بادبان-،-عبید-اللہ-عابد

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت جو جیل سے باہر کی دنیا میں ہر طرح کی آزادی سے  ہر طرح سے لطف اندوز ہو رہی ہے، 15 اکتوبر کو ایک بار پھر ڈی چوک اسلام آباد پر چڑھائی کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

چند روز پہلے جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اپنے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے، اور ان کے قافلے کو اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا تھا، جب پولیس حسب روایت لشکریوں پر آنسو گیس کی بارش کر رہی تھی، اس شدید ترین آنسو گیس کے نتیجے میں پی ٹی آئی ورکرز کی سانسیں بند ہو رہی تھیں، ساری دنیا نے دیکھا کہ اس مقام سے بہت دور ایک پہاڑی چوٹی پر کھڑے جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان کارکنان سے ہونے والے بدترین سلوک کا تماشا دیکھ رہے تھے۔

پی ٹی آئی کے باقی رہنما بھی آنسو گیس، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے بچنے کے لیے اپنے اپنے شہروں میں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے انہیں گرفتاری سے بچنے کو کہا ہے۔ یوں یہ سب رہنما آزادیوں بھری زندگی کا مزہ لے رہے تھے۔

ایک خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جیل سے باہر موجود قیادت نہیں چاہتی کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قائدین 15 اکتوبر کو، شنگھائی تعاون کانفرنس  کے سربراہی اجلاس کے عظیم الشان موقع پر ڈی چوک اسلام آباد پر چڑھائی کرنے جیسے فیصلے کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے جس اعلامیے کے ذریعہ یہ اعلان کیا، اس میں کہا گیا

’ بانی پی ٹی آئی کی زندگی خطرات سے دوچار کرنے کے لیے بنیادی و انسانی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں، ان کو بنیادی حقوق، وکلا، اہل خانہ اور قائدین تک رسائی نہ دی تو 15 اکتوبر کو پورا پاکستان نکلے گا۔‘

سوال مگر یہ ہے کہ کیا  ایس سی او سربراہی اجلاس ایسے اہم ترین موقع پر اسلام آباد پر لشکر کشی جیسے غیر حکیمانہ فیصلے سے عمران خان پر جیل میں مبینہ سختیاں کم ہوں گی یا بڑھیں گی؟

ویسے تو جناب عمران خان بھی غیر حکیمانہ فیصلے کرنے میں نامور ہیں۔ تاہم ان کے نائبین کو کم از کم سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا جس کے نتیجے میں عمران خان جیل سے رہا ہوتے۔ اطلاعات ہیں کہ 15 اکتوبر کو ڈی چوک تک پہنچنے کا ہدف پنجاب بھر کے ورکرز کو دیا گیا ہے، ممکن اس مرحلے پر بھی پی ٹی آئی کے قائدین یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر روپوش ہوجائیں کہ  عمران خان نے انھیں گرفتاری سے بچنے کا ’حکم‘ دیا ہے۔ یوں آنسو گیس، لاٹھی چارج حسب ماضی کارکنان ہی کا مقدر بنے۔ ڈیڑھ دو ہزار پی ٹی آئی ورکرز چار اکتوبر کو پابند سلال ہوئے، پندرہ اکتوبر کو مزید کتنے جیلوں میں جائیں گے، یہ پندرہ اکتوبر ہی کو معلوم ہوگا۔

شنگھائی تعاون کانفرنس کا 23 واں سربراہی اجلاس ڈی چوک سے دو کلومیٹر دور جناح کنونشن سینٹر میں ہو رہا ہے۔ اس میں چینی وزیراعظم لی چیانگ اور روسی وزیراعظم میخائل میشوسٹن، ایرانی نائب صدر اول محمد رضا عارف، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سمیت مجموعی طور پر دس ممالک کے نمائندگان شریک ہوں گے۔ دیگر رکن ممالک بیلاروس، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان ہیں۔ افغانستان اور منگولیا کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔

تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنرز میں آرمینیا،  آذربائیجان، بحرین، کمبوڈیا، مصر، کویت، مالدیپ، میانمار، نیپال، قطر، سعودی عرب، سری لنکا، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

گویا ایک دنیا ہے جو شنگھائی تعاون کانفرنس سے جڑی ہوئی ہے اور ایک دنیا ہے جو اس اجلاس پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ ایسے میں سب کی نظریں میزبان رکن ملک پاکستان پر ہیں کہ وہاں کے حالات کیا ہیں۔

تحریک انصاف ساڑھے تین برس تک پاکستان کی حکمران رہی ہے،  گزشتہ گیارہ برس سے صوبہ خیبر پختونخوا کی حکمران ہے، اسے کم از کم اب کچھ تو بالغ ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر وہ ایک بار پھر ملک کی حکمرانی حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے، تو اسے ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ شنگھائی کانفرنس کے مذکورہ بالا ممالک خود اس پارٹی کے بارے میں کیا سوچیں گے۔

عمران خان اور ان کی پارٹی پہلے ہی پاکستان کے دو بہترین ایشیائی دوست ممالک کی نظروں سے گرچکی ہے۔ وہ پاکستان میں دوبارہ اس پارٹی کی حکمرانی دیکھنا نہیں چاہتے۔ دونوں بہترین دوست ممالک کو گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں یقین دلانے کی بار بار اور بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ اب ایسے غیر ذمہ دار اور نااہل لوگوں کو ملک کی حکمرانی نصیب نہیں ہوگی، اس لیے آپ پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے ساتھ معاہدے کریں، تعلقات کا اگلا سفر بڑھائیں۔ اس باب میں پاکستان میں تین بڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور شانے سے شانہ جوڑ کر کھڑے ہیں۔

پاکستان نے بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر عالمی تنہائی سے نجات حاصل کی ہے۔ ورنہ بے شمار اور بھرپور کوششیں کی گئیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایسے اتحادوں میں پاکستان کو پرکاہ جتنی حیثیت بھی حاصل نہ ہو، دنیا کے دیگر ممالک پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیں۔ تاہم گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے دوران پہلے دو بڑوں یعنی وزیراعظم محمد شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے طے کیا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں، وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالیں گے اور معاشی استحکام کی بہترین شاہراہ پر گامزن کریں گے، پھر گزشتہ برس ایک تیسرا بڑا بھی ان کوششوں میں شامل ہوگیا یعنی صدر مملکت آصف علی زرداری۔ یہ ایک ایسا اتحاد ثلاثہ ہے جو انتہائی مضبوط شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس نے طے کیا ہے کہ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے۔ یہ ہدف تب حاصل ہوگا جب ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی نہ کھینچی جائیں اور کسی چوتھے کو بھی ٹانگ کھینچنے کا موقع نہ دیا جائے۔

اس تناظر میں پندرہ اکتوبر کو ڈی چوک کی طرف، ایک بار پھر بڑھنے کا سوچنے والے سوچ لیں کہ وہ کیا حاصل کرنے جا رہے ہیں۔

اولاً ایسے لوگ اپنے گھروں ہی سے نہیں نکلیں گے، اگر کوئی دیوانہ نکلا تو وہ نو مئی مقدمات سے زیادہ سنگین مقدمات میں دھر لیا جائے گا۔ فیصلے کچھ ایسے ہی ہوئے ہیں۔

یہ فیصلے اس قدر ٹھوس ہیں کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی احتجاجی رویہ ترک کرکے تعمیر کے کاموں میں سرگرم کردار ادا کرنے میں پرجوش ہوچکے ہیں۔ انھوں نے ’قومی پشتون عدالت‘ کے نام پر ایک  ایسے اجتماع کو  ’امن جرگہ‘  میں تبدیل کردیا ہے جس میں افغانستان کے متروک پرچم لہرائے جانے تھے، اب وہاں پاکستانی پرچم لہرائے جائیں گے۔ پہلے وہاں زبانیں پاکستان کے خلاف آگ اگلتیں لیکن اب وہاں اس سوال پر غور کیا جائے گا کہ وزیرستان میں امن کیسے ممکن ہو؟

چند روز پہلے تک وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی سے معرکہ آرا تھے لیکن پھر ’کچھ ایسا‘ ہوا کہ اگلے ہی روز حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے جرگے میں یہ تینوں شانے کے ساتھ شانہ ملا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ چشم زدن میں ’کچھ ایسا‘ کیا ہوا؟ جواب ہے کہ یہ اسی اتحاد ثلاثہ کے فیصلے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کام پر لگ چکے ہیں۔ وزیرستان میں امن قائم کرنے، وہاں کے لوگوں کے گلے شکوے دور کرنے کا کام علی امین گنڈاپور جیسی شخصیت ہی کرسکتی تھی، اب وہ یہ کام کریں گے۔ اب باقی پی ٹی آئی سوچ لے کہ وہ کیا کرنا پسند کرے گی؟ مضبوط ترین دیواروں سے ٹکریں مار کر  اپنا ماتھا لہولہان کرنا ہے یا حکمت کی راہ اختیار کرکے اپنا سیاسی وجود قائم رکھنا ہے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے