راج محمد آفریدی، درہ آدم خیل
خیبر پختونخوا کے مکینوں نے ملک خداداد پاکستان کے دیگر اہم شعبہ جات کی طرح اردو ادب کی آبیاری میں بھی ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جن پشتون ادبا نے باقی ملک کے ادیبوں کی طرح اردو ادب کی ترویج کے لیے خود کو وقف کر رکھا، ان میں ایک اہم نام پشاور کے سپوت مشتاق احمد شباب کا بھی ہے۔ مشتاق شباب کا نام اور کام خیبر پختونخوا کے مشہور و معروف نقادوں، افسانہ نگاروں، انشاپردازوں، ترجمہ نگاروں، شاعروں، ڈراما نگاروں اور کالم نگاروں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دبستان پشاور جس کی بنیاد فارغ بخاری، خاطر غزنوی، رضا ہمدانی، جوہر میر اور دیگر اہم ادیبوں نے رکھی تھی، کی روایت برقرار رکھنے میں مشتاق شباب کا نام بھی شامل ہے۔ انھوں نے خیبر پختونخوا میں اردو ادب کی آبیاری اور ادبی میدان میں نئی نسل کی رہنمائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مشتاق شباب7 اپریل 1942ء کو پشاور میں گل احمد خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور آپ کا تعلق چارسدہ(پڑانگ) سے ہے مگر آپ کی پیدائش پشاور کی ہے۔ مشتاق شباب ایک مصروف ادبی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے تنقیدی مجالس میں ہمیشہ نئی پود کی رہنمائی کی ہے۔ آج بھی اہل ادب کی ایک بڑی تعداد ان سے سیکھنے کے لیے ان کے اردگرد بیٹھی نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود آپ نے انکساری کا دامن پکڑتے ہوئے خود کو ہمیشہ ادب کا طالب علم ہی سمجھا ہے۔
مشتاق شباب نے افسانے لکھے، تنقیدی و ادبی مضامین لکھے، ڈرامے لکھے، نظمیں و غزلیں کہیں لیکن جس صنف کی ترویج کے لیے آپ نے خود کو وقف کیا، وہ کالم نویسی ہے۔ آپ نے 1967/68 سے صحافت سے وابستگی اختیار کی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آپ کی صحافت سے لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف کافی مصروفیات کے باوجود کالم لکھنا قضا نہیں کرتے۔ ایک اندازے کے مطابق آپ نے مختلف اخبارات و رسائل کے لیے اب تک 7 ہزار سے زیادہ کالم لکھے ہیں۔ حال میں بھی موصوف مختلف اخبارات و رسائل سے وابستہ ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ شباب صاحب سے میری شناسائی ہے۔ مجھے ان کی صحبت میں رہنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
اس مضمون میں جس کتاب کا ذکر کیا گیا ہے، وہ سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور نے شائع کی ہے۔ پہلے میں سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور اور ہورائزن (عبادت ہسپتال) نشتر آباد پشاور کا مختصر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور کا قیام تین دہائی قبل یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصہ قبل وجود میں آیا تھا۔ اس تنظیم کی بنیاد خاطر غزنوی نے رکھی تھی، ماجد سرحدی پہلے سیکرٹری تھے۔ اس کے ابتدائی اجلاسوں کا انعقاد خاطر مرحوم کے گھر ہوتا تھا۔ پھر ماجد مرحوم کے حیات آباد منتقل ہونے کے بعد اجلاس دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ خاطر صاحب کے گھر باقاعدگی سے ماہانہ اجلاسوں کا سلسلہ ان کی زندگی تک جاری رہا۔ ناصر علی سید مذکورہ تنظیم کے ایک طویل عرصے تک سیکرٹری رہے۔ خاطر صاحب کی رحلت کے بعد سینڈیکیٹ کے تین چار اجلاسوں ہی میں ناغہ آیا۔ ناصر علی سید کو سینڈیکیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔ انھوں نے معروف نفسیات دان ڈاکٹر خالد مفتی کو سنڈیکیٹ کی سرپرستی کی ذمہ داری سونپی جو انھوں نے بخوشی قبول کی۔ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
ڈاکٹر خالد مفتی اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود ادب سے محبت کی خاطر عبادت ہسپتال کے حق بابا آڈیٹوریم میں ہورائزن پشاور کے تعاون سے ادبی محفلیں سجاتے ہیں۔ اسی محبت کے نتیجے میں موصوف ادب اور ادیبوں کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور نے خیبر پختونخوا کے ادیبوں کی سرگرمیوں کے لیے عبادت ہسپتال میں باقاعدہ ’حق بابا آڈیٹوریم‘ ہال مختص کیا ہے جہاں مشاعرے ہوتے ہیں، ادب کے مخصوص دن منائے جاتے ہیں، ادیبوں کے نام محفلیں اور ان کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں۔
سینڈیکیٹ کے پلیٹ فارم سے کتب کی رونمائی، پذیرائی اور اشاعت بھی ہوتی ہے۔ مشتاق شباب کے کالموں کا مجموعہ ’شباب کی باتیں‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو موصوف نے بہت ہی نفیس اور محبت سے پیش آنے والے ڈاکٹر خالد ابراہیم کے ہاتھوں مجھ تک پہنچایا۔ وہ خود اطلاع دیتے تو میں خود کتاب لینے ان کے دولت کدے پر پہنچ جاتا۔
مشتاق شباب کے کالم پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور نے قارئین کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مشتاق شباب کے کالموں کو ’شباب کی باتیں‘ کے نام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ مذکورہ ادارے نے کالموں کے اس مجموعے کو اگست 2024ء میں شائع کرکے ادب اور مشتاق شباب کی ادبی سرگرمیوں سے محبت رکھنے والوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ 487 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کل 121 کالم ہیں۔ یہ سارے کالم (سوائے ایک کالم کے) 2023ء میں لکھے گئے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مشتاق شباب کے ہزاروں کالموں میں سے یہ تازہ ترین کالم ہیں۔ اس کا انتساب ڈاکٹر خالد مفتی کے نام ہے۔ کتاب کا دیباچہ بھی ڈاکٹر خالد مفتی نے لکھا ہے۔ موصوف مشتاق شباب کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’قارئین کی ایک بڑی تعداد انہیں (شباب) اس لیے پسند کرتی ہے کہ ان کے کالموں میں انہیں نئے رجحانات، حوصلہ افزائی، سچائی اور آگاہی ملتی ہے۔ یہ ہمیشہ سچائی کے قلم سے اپنے ضمیر کی آواز پر بامقصد لکھتے ہیں۔‘
معروف ادیب اور مشتاق شباب کو قریب سے دیکھنے والے بلکہ جذب کرنے والے ناصر علی سید نے بیرون ملک ہو کر بھی ’ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں‘ کے عنوان سے شباب صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’انگلیوں پر گنے جانے والے چند ایک کالم نگاروں میں ایک نمایاں نام مشتاق شباب کا ہے جو کسی بھی علمی، ادبی، سماجی یا سیاسی موضوع کو چھوئیں، زبان و بیان، کالم کی شگفتگی اور تاثیر میں کبھی کمی نہیں آتی۔‘
اس کے بعد ’مشتے از خروارے‘ کے عنوان سے مشتاق شباب نے اپنے ادبی سفر کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا ہے۔
مشتاق شباب کے کالموں کی سب سے بڑی خوبی اس کا ادبی ہونا ہے۔ ان کالموں کے عنوانات ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے دل چسپی کے حامل ہیں کیونکہ بیشتر عنوانات معروف مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ ان کالموں میں معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انھوں نے عوام سے جڑے بیشتر مسائل کو اپنے الفاظ میں حکام بالا تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کالموں میں بعض کالم خالصتاً ادبی کالم ہیں۔ مثلاً:
رائیگاں جائے نہ محسن کبھی معیار ہنر (یہ محسن شکیل کی شاعری پر مبنی کالم ہے)، سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے (ارشاد احمد صدیقی کے افسانوں پر لکھا گیا کالم)، ہر اک گھنگرو جو بجتا ہے وہ پائل میں نہیں جڑتا (خالد رؤف کی شاعری پر لکھا گیا کالم) اسی طرح کئی ادبی کالم اس مجموعے میں موجود ہیں۔
مشتاق شباب کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے کالموں میں جگہ جگہ اپنے اور معروف شعرا کے اشعار کا برمحل استعمال کرتے ہیں جس سے معاشرتی کالم بھی ادبی کالم کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ کالموں کے چند عنوانات ملاحظہ ہوں:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی، الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا، مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی، مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے وغیرہ۔
مشتاق شباب نے زندگی کی تلخیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کا دل پسے ہوئے طبقے کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کی مجبوریوں سے واقف ہیں۔ انھوں نے معاشرے کے درد کو الفاظ میں پرو کر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے کالموں کے ذریعے عوام کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔ انہی خصوصیات کی بنیاد پر میں مشتاق شباب کو ترقی پسند کالم نگار کہنا چاہوں گا۔ ان کے کالموں میں مہنگائی، سمگلنگ، بدامنی، کرپشن، نا انصافی، ظلم، جبر، بربریت، ملاوٹ جیسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ مشتاق شباب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’بات صرف دودھ میں پانی کی ملاوٹ تک رہتی تو صبر کرلیتے مگر اب تو مرغیوں کی ہڈیوں سے بنے ہوئے قیمے تک معاملہ جا پہنچا ہے۔‘
مشتاق شباب کے کالموں میں ناسٹلجیائی کیفیت بھی نمایاں ہے۔ انھوں نے جگہ جگہ حال کی بے چینی دور کرنے کے لیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے خوب صورت یادوں کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ پرانے پشاور کے مناظر اب بھی یاد کرتے ہیں۔
مشتاق شباب سے مختلف محفلوں میں میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے انھیں کئی حوالوں سے بے باک پایا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے سامنے اظہارِ رائے کرتے ہوئے بڑے بڑوں کو ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے باک انداز ایک صحافی کی خوبی ہوتی ہے۔ مشتاق شباب نے اسی وصف کی خاطر اپنے کالموں میں علامتی انداز کی بجائے سیاست دانوں کے باقاعدہ نام لے کر ان کے کرتوتوں اور جھوٹ پر مبنی بیانات کی نشاندہی کرکے بے باک صحافی ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’سوشل میڈیا ٹرولز نے میاں نواز شریف کو بھی طنزیہ تبصروں کی زد پر رکھتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ مفتاح نے دس روپے بڑھائے تو نواز شریف میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس دفعہ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کیا کریں گے، خاموشی ہی اختیار کرسکتے ہیں۔‘
اس طرح کی کئی مثالیں ان کے کالموں میں موجود ہیں۔ مشتاق شباب آج کل کے قصیدہ نگار کالمسٹ کی طرح کسی خاص سیاست دان کو ہیرو بنا کر دیگر سیاسی لوگوں کی برائیاں بیان نہیں کرتے۔ انھیں جہاں کسی میں کوئی غلطی نظر آئی، اس کا نام لے کر فوراً اس کا اظہار کردیا۔ چاہے وہ ایوب خان ہو، بے نظیر بھٹو ہو یا پرویز مشرف۔
مشتاق شباب نے غریب طبقے سمیت دیگر طبقات کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے۔ اپنے کالم ’قدر گوہر یک دانہ جوہری داند‘ میں مشتاق شباب نے ایک لکھاری کی بپتا بیان کی ہے۔ ایک لکھاری کتاب لکھ کر بھی کن مشکلات سے گزرتا ہے، اس کالم میں بخوبی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق کتاب کی اشاعت سے مصنف کو کوئی تو مالی فائدہ ہونا چاہیے۔
مشتاق شباب کے بعض کالموں کا انداز افسانوی ہے جس سے قاری کی دل چسپی بڑھتی ہے۔ وہ کسی کہانی کی طرح اپنا مدعا اتنی روانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ تحریر پر کالم کی بجائے کہانی کا گماں ہوتا ہے ۔
’باتیں شباب کی‘ میں شامل مندرجہ ذیل کالموں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے میں اپنے مضمون کو ختم کرنا چاہوں گا :
تبصرہ سوچ کر کیا کیجیے:
اس کالم میں اینکر، نیوز کاسٹر پر طنز کیا گیا ہے کہ ان میں بیشتر غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ انھیں خبر سنانے یا کسی پروگرام کی میزبانی کرنے میں کسی فرق کا نہیں پتا ہوتا۔
کیا لوگے اس کے دام بتانا صحیح صحیح:
اس کالم میں ’توشہ خانہ‘ کے معاملے کو بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے حکمران اپنے دور میں توشہ خانہ سے کیا کیا لیتے رہے ہیں، اس کا نقشہ اس کالم میں پیش کیا گیا ہے۔
اس نے کہا کہ کونسی خوشبو پسند ہے:
اس کالم میں 1968 کے سفر کابل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ پشاور تا کابل بس سروس پر بحث اور چائے کا خوب صورت ذکر کرنے کے ساتھ حلقہ اربابِ ذوق پشاور میں چائے کا بیان شامل ہے ۔
بارے آموں کے کچھ بیاں ہو جائے :
یہ آموں کے ذکر اور سرکاری سطح پر آموں کے تحائف کے ذکر پر مبنی کالم ہے۔
یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھے ہیں؟:
اس کالم میں اسٹیج ڈراموں اور اداکاروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
مجموعی لحاظ سے مشتاق شباب کا ہر ایک کالم بحث کرنے کے قابل ہے لیکن مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے تحریر شدہ الفاظ پر اکتفا کرتا ہوں۔ میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ مشتاق شباب کے سائے میں بیٹھ کر کئی لمحات مجھے میسر آئے ہیں۔ ان کی صحت و لمبی عمر کے لیے ہمیشہ دعا گو ہوں۔
قسمت کا دھنی ہوں کہ ملے آپ وگرنہ
آپ آپ ہیں، میں میں ہوں، کجا آپ کجا میں
تبصرہ کریں