برسا ہے شرق و غرب پر ابرِ کرم ترا
آدم کی نسل پر تیرے(ﷺ) احساں ہیں بےحساب
بِعثت سے قبل
دنیا کے حالات کچھ یوں تھے کہ یونان کا فلسفہ، کنفیوشس اور مانی کی تعلیم، بدھ مت، منوشاستر اور سولن کے افکار عملی زندگی سے کٹ چکے تھے۔ ایران و روم کی دو بڑی طاقتوں نے ایک شدید قسم کا تمدنی بحران پیدا کردیا تھا۔
خطہ عرب میں سبا، عدن اور یمن کی تہذیبیں قصہ پارینہ بن چکی تھیں۔ اب اس وقت شراب، زنا، جوا تھے عناصرِ ثقافت۔ نظام تمدن میں عورت اس قدر غیر اہم تھی کہ پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دی جاتی۔
قریش نے مشرکانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا۔
کلامی اور فقہی موشگافیوں کے بازار کے حصص یہود نے آپس میں بانٹ رکھے تھے۔
الغرض انسان خواہش پرستی کی ادنٰی سطح پر گر چکا تھا۔
ان حالات میں
کیا انسانیت کسی صوفی یا کسی راہب کی منتظر تھی؟
دنیا کو ضرورت کسی گوشہ نشیں فقیر کی تھی؟ انسانی آبادیاں تقاضا کر رہی تھیں خانقاہ و درگاہ کا؟؟؟
نہیں۔۔۔۔۔۔
انسانیت منتظر تھی محسن انسانیت کی، دنیا راہ دیکھ رہی تھی ایک ہمہ پہلو کردار کی، بستیوں کو ضرورت تھی ایک مربوط و ہمہ جہت نظام حیات کی ۔۔۔!!
اور پھر ۔۔۔۔۔
حضور ﷺ آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت، علم و حکمت،آدمیت لے کے آئے ہیں
پیغمبرِ انقلاب
محمد ﷺ ایک پیغام لے کر اٹھتے ہیں۔ انسانیت کی ڈوبتی نیّا کی پتوار سنبھالتے ہیں۔
روم و ایران کے پیدا کردہ تمدنی بحران کو توڑنے کے لیےآپ ﷺ تیسری طاقت بن کر ابھرتے ہیں حتی کہ دونوں طاقتوں کی کھوکھلی عظمتیں زمیں بوس ہوگئیں۔
آپ ﷺ کا شباب
آپ ﷺ نے انتہائی فاسد ماحول کے اندر رہ کر اپنی جوانی کو بے داغ رکھا۔ بدکاری، نظربازی جہاں عام نوجوانوں کے لیے سرمایہ افتخار تھے وہاں آپﷺ نے اپنے دامن نظر کو اک آن میلا نہیں ہونے دیا۔ پاکباز محمد ﷺ نے تو شراب کا ایک قطرہ کبھی زبان پر نہ رکھا تھا۔
روحانی و جسمانی پاکیزگی کا ایسا کامل نمونہ کب دیکھا تھا مکہ کے معاشرے نے۔ اس عفیف نوجوان کی دلچسپیوں پر نگاہ ڈالیے کہ عنفوان شباب میں وہ اپنی خدمات ایک اصلاحی انجمن (حلف الفضول) کے حوالے کردیتا ہے۔
تعمیرِ کعبہ کے موقع پر حجرِ اسود نصب کرنے کے معاملے میں قریش میں کشمکش پیدا ہوتی ہے، قبل اس سے کہ توتکار کسی خونریز لڑائی میں بدل جاتی، امن و محبت کا یہ پیکر ایسا فیصلہ کرتا ہے کہ سب قبائل کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔
میدانِ معاش میں قدم رکھا تو بڑے بڑے سرمایہ داروں کو یہ نکتہ سمجھا دیا کہ دیانت، صداقت اور محنت سے کاروبار ترقی کرتا ہے۔
بعثت نبوی
لَقَد مَنَّ اللہَ عَلَی المُؤمنینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولاً مِّن اَنفُسِھِم ۔۔۔۔الخ (آل عمران۔۔۔۔164)۔۔
دنیا بھر سے سلیم الفطرت افراد کا شمعِ حق کے گرد پروانوں کی طرح اکٹھے ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت ایک شخص کی سیرت نہیں بلکہ ایک عالمگیر اور بین الاقوامی سیرت تھی۔ گویا آپ ﷺ کی سیرت رہتی دنیا تک خالق کائنات کا ایک احسانِ عظیم ہے ساری دنیا کے لیے، ہر ملک ہر آبادی کے لیے۔۔۔
اب قیامت تک جو شخص بھی انسان دوست ہوگا اور اس زمین کو بدی اور ظلم کے زہریلے کانٹوں سے پاک کرنا چاہے گا، سیرتِ مطہرہ کی خوشبو جب تک اپنے اندر جذب نہیں کرے گا، مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔مگر آہ۔۔۔۔
آج امتی معتوب و مغلوب ہیں۔
تو، آپ ﷺ کی سیرت تو تاقیامت مشعلِ راہ ہے۔
موجودہ حالات
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ میگنا کارٹا اور انقلابِ فرانس کے انسانی حقوق کا منشور اور اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے مسودات اور ’انسانی حقوق‘ کی تنظیموں نے انسان کو کچھ نہیں دیا، سوائے چند کھوکھلے سلوگنز کے اور مخصوص معیار پہ پورا اترنے والوں کے لیے نوبل پرائز۔
آج ایسا لگتا ہے کہ جنگلی درندوں کے معمولات سے متاثر ایک چھوٹا سا گروہ ہے جو ’انسانی حقوق‘متعین کرتا ہے، دور جایلیت میں عورت زندہ گاڑی جاتی تھی۔’تہذیب وترقی ‘ کے اس دور میں صنف نازک سے زندگی کی بھاری قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اس کی حیثیت کو تب تک تسلیم ہی نہیں کیا جاتا جب تک وہ مکمل طور خود کو مرد کے قالب میں نہ ڈھال لے۔ تحریک آزادی نسواں کے بعد اب آسمانِ دنیا پر +LGBT کے خوفناک بادلوں کا ظہور پیغام دیتا ہے کہ نسلِ انسانی کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف سود خوری پوری دنیا میں کینسر کی طرح انسان کے بدن سے انسانیت ختم کر رہی ہے۔
پس چہ باید کرد؟
اے امتِ مسلم!! دنیا میں آج اگر ہم مسلمانوں کا وجود ہے تو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانفشانیوں کے طفیل ہے۔ اصلاح و فلاح کے لیے ایک مکمل ضابطہ (آپ ﷺ کی جدوجہدکی صورت میں) موجود ہے۔
کچھ تو بارِ احسان محسوس کرو، کچھ تو نبی ﷺ سے وفا نبھاؤ۔ تم مغرب کے سائنسی اکتشافات و ڈیجیٹل ترقی سے مرعوب ہو ناں؟… ارے! میدان تو خود تمہی نے انھیں دیا۔
ایک انگریز مصنف Robert Briffault اپنی کتاب The Making of Humanity میں لکھتا ہے ’مسلمانوں نے سائنس کے شعبے میں جو کردار ادا کیا، وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں۔بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہونِ منت ہے۔‘
سو، احساسِ کمتری سے نکل آؤ۔ نبی ﷺ سے سچی محبت کا ثبوت دو ۔۔۔۔
آج کوئی تو ہو جو امت کی ڈوبتی نیّا کو سہارا دے۔۔۔پھر وہ مردِ کوہستانی ہو یا مردِ صحرائی۔
اسے کرنا یہ ہےکہ
خود محبت و دعوت کا عملی نمونہ بنے۔ قوتِ قاہرہ کی ضرورت مسلّم، مگر محبت کی طاقت لاجواب ہے۔
بقولِ اقبال
مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستان ہوجا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہوجا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
ارباب حل وعقدسے گزارش
رحمۃ اللعالمین اتھارٹی ‘ بنا دینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ ضرورت رحمۃ اللعالمین کو ’اتھارٹی‘ ماننے کی ہے۔’
نظامِ تعلیم کی مخلصانہ جانچ کیجیے اور محسنِ انسانیت ﷺ نے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی، اسے عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے پورا خاکہ ترتیب دیجیے۔
پارلیمنٹ کے فلور پر کوئی بھی فیصلہ و قانون سازی کرتے ہوئے یہ ضرور سوچیے کہ اس وقت ہمارے سامنے نبی رحمت ﷺ خود موجود ہوتے تو ہم کس نہج پر قانون سازی کرتے۔ اور پھر انسانی حقوق کا پہلا چارٹر (خطبہ حجۃ الوداع) نہ صرف اپنی پارلیمنٹ میں نافذ کیجیے بلکہ اس کی گونج سارے عالم میں پھیلا دیجیے۔
امت مسلمہ کی قیادت سے
کہنا یہ ہے کہ غزہ میں ایک برس سے جاری آگ اور خون کا کھیل، معصوم بچوں کی چیخیں، نہتے شہریوں کی آہ وبکا یہ سب اس پیاری مسجد اقصیٰ کے سائے تلے ہو رہا ہے جہاں اس نبی نے تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی، جہاں سے سفر معراج کے لیے اڑان بھری جس کے نام کی آپ لوگ اتھارٹیز بناتے ہیں، کمیٹیاں تشکیل دیتے ہیں،کانفرنسز منعقد کرتے ہیں۔ واللہ! یہ نمائشی اقدامات تمھیں پکڑ سے بچا نہیں پائیں گے، تمھارے خلاف غزہ والے چارج شیٹ تیار کرچکے وقت ہے اب بھی اپنا فرض یاد کرلو۔
کاش! تمھیں اپنا فرض منصبی یاد آ جائے تب تمھیں یہ فانی جاہ و منصب ہیچ نظر آئیں گے، امت کی بقا کی خاطر جان دینے سے بڑھ کے کوئی لذت کا کام تمھیں دکھائی نہیں دے گا۔ جھوم کے گاؤ گے اور زمانہ سنے گا۔
‘میرا پیمبر عظیم تر ہے
شعور لایا، کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
2 پر “انسانیت کے نجات دہندہ ﷺ” جوابات
نگہت سلطانہ کی یہ تازہ تحریر ان کی پہلی تحریروں کی طرح سوچ کے در وا کرتی اور ذہن و فکر کو جھنجھوڑتی ہوئی راہِ عمل بھی دکھاتی ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
اعلی موضوع پر اعلی تحریر۔۔۔ ابتدائی سطور بہت عمدہ ۔۔۔۔ پس منظر اور پیش منظر دونوں جان دار۔ سیرت النبی کا جامع پیام۔۔۔۔۔ کاش کہ ہم سمجھیں ۔۔۔ورنہ۔۔”مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے”کی عملی تصویر تو ہم بنے ہوئے ہیں ۔۔