یحییٰ-سنوار

آگ اور راکھ کے بیچ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اچھا اور قابل تقلید کردار معاشرے میں سدا بہار پھول کی مانند ہوتا ہے، جب یہ پھول جابجا کھلتے ہیں تو معاشرہ سدا بہار اور ترو تازہ دکھائی دیتا ہے۔ 

مگر ۔۔۔ آہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں معاشروں پر شاید خزاں رت ہی آ کر ٹھہر گئی ہے۔ کہاں سے لائیں مہکتے ترو تازہ پھول، کہاں ڈھونڈیں کوئی سدا بہار شخصیت ، کوئی قابل تقلید کردار ۔۔۔۔

قلم کچھ ایسے ہی مشاہدات سے مایوس ہو کر ایک مایوس کن تحریر صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے جارہا تھا کہ 17 اکتوبر کے ایک واقعے نے توجہ ایک سدا بہار تر وتازہ، زندہ جاوید کردار کی طرف مبذول کروا دی۔ جس آن بان شان سے اس نے جان، جان آفریں کے سپرد کی۔ ایمان و ایقان کے رنگ میں رنگی اس کے آخری لمحات کی خوبصورت اداؤں نے سوچ کے زاویے بدل دیے ۔۔۔ قبل اس سے کہ آگے بڑھیں اپنے آسمانِ دنیا کے اس روشن ستارے کی وصیت سے کچھ فقرے یہاں نقل کرتے ہیں: 

’ میں خان یونس کے کیمپ میں سن 1962 میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرا وطن صرف ایک یاد تھی جو تار تار کر دی گئی تھی۔ محض کچھ نقشے تھے جو سیاستدانوں کی میزوں پر گرد آلود حالت میں پڑے تھے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ گزارا اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘

قارئین ! نبی کریم ﷺ نے بنی نوع انسان کی فلاح کا جو پروگرام انسانیت کے لیے نافذ العمل کیا تھا اس کے واضح خدو خال یہ تھے کہ ایک عام آدمی بھی بغیر کسی خارجی دباؤ کے نہ صرف فرض شناس تھا بلکہ اسے اپنے حقوق کا بھی اچھی طرح ادراک تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک یہ پروگرام نافذ العمل رہا عدل، مساوات، قانون کی بالادستی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی مثالیں معاشروں کا حصہ تھیں۔ 

لیکن جب نبی ﷺ کے نام لیوا اس پروگرام کو چھوڑ بیٹھے، فرائض بھلا دیے، حقوق کا علم بھی کم ہو گیا، جماعتِ مسلمین میں ایسے غدار پیدا ہوئے کہ جن کی غداری ضرب المثل بن گئی۔ بس پھر کیا تھا انسانیت دم توڑنے لگی، انسانی بستیوں پر ڈاکو حملہ کرنے لگے۔ وحشی قومیں اٹھیں۔ اور جسے جو زمین پسند آئی،اس نے اس کے مالکان کو ظلم و جبر کے ذریعے بے دخل کیا اور خود مالک بن بیٹھے۔

دنیا کو دو عالمی جنگوں کا تحفہ دینے والی یہ قومیں جب بندر بانٹ کر چکیں تو انسانوں کے لیے نظام وضع کرنے بیٹھ گئیں۔ حقوق و فرائض متعین ہوئے ادارے بنے، ستور بنے لیکن ستم یہ کیا کہ جس ہستی نے انسانیت کا سبق پڑھایا تھا اسی کے نام لیواؤں کے خلاف سازش، گٹھ جوڑ، عیاری، مکاری، ضمیروں کی خرید و فروخت، اور ڈاکہ زنی کا ان استعماری طاقتوں نے ایسا مربوط ایجنڈا ترتیب دیا کہ یہ امت جو کبھی سالارِ جہاں تھی، معمارِ نظام تھی، نگہبانِ انسانیت تھی ٹوٹ گئی، منتشر ہو گئی، لہو لہو ہو گئی، اپنے ہی گھر میں اجنبی ٹھہری، ناقابلِ بھروسہ ٹھہری۔ یہ امت وہ دسترخوان ٹھہری جس پر بھوکے جنگلی درندے جھپٹ جھپٹ پڑتے ہوں ۔۔۔۔ 

تو کیا سالارِ امت، رہبرِ انسانیت کی دعوت، تربیت، تنظیم کی بنیاد ایسی کمزور تھی کہ یہ امت بمشکل ایک ہزار سال ہی کار جہانبانی نبھا پائی؟؟؟

نہیں، ایسا نہیں۔ گزشتہ چار، پانچ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس امت کے اندر ایسے ایسے نابغہ روزگار کردار پیدا ہوئے ہیں کہ اپنے تو اپنے غیروں نے ان کی ذہانت، شجاعت، معاملہ فہمی، دشوار گزار حالات کا مقابلہ کرنے کی استعداد کا اعتراف کیا۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

خان یونس کے کیمپ میں جنم لینے والا بچہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کے وطن پر قبضہ کرنے والے وحشی تو نہیں تھے اہل کتاب تھے۔ ماضی میں اس کے اسلاف کے احسانات سے لطف اندوز ہو چکے تھے مگر اس قدر احسان فراموش اور سفاک ثابت ہوں گے شاید مؤرخ نے بھی بمشکل یقین کیا ہوگا۔۔۔۔

قارئین! اپنے ہی دیس میں مہاجر بن کر رہنے والے اس لڑکے کے دل میں ایمان کی چنگاری شعلہ جوالہ بننے کو تیار نہ ہوتی تو وہ آگ اور راکھ کے درمیان ایک بے جان ذرے کی طرح گم ہو جاتا، مٹ جاتا۔ مایوسی، بددلی، بے عملی کے تاریک سائے میں جیسے تیسے گزرتی ایسے ہی زندگی گزار دیتا۔ لیکن وہ آزاد پنچھی تھا۔ وہ بس ایک ہی طاقت کا غلام تھا اور وہ ہے رب کائنات۔ باقی ہر صاحبِ جبروت کی حیثیت اس کی نگاہوں میں چوہے سے کم نہ تھی۔ وہ لکھتا ہے: 

’میں نے کمسنی کے دور میں ہی جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا عام بات نہیں ہے۔ جو یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل کے اندر ناقابل شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ لمبا ہے ۔۔۔‘

آگے لکھتا ہے:

’۔۔۔ آپ لوگوں کے نام میری وصیت یہاں سے شروع ہوتی ہے اس لڑکے سے جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی بات دنیا کو سنا سکتے ہیں جو ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے اور خاموش کھڑی ہے۔۔۔۔‘

 قارئین! عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، شہریوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، جانوروں کے حقوق، پرندوں کے حقوق۔۔۔ حقوق ہی حقوق ۔۔۔ اس قدر غلغلہ حقوق کا اور دوسری طرف جو کمزور ہے، محکوم ہے، غاصبوں کے نظریے سے مختلف طریقہ حیات کا علمبردار ہے۔ اس کے لیے حقوق تو دور کی بات آزادی کے ایک سانس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہ غاصب شاید جانتے نہیں کہ غیر اللہ کی غلامی کاطوق گردن میں پہن لینا مسلمان کی سرشت ہی میں نہیں ۔فلسطینیوں نے یہی کیا۔ غلامی کا طوق گردن میں پہننے سے انکار کر دیا۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا مقابلہ پتھر اور غلیل سے کیا۔ سرنگوں کے اندر بیٹھ کر محض چند کھجوروں اور پانی کے چند گھونٹوں کے ساتھ مقابلہ کیا ۔۔۔

اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ 

 یہ جو مسجد اقصی کی زمین یہود کے ناپاک قدموں تلے ہے تو اس کی حفاظت اس کی آزادی صرف فلسطینیوں کا فرض ہے؟؟

نہیں، تیل کی دولت سے مالا مال، دفاعی وسائل سے بہرہ مند بڑی بڑی فوجیں رکھنے والے تمام مسلمان ممالک کا فرض ہے۔ القدس کی حفاظت ہر کلمہ گو کا فرض ہے۔۔۔۔ مسلم حکمران بزدلی، بے غیرتی اور بےحسی کی انتہاؤں کو چھونے لگے ۔ حقوق اور انسانیت کا راگ الاپنے والی بڑی طاقتیں غاصب ہی کو طاقت اور اختیار کا مطلق العنان مالک ٹھرانے کے لیے کوشاں رہے تو حماس نے 7 اکتوبر 23ء کے معرکہ طوفان الاقصی کا منصوبہ ترتیب دیا۔

یہ منصوبہ بناتے ہوئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ یہ کارروائی یقیناً مسلم حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کر دے گی۔ امت کے اندر تحرک و جہد کی نئی روح پھونک دے گی۔ مگر ۔۔۔آہ ۔۔۔۔امت کی قیادت کی بز دلی و بے حسی نے یہ دن دکھایا کہ آج تہذیب اور انسانیت سے عاری نیتن یاہو کے حکم پہ غزہ ایک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل آزادی کے متوالوں کا مقابلہ نہ کرپایا تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو کچلنے لگا، نہتے شہریوں کو خون میں نہلا دیا۔ ہسپتال تباہ کردیے، صحافیوں کو شہید کردیا۔ دنیا بھر کے مسلمان تڑپ اٹھے، دیارِ کفر میں انسانیت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سراپا احتجاج ہوئے مگر جو ٹس سے مس نہ ہوئے وہ بے حس، بزدل، بے غیرت مسلم حکمران ہیں ۔۔۔ 

 القدس کے شیر جو سرنگوں کے اندر بھی کسی حکمت کے تحت تھے، وہ دو بدو  لڑنے سے بھی گریزاں نہ ہوئے۔ خان یونس کے مہاجر کیمپ میں آگ اور راکھ کے درمیان آنکھ کھولنے والا بچہ وہ کردار بن کے سامنے آیا کہ دنیا کی نام نہاد سپر پاور اور اس کے ناجائز بچے کو حواس باختہ کرنے کے بعد اپنے حصے وہ کام لیا جس نے اسے نہ صرف اپنے معاشرے کا ایک زندہ و جاوید کردار بنا دیا بلکہ امت کے اندر جذب و شوق کی نئی لہر دوڑا دی۔

وہ اگلی صفوں میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑا، اس نے اپنی جان کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ وہ لہو لہو تھا۔ ہاتھ کی ایک انگلی کٹ چکی تھی، فردوس بریں کے قدسی اس کی روح کو قبض کرنے چل پڑے تھے۔ اس حال میں بھی اس نے اپنا نصب العین نہیں بھلایا۔ ہمت، جدوجہد، حریت کے اس استعارے نے ایک چھڑی اٹھائی اور دشمن کے ڈرون کیمرے کی طرف پھینک دی۔ اس کی یہ ادا ہر کس و نا کس کو اس قدر بھائی کہ یہ ویڈیو ہر کوئی وائرل کرنے لگا۔وہ لوگوں کے دلوں میں بس گیا۔ اس کا کردار ایسے سدا بہار پھول کی مانند لگا کہ جس کی مہک سے پورا معاشرہ مہک اٹھے۔ وہ مکان امر ہو گیا جہاں اس کی شہادت ہوئی۔۔۔

ہر کسی کی زبان پہ ایک ہی نام ہم نے سنا یحییٰ سناور۔۔۔۔

قارئین! رکیے ذرا ایک سوال کا جواب دیجیے کیا خوشبو کے سفر کو جاری و ساری نہیں رہنا چاہیے؟؟

خوشبو سے پیار کرنے والا ہر شخص کہہ رہا ہے، ہاں ہاں جاری رہنا چاہیے

تو پھر آئیے! آج سے۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ابھی سے کام شروع کریں۔

سوشل میڈیا پہ غزہ کے مسئلے کو نمایاں کیجیے۔

اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیجیے۔

محصور فلسطینیوں کے حق میں دعا کیجیے۔

اپنے حکمرانوں کو مجبور کیجیے کہ وہ ہر فورم پہ مسئلہ فلسطین کو نمایاں کریں۔

جب معاملہ ہو انتخاب کا یا استصواب کا تو ہم سب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کی حمایت کریں جو اپنی زندگی میں ایمان، اتحاد، تنظیم کے سنہرے اصولوں کی پیروی کرتے ہوں۔ جو غیر اللہ سے مرعوب نہ ہوں بلکہ ایک اللہ کے آگے سر جھکاتے ہوں۔

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو غزہ کا دشمن ہے وہ ہمارادوست کبھی نہیں ہوسکتا۔اس کے جارحانہ عزائم میں توسیع کا واضح مطلب ہوگا کہ ہر مسلمان اور ہر مسلم ملک اس کے نشانے پر ہو لہذا مسلمان دنیا کے جس خطے میں بھی ہیں انھیں اپنی اور آنے والی نسلوں کی نظریاتی، اخلاقی، فنی، حربی ہر سطح کی تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ایک تبصرہ برائے “آگ اور راکھ کے بیچ”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔ سیرت نبوی اور پیغام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں یحیی سنوار کی شہادت ۔۔۔۔ عظیم شہادت ۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے