جسمانی طور پر فٹ رہنے کے لیے ماہرین ہمیشہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ جسم کو حرکت میں رکھیں، ورزش کر یں، دوڑ بھاگ میں حصہ لیں، کچھ نہ کچھ ایسا کریں کہ اعضا کو تحریک ملتی رہے لیکن اب جسم کے اہم ترین عضو یعنی دماغ کو فعال رکھنے کے لیے دماغی ورزش پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ ہمہ وقت مصروف رہتا ہے، لاشعوری طور پر سانس لینے، جسم کا درجہ حرارت بر قرار رکھنے اور غذا کے ہضم کرنے میں دماغ ہماری مدد کرتا رہتا ہے لیکن ہمیں اس کا واضح ادراک نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیے
نئی نسل کا آئی کیو لیول پچھلی نسل سے کم کیوں؟
بچوں کی نفسیاتی صحت پر موبائل فون کے برے اثرات
خواہ مخواہ کے نفسیاتی مریضوں سے کچھ باتیں
دماغ کے شعوری فرائض بہت سے ہیں جن میں اعضا کا حرکت کرنا اور بات چیت کرنا بھی شامل ہے جبکہ دماغ کے اہم ترین حسی فرائض میں سوچنا، سیکھنا، محسوس کرنا، یاد کرنا اور یاد رکھنا شامل ہیں۔ ہمارادماغ جو زندگی بھر ہمہ وقت مصروف رہتا ہے، اس کی صلاحیتوں کو بر قرار رکھنے کے لیے محققین نے مشورہ دیا ہے کہ اسے مستقل طور پر اور باقاعدگی کے ساتھ ان کاموں کے ذریعہ فعال رکھا جائے جن سے دماغ پر زور پڑتا ہے یا اسے استعمال کر نا پڑتا ہے۔ایسا طرز زندگی جس میں ذہنی مشقت معمول میں شامل ہو اس وقت بہت کام آتا ہے جب ضعیف العمری کی وجہ سے یادداشت اور حافظہ ساتھ چھوڑ نے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دماغ خبط الحواسی کے ان دنوں میں بھی بہت چوکس اور مستعد ہوتے ہیں اور یادداشت اچھی رہتی ہے۔
آپ جتنازیادہ ذہن کو متحرک کر نے والے کام مثلاً معمے حل کرنے، کراس ورڈ پزل پُر کرنے، یا شطرنج جیسے کھیل کھیلیں گے اسی قدر آنے والے دنوں میں آپ کے لیے بہتری ہوگی، اور بڑی عمر کے وہ افراد جو فرصت کے لمحات میں مختلف قسم کے ذہنی کاموں میں مصروف رہتے ہیں مثلاً کو ئی ساز یا آلات موسیقی بجاتے ہیں یا کتابیں پڑھتے ہیں یا تاش، بورڈ گیمز اور دیگر ذہنی ورزش والے کھیل کھیلتے ہیں۔ ان میں نسیان یا بھولنے کا عارضہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بڑی عمر کو پہنچنے کے بعد ہی یہ ذہنی مشقت شروع کی جائے۔
اس رجحان کی حوصلہ افزائی بچپن ہی میں کرنی چاہیے تاکہ پختہ عمر میں یہ مستقل عادت کی صورت اختیار کرلے۔ اگر آپ کے طرز زندگی میں ذہن کو متحرک رکھنے والے کام شامل نہیں ہیں اور آپ عمر کی 50 ویں دہائی میں داخل ہوچکے ہیں تو یہ بہت مشکل ہے کہ عمر کی 60 ویں دہائی میں آپ وہ دماغی ورزش والے کام کر سکیں گے۔
دماغ کو چست اور پھرتیلا رکھنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں اخبارات پڑھنا، موسیقی سننا، کمیونٹی کے کالج یا یونیورسٹی میں اعزازی کلاسیں لینا، بحث مباحثے میں شریک ہونا یہاں تک کہ رقص کے ذریعے سے بھی اپنے ذہن کو فعال رکھ سکتے ہیں۔ ہر وہ کام جس سے آپ کے دماغ کو مہمیز ملے وہ آپ کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی ورزش کے ذریعہ اس بات کی یقینی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اس پر عمل کر نے والے کی زندگی طویل ہوگی یا معیار زندگی بہتر رہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ماہرین دماغ کا کہنا ہے کہ جو کچھ آپ کے دل کے لیے فائدہ مند ہے وہی چیزیں آپ کے دماغ کے لیے بھی مفید ہو سکتی ہیں۔ دل کو بیمار کرنے والی اشیاء اور عوامل سے دماغ بھی ناکارہ ہوسکتا ہے اس لیے سگریٹ نوشی سے پر ہیز، متوازن غذاجس میں اینٹی آکسیڈنٹ کی زیادتی ہو اور جس سے جسم فربہ نہ ہو، دل کے ساتھ دماغ کو بھی صحت مند رکھتا ہے۔
ایک تبصرہ برائے “آج کل ماہرین دماغی ورزش پر کیوں زور دے رہے ہیں؟”
منفرد موضوع پر معنی خیز تحریر ۔۔۔۔۔۔