وفاقی وزیر داخلہ جناب محسن نقوی بڑے کام کے آدمی ہیں۔ ایک، دو، چار نہیں، بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ جس طرح چومکھی لڑائی لڑتے ہیں، دیکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں دبائے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تھے، تب بھی ان سے جلتا تھا زمانہ۔ پھر جب اور جس طرح وفاقی وزیر داخلہ بنے تو ان سے حسد کرنے والے بھی اوندھے منہ جاگرے۔ اور انھیں اہم ترین ذمہ داریاں تفویض کرنے والے بھی حیران ہوئے کہ
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی
اس وقت بھی محسن نقوی ریاست کی بیک وقت بہت سی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ایک طرف بطور وزیر داخلہ پورے ملک کی داخلی سلامتی کے مسائل سے ٹکر لیے ہوئے ہیں، دوسری طرف بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹ میں بہتری کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم جس طرح حال ہی میں بنگلہ دیش کی ٹیم سے ہاری، اس نے محسن نقوی کے مخالفین کو شیر کردیا۔ وہ تاک تاک کر چیئرمین پی سی بی پر نشانے لگا رہے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کی سرجری کا ٹھٹھا اڑایا جا رہا ہے۔
خیر! اللہ نے چاہا تو وہ آنے والے دسمبر میں ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت بھی سنبھالیں گے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر ، سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر محسن نقوی کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان پہلے محسن نقوی کی فوٹیج دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے تھے، اب باقاعدہ بڑبڑاتے رہتے ہیں۔
جناب محسن نقوی نے تین روز پہلے کچھ ایسا کہا کہ اب ہر کوئی بڑبڑا رہا ہے، آپ نے فرمایا’ بلوچستان میں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، یہ سارے( بلوچستان میں برسرپیکار دہشت گرد) ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔‘
اس سے ایک دن پہلے اعلان کرچکے تھے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے حقائق قوم کے سامنے لائیں گے۔ اگلے دن وہ حقائق تو سامنے نہ لائے، البتہ سیدھے سادے انداز میں بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو ’ ایک ایس ایچ او کی مار‘ والی تڑی لگا دی۔
اس تڑی کو ایک انکشاف بھی سمجھ لیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے پاس ایک ایس ایچ او ہے جو عشروں سے جلتے ہوئے بلوچستان کو پرسکون صوبہ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایس ایچ او ہے کون اور اب تک کہاں چھپا ہوا تھا۔ ریاست کو اس کی صلاحیتوں کی خبر کیوں نہ ہوسکی؟ تاہم یہ سب سوالات بے کار ہیں، اس وقت کا ملین ڈالرز کا، اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ ایس ایچ او کب بروئے کار آئے گا؟ کب وہ سب دہشت گردوں کو ایک جھانپڑ رسید کرے گا اور ان کی ساری اکڑ نکال دے گا؟ اللہ کرے کہ اس سوال کا عملی جواب نتائج کی صورت میں سامنے آ جائے۔ کیونکہ سارا پاکستان بلوچستان کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کب وہاں آگ اور خون کی بارش تھمے گی!
اب تک ہمارے کرتا دھرتا میڈیا کے ذریعے قوم کی معلومات میں صرف یہی اضافہ کر رہے تھے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے جڑتے ہیں۔ اور یہ کہ ’ را’ نہیں چاہتی کہ پاکستان میں سی پیک منصوبہ مکمل ہو۔
اب کوئی ان کرتاؤں دھرتاؤں سے پوچھے کہ دشمن سے کیا پیار اور پھولوں کے ہاروں کی توقع رکھی جائے؟ وہ دشمن ہے، اس نے دشمنی ہی کرنی ہے۔ یہ ایک طفل مکتب بھی جانتا ہے کہ سی پیک منصوبہ بہت سوں کے دلوں میں خار کی طرح کھٹکتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے بعض دفاعی تجزیہ کار بھی قوم کے سامنے فکر افروز تجزیے پیش کر رہے ہیں کہ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے پوری دنیا کی ایجنسیاں بلوچستان میں پہنچ چکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ ایجنسیاں بلوچستان میں داخل ہو رہی تھیں، وہاں جمع ہورہی تھیں، تب آپ کی آنکھیں کہاں پر ٹکی ہوئی تھیں؟ اب جب انھوں نے یہاں انڈے بچے دیدیے ہیں،ا ور وہ خوب دھینگامشتی کر رہے ہیں، اس وقت آپ کی زبانوں پر تجزیے جاری ہو رہے ہیں۔
تری رہبری کا سوال ہے ہمیں راہزن سے غرض نہیں
جناب محسن نقوی! آپ اپنے اس ایس ایچ او کو کام پر لگائیے کیونکہ ہمیں تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیوں میں الجھائے رکھا۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ دشمن اور اس کے ہرکارے جب اور جہاں چاہتے ہیں، کارروائیاں کر جاتے ہیں اور ہماری انتظامیہ سانپ گزرنے کی لکیر ہی کو پیٹتی رہ جاتی ہے۔
افسوس ناک بلکہ شرمناک امر یہ بھی ہے کہ دشمن کو بہت پہلے سے بخوبی علم تھا کہ ہمارے کرتا دھرتا کتنی صلاحیت کے مالک ہیں۔ وہ دشمن کی کارروائیاں کیا روکتے، اس کے پراپیگنڈے کا جواب دینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔
مثلاً ایک بیانیہ جمایا جاتا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین سے سینکڑوں افراد کو لاپتہ کیا گیا۔ ان کے اغوا کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری حکومتیں اور اس کے ادارے اس بیانیہ کے سامنے مضمحل کھڑے لڑکھڑاتے رہتے ہیں۔ یہ اپنا بیانیہ جمانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے کہ ان سینکڑوں افراد میں سے سینکڑوں افراد اپنے گھروں میں موجود ہیں۔ اور باقی کے ’سینکڑوں‘ عسکریت پسندی میں مشغول ہیں جن کی تصاویر اور فوٹیجز اسلحہ پکڑے واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ جوابی بیانیہ جمانا ہو تو ایران میں ایسے ’لاپتہ‘ افراد کی ہلاکتوں کا واقعہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے، بیانیہ نہ جمانا ہو تو اور بات ہے۔
اگر کسی کے پاس ٹھوس بنیادیں بھی موجود ہوں، اس کے باوجود جوابی بیانیہ نہ جم سکے، اسے مضبوط نہ کیا جاسکے تو یہ صلاحیت پر سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آپ حقائق ہاتھ میں پکڑے ہار جائیں اور وہ جھوٹ بول کر نہ صرف جیت جائیں بلکہ پروپیگنڈا کے میدان میں اپنا بھرپور تسلط قائم و دائم رکھیں۔
کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ ہم جان بوجھ کر بلوچستان میں کامیابی نہیں چاہتے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور کچھ دیگر بلوچ رہنماؤں کی باتیں سنیں تو ایسا ہی لگتا ہے۔ بلوچ رہنماؤں کو جب ہم تڑیاں لگاتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم واقعی بلوچستان میں امن نہیں چاہتے۔
تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا جب بھی تڑیاں لگاتے رہے، وہ مسائل کو سنگین سے سنگین تر کرتے رہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسی تڑیوں سے! یہ بلوچستان میں جو خون کی برسات ہورہی ہے یہ اٹھارہ سال پہلے کی ایک تڑی ہی کا نتیجہ ہے، تب جنرل مشرف نے اکبر بگٹی سے کہا تھا کہ وہ انھیں ایسی جگہ سے ہٹ کریں گے کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اکبر بگٹی کو پتہ چلا تھا یا نہیں، اس کا نہیں پتہ البتہ جنرل مشرف کی اس تڑی کے بعد ہم کہاں کہاں سے ہٹ ہو رہے ہیں، ہمیں آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
بادبان، عبید اللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “ایک ایس ایچ او کی مار”
خوب ۔۔۔ آپ نے اس تحریر میں جو سوال اٹھائے ہیں بڑے معنی خیز ہیں۔اور ارباب حل و عقد سے جواب کے متلاشی بھی۔۔۔۔اخر میں یہ بھی بجا فرمایا کہ بلوچستان میں مجودہ صورت حال ان ” تڑیوں” کا نتیجہ ہے۔ جو ہم نتائج کی پروا کے بغیر بلوچ سرداروں کو دیتے ہیں۔۔