اور کی زبان سے ہو
یہ بات ہی قابل بحث نہیں کہ فینامہ کو یہ نہیں کہنا چاہیئے تھا کیوں نہیں کہنا چاہیے تھا انہوں نے ایک مشکل وقت جیا ہے ذکر تو آسان کام ہے اس وقت کو جینا کٹھن تھا ذاہدہ حنا ایک دلیر وضع دار اور سمجھدار
خاتون ہیں انہوں نے بچوں کو سر اٹھا کر جینا سکھایا اور آج کا یہ سچ بھی ان کی ہی دی ہوئی ہمت ہے
بہت سی دعائیں ان سب کے لئے
اسلام نے شاعروں کی پیروی سے اسی لئے منع کیا ہے
ایک باپ اور بیٹی کی ذاتی زندگی کو چوراہے میں بیٹھ کر بیان کرنے سے کچھ لوگوں کی تسکین ضرور ہوئی ہو گی لیکن جو اس دنیا میں اپنی بات کی وضاحت کرنے کو موجود نہیں اس کو بہت اذیت ہوئی ہو گی ۔
محترمہ نے درست بات کہی ھے باپ کی ذمہداری ھے اولاد کی پرورش ۔ ایک کمزور پرندہ بھی اپنے بچوں کی پالتا ھے جب تک وہ اڑنا نہ سیکھ جائیں۔
میں ایسے بہت سے افراد کو جانتا ھوں کہ جنہوں نے اپنے بچوں کے پیدا ھوتے ھی اپنے بچوں کی ماں اور بچوں کو ذلیل و خوار ھونے کے لئے چھوڑدیا۔
ایک ایسا ھی ایک شادی تھا 31 سال پہلے شادی ھوئی شوہر ڈاکٹر تھا اس کی بیوی اس کی کزن تھی۔ ایک بیٹا پیدا ھوا۔ بچہ 6 مہینے کا تھا ڈاکٹر باپ نے اپنی کزن بیوی کو طلاق دیدی اور یہ کہ کر آج سے اس بچے سے میرا کوئی تعلق نہیں واسطہ نہیں ۔ ھمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ وہ بچہ 9 نومبر 2024 کو 30 سال کی عمر میں اس دنیا فانی کو چھوڑ کر ھمیشہ کے لئے رخصت ھوگیا۔
ڈاکٹر باپ نے شادی کرلی تھی اس وقت باپ کی عمر 67 سال ھے اس دوسری بیوی سے اس کی کوئی اولاد ھی نہیں اب اس ظالم ڈاکٹر نے ایک بچہ گود لیا ھوا ھے۔ جون ایلیا جیسے ظالم کردار ھمیں معاشرے میں نظر آتے ھیں
محترمہ ذاھدہ حنا صاحبہ اعلی تعلیم یافتہ اور دانشور خاتون تھیں ایسے شرابی کبابی سے شادی کیوں کی تھی جس خمیازہ بلاخر اولاد کو بھگتنا پڑا
بقول مصطفیٰ خاں شیفتہ
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے۔ تو۔ کیا۔ نام۔ نہ ہوگا
کبھی کبھی لکھا گیا سچ بہت سے لوگوں کی زندگی بدل دیتا ہے۔۔ کبھی احساس گناہ کبھی احساس ندامت ہوتا ہے۔۔ دونوں ہی اچھے ہیں اگر اس سے ان کے زیر سایہ لوگوں کی زندگی بہتر ہو۔
مرزا غالب نے بھی کبھی شراب خواری نہیں چھوڑی اور ہمیشہ افلاس کی زندگی گزاری،ساری دنیا مرزا کے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اُنکی اردو شعر وادب کی سب سے زیادہ سراہنا کرتی ہے،
اسلام نے جو حقوق والدین بتائیں ہیں اُن میں والد اگر
شرابی ہو غیر زمہ دار ہو اور اگر کافر بھی کیوں نہ ہو پھر بھی آپ کو اس کی خدمت کرنی ہے،مصنفہ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ اپنے پیارے والد کی کتنی خدمت کیا کرتی تھیں ،بہت سارے ایسے والد گزرے ہیں جو اپنے بچوں سے لا تعلق رہے،لیکن ان کی لائق و فائق اولاد نے کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ انکا اور اُنکے والد کا کیسا سمبندھ تھا،
ہاں ایک بات ہے اور وہ یہ کہ جون ایلیا شیعہ تھا اور اس نے اپنی بیوی بچوں کو شیعہ نہیں ہونے دیا،یہ ایک قصور ہے اسکا،
خیر اب سب مرحومین کے بارے میں کیا شکوے گلے ،اللہ مغفرت فرمائے ،اور جون کے پساندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ،
یہ ایک کہانی نہیں ہے ۔ معاشرے کے لئے ایک سبق ہے ۔ والدین کیلئے دعا ہے کہ اے اللہ میرے والدین پر رحم فرما جیسا انہوں نے مجھ پر کیا جب میں چھوٹا تھا ۔
بہرحال اللہ تعالیٰ جون ایلیاء صاحب کی کامل مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
حقیقت پسندی کی عمدہ مثال ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی کے جذبات کی عکاس ۔۔۔۔۔ المیہ۔۔۔۔۔ بہت اعلی تحریر
لوگ کیوں حیران ھو رھے ہیں؟ میری ان سے پہلی ملاقات کراچی کلب میں ھوئی ۔ ان کو جاننے کی جستجو ھوئی تو یہ تمام واقعات جو بیٹی نے لکھے ، ان کے مداح خاص کی زبان پر تھے ۔ جنہوں نے میری ملاقات کرائی ۔
سید عطا اللہ شاہ بخاری فرماتے تھے مجھے تو واہ شاہ جی اہ شاہ جی نے مار دیا ھے ۔ جب میں تقریر کرتا ھوں تو فضا "واہ شاہ جی”” کے نعروں سے گونج اٹھتی ھے ۔ جب گرفتار ھوں تو ان کے مداح پکارتے، اہ شاہ جی ،
میں بھی__
واہ واہ جون ایلیا اہ جون ایلیا
بچوں کو باپ سے پیار ھوتا ھے ، اس کی باد شاہی سے نہیں
افسوس کے خاتون آج تک اپنی اصلاح نھیں کرپائیں۔ سمجھ کا یہ معیار اور جون ایلیا کی اولاد۔۔۔۔۔! معازرت یہ زاہدہ حنا کی اولاد اور یقین نہیں آتا پر ان کی ہی تربیت۔۔۔۔۔ اگر خاتون بچپن کے احساسات کے علاوہ شعور کے دریچوں کی آہٹ کو بھی سمجھ سکتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بےھس اولا د کا حساس باپ جون ایلیا
ایک طرفہ فیصلہ کرنا آسان ھے
میں جب باپ بنا تب سارے شکوے
شکار گاہ میں قید ھو گئے اور میں آزاد ہو گیا
کتنا اچھا ہو کہ زندگی کے بہت سے سچ چھپے رہیں ۔ یہ سچ اگر واقعی سچ ہے تو بہت تکلیف دہ ہے چھپا رہتا تو بہتر تھا
دنیا کا سب سے اسان کام کسی پرتبصرہ کرنا، تنقید کرنا اور اس پر فلسفہ بیان کرنا ہوتا ہے یہی ہم سب بھی کررہے ہیں.
لیکن جس نے وہ زندگی گزاری ہو اسے سہا ہو اور اس کے بعد دنیا کے چوراہے پر اب تک کھڑے ہو کر ہر اتے جاتے کی باتیں سننا پڑیں تو سمجھو زخم بہت گہرا ہے اور اب تک رس رہا ہے.
اپ لوگ اپنے پسندیدہ شاعر جون ایلیا کے امیج کو خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کا کیا جو اپنے باپ سے کبھی ملے ہی نہ ہوں، جون کی جو باتیں اپ کے لیے کوئی مزاق ہوں یا کچھ حرکتیں جہیں سنا کر اپ اپنی شناخت کرانا چاہتے ہیں وہ انکے زخموں کو کریدنا جیسا ہے فینانہ فرنام ایک زخمی خاندان کی زخمی بیٹی ہے ان پر سوال اوٹھا نے سے پہلے ان کے درد کو سمجھیں اگر مرحم نہیں رکھ سکتے تو زخم کو کریدیں نہ
مجھے پورا آرٹیکل پڑھ کر برا نہیں لگا مگر اچھا بھی نہیں لگا۔ کیونکہ یہ تقریبا ہر شاعر یا ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے فن سے اس حد تک محبت کرتا ہے کہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے بالکل بے بہرہ ہوجاتا ہے ۔ مگر جون صاحب اور زاہدہ صاحبہ کے تین بچے اس چیز کی ضمانت ہیں کہ کہیں کہیں ان کے درمیان خوبصورت رشتہ بھی رہا ہوگا۔ انھوں نے بحیثیت میاں بیون اچھا وقت بھی گزارا ہوگا۔ باپ سے علیحدگی کے بعد ان لوگوں نے برا وقت کاٹ لیا اور اللہ نے ان کو اکیلا نہ چھوڑا۔ تو پھر جو انگریزی میں کہتے ہیں all is well that ends well تو اب اس سب داستان کو کوئی فائیدہ نہیں۔ یہ ایک نئی بحث کو جنم دیگا۔ زاہدہ صاحبہ نے کتنی بردباری سے یہ وقت گزارا سب جانتے ہیں۔ اور تعریف بھی کرتے ہیں۔ بیٹی کو اپنے باپ کے نام کو ہٹا دینا بہت تکلیف دہ اور جزباتی عمل تھا اور ہے۔ اس کی کوئی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ قیامت کے دن وہ اسی نام سے پکاری جائیں گی۔ میں زاہدہ حنا صاحبہ اور جون ایلیا دونوں کی فین ہوں ۔ بلکہ میرے والد جون ایلیا کے فین تھے۔ مجھے تکلیف ہوئی اس فیملی کے بچوں کے تکلیف دہ وقت کا سن کر لیکن وقت سب کا گزر جاتا ہے۔ بات دلوں میں رہتی تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ باپ کی بے رخی نے ان کے ترقی کے راستے نہیں روکے وہ کامیاب ہیں۔ اور یہی اصل حقیقت ہے۔ اللہ ان پر اپنا رحم فرمائے۔
#خالد_خودکلام
بہت خوبصورت تحریر اور میرے خیال میں ایک تلخ آفاقی حقیقت ۔ اکثر فنون لطیفہ ادب سے وابستہ لوگوں کا المیہ ہے کہ وہ گھریلو زندگی میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ اور بچے اس بات کا اثر لیتے ہیں
دوسری بات ننھیال سے قربت اور ددھیال سے نفرت یہ تحریر کا وہ حصہ ہے جو اکثر خواتین اپنے شوہر کا اپنی مرضی کے مطابق روزمرہ تابعدار نہ ہونا جون ایلیا اور زاہدہ حنا کے کیس میں نہیں مگر اکثر خواتین کا یہ اولاد کے ذہنوں میں زہر گھولنا کہ آپکے ددھیال والے مجھے پسند نہیں کرتے تھے تو بی بی آپ بھی تو شاید یہ چاہتی ہیں اکثر کہ یہ دوری پیدا ہو۔
Sach karwa hota hay ,,, kafi had tak sach hay.
Apna sach kahna chahyei ,chahay
kisi ko acha lagay na lagay !
Ma bap ki izzat o khidmat karni chahye , chaye woh jaysay bhi hon, ayk rohani tazkiye or insaniat kay ala mayraj par pohnchanay ki baat ya hukum hay yai.
Jon ki bayti ki jo batain is link may parhi hain unmay koi mayob baat to na lagi , ho sakta hay or koi khas ya qabil e sensor baat ya sach bhi bataya ho inki bayti nay….
Jon ko apnay bacho ki tareekha e paydaish yad nahi thi unki class yad nahi thi,,,,, yai masail mayray apnay bacho , bewi or ikloti marhoma maa kay sath bhi hain….. han albatta bacho ko kahe lay jaon or wapsi may lana bhol jaon aysa soch kar kanp jata hon……shayid Jon zindagi bhar ya kamazkam apni aulad say mohabbat na kar sakay na ho saki unhain mohabbat !!
Wallah ul ilm bis sawab
باپ اولاد کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے اور وہ اسی صورت ہو سکتا ہے جب وہ اپنی ساری ذمہ داری ایمانداری سے نبھائے ۔ امیری ،غریبی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ سب سے اہم ذمہ داری اولاد کی تربیت ہے اور تربیت کے لئے وقت اور توجہ دینا بہت ضروری ہے ۔ جو یہ نامور لوگ اپنی اولادوں کو دے نہیں پاتے ۔ فینانہ نے سچ کہا ایک بیٹی کو باپ سے کیسا عشق ہوسکتا ہے ، کیسی محبت ہوسکتی ہے ۔ یہ ایک بیٹی ہی بتا سکتی ہے وہ کتنے کرب سے یہ سچ لکھ رہی ہوں گی وہی جانتی ہے
میرا خیال ہے ماضی کو بھولنے کی کوشش کریں آخر کو آپ کے والد ہیں
انکے لئے دعائ مغفرت کریں
سوائے شراب نوشی کے جو حرام ہے انمیں اور کوئی عیب نہ تھا
آپ انہیں مریض سمجھ کر معاف کدیں
آپ کی تحریر پڑھ کرجون ایلیا کی نجی زندگی کو مزید قریب سے جاننے کا موقع ملا۔
لیکن جب بات ستر اسی فیصد معاشرے میں موجود ہو تو پھر یہی بات سچ مانی جائے گی۔ میں اپنی زندگی میں کوئی ایسا خوش قسمت باپ نہیں دیکھا جو آخری عمر میں اپنی بیوی کی وجہ سے اپنے بچوں کے ہوتے ہوئے تنہائی کی زندگی نہ گزار رہا ہوں یا کم از کم اولاد کی نظر میں خود سے زیادہ اپنی بیوی کی عزت دیکھی۔
خاوند جتنا مرضی بیوی سے محبت کرتا ہو عزت دیتا ہو تمام حق حقوق پورے کرتا ہو لیکن پھر بھی بیوی سسرالیوں کے رویوں کی وجہ سے خاوند کو معتوب ہی سمجھتی ہے۔ اور شوہر بیچارہ اپنے آپ کو کمتر مجرم۔