اکبر اعظم مغل بادشاہ

راجستھان کے سکولوں میں مغل بادشاہ کو ’عظیم‘ کہنے پر پابندی، کیوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کے وزیر تعلیم مدن دلاور نے اعلان کیا کہ جس بھی کتاب میں مغل شہنشاہ اکبر کی تعریف ہوگی اور ان کا ذکر ‘اکبر اعظم’ کے طور پر ہوگا، ایسی تمام نصابی کتابوں کو جلا دیا جائے گا۔

اتوار کو مدن دلاور نے یہ بات اودے پور میں موہن لال سکھاڑیہ یونیورسٹی کے وویکانند آڈیٹوریم میں ایک تقریب کے دوران کہی۔

وزیر تعلیم نے مغل بادشاہ اکبر اور راجپوت راجہ مہارانا پرتاپ کے درمیان کسی بھی موازنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ راجپوت جنگجو بادشاہ اور راجستھان کے فخر کی ’توہین ہے۔‘

خیال رہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں نہ صرف نصابی کتابوں سے مغلوں یا مسلمانوں کی تاریخ کو ہٹایا یا مسخ کیا جا رہا ہے بلکہ مسلم ناموں والے شہروں کے نام بھی تبدیل کیے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی راجستھان کی ریاست میں اکبر اور مہارانا پرتاپ کا موضوع زیرِ بحث رہا۔ یہ کہا گیا تھا کہ مہارانا پڑتاپ کو اکبر کے ساتھ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں شکست نہیں ہوئی تھی۔

اسی طرح مغربی ساحلی ریاست مہاراشٹر میں سنہ 2017 میں ہسٹری ٹیکسٹ بُک کمیٹی نے کہا تھا کہ مغل تاریخ کی جگہ وہ ’مراٹھا تاریخ‘ پڑھانے کو ترجیح دیں گے۔

بہر حال راجستھان کے وزیر تعلم مدن دلاور نے مہارانا پرتاپ کو ‘لوگوں کے محافظ’ کے طور پر بیان کیا جنھوں نے ان کے مطابق کبھی شکست نہیں کھائی جبکہ اکبر پر انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے بڑے پیمانے پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام لگایا۔

لہذا، ان کے مطابق اکبر کو ‘عظیم’ کہنا حماقت ہے۔

مہارانا پرتاب

مدن دلاور نے کہا کہ میواڑ کے علاقے اور راجستھان کے لیے ان سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہوگا جنھوں نے سکول کی نصابی کتابوں میں اکبر کی تعریف کی اور انھیں ‘عظیم’ کہا۔

وزیر نے کہا: ‘ہم نے تمام جماعتوں کی کتابیں دیکھی ہیں، ہمیں ابھی تک کتابوں میں (اکبر ا‏عظم) نہیں ملا ہے۔ اگر وہ کہیں درج ہوا تو تمام کتابیں نذر آتش کر دی جائیں گی۔’

مہارانا پرتاپ میواڑ کے ایک مشہور راجپوت راجہ تھے جنھیں مغل سلطنت کے خلاف ان کی سخت مزاحمت اور خاص طور پر 1576 میں لڑی جانے والی ہلدی گھاٹی کی جنگ کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

ہم نے اس بابت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد پروفیسر ایم وسیم راجہ سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ بہت ہی افسوسناک ہے لیکن نہ تو تاریخ کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے مٹایا جا سکتا ہے۔ البتہ ’سیاسی فائدے کے لیے اس کا استعمال ہوتا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جرمنی کے حکمراں ہٹلر نے بھی اس کا استعمال کیا تھا۔ ’لیکن جب ہم انڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو نصاب اور تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اسی فاشزم کی عکاس ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ‘ایک انڈین اور تاریخ دان کے ناتے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی سازش ہے اور مسلمانوں کے 800 سال کے دور کو غلط طور پر پیش کرنا، مغلوں کو حملہ آور اور لٹیرا کہنا درست نہیں ہے۔’

انھوں نے کہا کہ قرون وسطی ایک ایسا دور تھا جس میں ریاست کو تلوار کے زور پر پھیلایا جاتا رہا۔ ’اس میں ہندو، مسلمان جیسی کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ اسے آج پیش کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں تو اکبر ’شامل بھی نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک راجپوت سپہ سالار مان سنگھ کی قیادت میں فوج بھیجی تھی۔ یعنی میدان جنگ میں مقابلہ ایک راجپوت کا دوسرے سے تھا اور وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘مجھے یہ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اکبر کو عظیم کیوں نہ کہا جائے۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والے ان کے دربار سے وابستہ تھے۔ ہندو اور بطور خاص راجپوت ان کی حکومت میں 15 فیصد سے زیادہ تھے جبکہ اورنگزیب کے دور حکومت میں ان کی تعداد 33 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔’

پروفیسر وسیم راجہ نے کہا کہ ‘مہارانا پڑتاپ کی عظمت اپنی جگہ ہے لیکن اکبر کا عالمی اثر و رسوخ تھا۔ انھوں نے ہندوستان کو عثمانی، ازبک اور صفوی سلطنت کے برابر لا کھڑا کیا اور تقریباً پورے ملک کو متحد کیا۔’

ان کے مطابق مغلوں کی یہ پالیسی تھی کہ یا تو آپ ان کی برتری تسلیم کریں یا جنگ کریں۔ ’جنھوں نے انھیں تسلیم کیا ان کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہوئی، انھیں وطنی جاگیر دی گئی اور بہت سی دیسی ریاستیں سالم رہیں، کوئی خون نہیں بہایا گیا اور یہی مغلوں کی عظمت کے لیے کافی ہیں۔’

ایک طرف مغل فوجیں تھیں جن کی قیادت اکبر کے قابل اعتماد جرنیل امبر کے مان سنگھ کر رہے تھے۔ دوسری طرف میواڑ کے راجپوت راجہ مہارانا پرتاپ تھے جو مغلوں کی توسیع کے خلاف اپنی ریاست کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم تھے۔

اگرچہ مغل فوجیں میدان جنگ میں فتح یاب ہوئیں، لیکن یہ جنگ میواڑ کی مکمل فتح کا باعث نہیں بنی۔ مہارانا پرتاپ اپنی جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور اس علاقے میں مغلوں کے کنٹرول کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔

اس جنگ کو راجپوت تاریخ میں مزاحمت اور بہادری کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مہارانا پرتاپ کا مغل حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار اور ان کی مسلسل مزاحمت نے انھیں ہندوستانی تاریخ میں ایک افسانوی شخصیت بنا دیا۔

لیکن پروفیسر ایم وسیم راجہ کا کہنا ہے کہ بعد میں مہارانا پرتاپ سنگھ کے بیٹے امر سنگھ نے اکبر کے بیٹے جہانگیر کے سامنے سر تسلیم خم کیا جس کے بعد جہانگیر نے انھیں سلطنت سونپ دی۔

دوسری جانب اس جنگ کو ہندو اور مسلمان کی عینک سے دیکھنا بھی غلط ہوگا کیونکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغل فوج کی قیادت ہندو جنرل مان سنگھ کر رہے تھے جبکہ مہارانا پرتاپ کی جانب سے مسلم سپہ سالار حاکم خاں سور جنگ لڑ رہے تھے۔

( مصنف: مرزا اے بی بیگ، بشکریہ بی بی سی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “راجستھان کے سکولوں میں مغل بادشاہ کو ’عظیم‘ کہنے پر پابندی، کیوں؟”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ تحریر ۔۔۔ معلومات سے اراستہ۔۔۔ تعصب کی انتہا۔۔۔معروف مورخ کا علمی جائزہ ۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے