عبداللہ منصور
محترم اسمعیل ہنیہ کے قتل پر فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والا ہر انسان دکھ محسوس کر رہا ہے۔ میں اس واقعہ کو ایک مختلف زاویہ سے دیکھتا ہے۔ آپ بھی پڑھیے اور غور و فکر کیجیے۔
تل ابیب سے تہران تک کا فضائی فاصلہ تقریباً 1600 کلومیٹر ہے۔
اسرائیل کے پاس بہت سے تیز ترین ہتھیار ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کے لیے جریکو-2 میزائل استعمال کیا گیا ہے۔ بیلسٹک جریکو-2 میزائل جس کا وزن 26000 کلوگرام اور لمبائی 14 میٹر ہے۔ جو وہاں سے فائر کیا گیا اور تقریباً 12 منٹ بعد تہران میں واقع اپنے ہدف سے جا ٹکرایا۔
آپ اندازہ کریں کہ یہ میزائل فائر ہونے کے بعد تقریباً 3 منٹ اردن، 5 منٹ عراق اور 4 منٹ ایران کی حدود میں اڑتا رہا لیکن ان ریاستوں کے کسی ریڈار نے میزائل کو انٹرسپٹ نہیں کیا اور نہ ہی اردن اور عراق نے اگلے ملک کو انفارمیشن دی کہ 14 میٹر لمبی کوئی چیز ہوا میں اڑتی جا رہی ہے تاکہ دوسرا ملک اپنا دفاع کر سکے۔
اس کے علاوہ اردن کے ساتھ سعودی عرب کا بارڈر تقریباً 200 کلومیٹر بھی لگتا ہے۔ اس علاقے کے سعودی ریڈار نے بھی اس میزائل کو چیک نہیں کیا۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ ان ریاستوں کے پاس اینٹی میزائل سسٹم موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ بیکار ہے۔
اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی فوجی تنصیبات نااہل اور نکمی ہیں۔ ان کے پاس سائنس ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے۔ یہ عرب بادشاہ اور ان کی فوجیں پیٹرول کی مال و دولت جمع کرنے اور بڑی بڑی عمارات اور قمیتی گاڑیاں، سامان تعیش اور اپنے گھروں میں خوبصورت بیویوں کا ہجوم اکٹھا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر تے۔
اس تناظر میں فلسطینیوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی جدوجہد پر نظر ثانی کریں۔ عرب ممالک سے ان کو مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایران اور دیگر قوتوں کی طرف بھی ان کو مطلوبہ مدد نہیں پہنچ سکتی۔ ان حالات میں جذبات میں آکر مزید نقصان کرنے کی بجائے بہتر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک خطرناک سوال یہ بھی ہے کہ مہمان نے جس عمارت میں قیام کیا تھا وہ کئی منزلہ تھی لیکن میزائل صرف ان کے کمرے میں ہی ٹکرایا۔اس کے علاوہ باقی کمرے محفوظ رہے؟؟؟ ایسا کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟؟؟؟
دعا ہے کہ اللہ فلسطینیوں کی مشکلات ختم کر دے اور آپ کی آزادی کے لیے غیب سے مدد فرما دے۔ آمین ثم آمین۔
جناب عبداللہ منصور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے سربراہ ہیں
ایک تبصرہ برائے “کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے جڑے چند سوالات کا جواب مل سکے گا؟”
سوال تو پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔لمحہ فکریہ بھی۔۔۔۔ عرب تو اپنی موت مریں گے۔۔ ان کا معاملہ قریب ا لگا۔۔۔۔ مسلمانوں کو اس حصار سے نکلنا ہوگا کہ ہم ایک” امت” ہیں۔۔۔ اور حماس کو بھی حکمت عملی بدلنا ہوگی۔۔۔۔ درست ہے ۔۔۔