انسانی-ہمدردی

19 اگست ، انسانی ہمدردی کا عالمی دن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دنیا بھر میں آج انسانی ہمدردی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

ہمدردی کیا ہے؟

کسی پریشان حال کو توجہ دینا، لینا۔

کسی دکھی کے دکھڑے سن کر اسے حوصلہ دینا۔۔۔

اپنے گرد و پیش میں لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آنا۔

اور اپنے فرائض  کی انجام دہی میں خوش طبیعتی کا مظاہرہ کرنا۔

ہمدردی کی اہمیت شریعت اسلامی میں اس کے مقام  کو اجاگر کرنے لیے یہ  حدیث ہی کافی ہے کہ

الدین النصیحہ۔

دین سراسر خیر خواہی ہے  اور رسول اللہ نے یہ الفاظ تین بار دہرائے۔

حدیث ملاحظہ ہو۔

تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’دین  سراسر خیر خواہی کا نام ہے، دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے، دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے‘۔

 لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟

 آپ نے فرمایا: ’اللہ کے لیے،

 اس کی کتاب کے لیے،

 اس کے رسول کے لیے،

مومنوں کے حاکموں کے لیے

 اور ان کے عام لوگوں کے لیے‘۔

«‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 23 (55)

اسلام کا سب سے بڑا درس یہی ہے کہ ہر کسی کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے۔ ہمدردی کا اسلامی تصور نہ صرف مسلمانوں اور انسانیت تک محدود ہے بلکہ تمام مخلوقات سے شریعت اسلامی ہمدردی کا تقاضا کرتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ ‘

آج کے اس مادہ پرست دور میں دیکھا جائے تو ہر جانب انسانیت دکھی ہے، پریشان ہے ، ہر طرح کے مصائب و مشکلات کا شکار ہے۔

ان حالات میں ہم میں سے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم  اپنے گرد و پیش میں انسانیت کو اس کے دکھ و کرب سے اگر نکالنے کی طاقت نہیں بھی رکھتے تو کم از کم ہمدردی ضرور کر سکتے ہیں۔

اور یہی ہمدردی کے دو بول متاثرہ شخص کی آدھی تکلیف کو کم کر دیتے ہیں اور اس کرب کی کیفیت  سے افاقہ میں کافی موثر ثابت ہوتے ہیں۔

اس کے لیے ہم میں سے جو فرد کارخانہ حیات کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنے ہم پلہ و ہم پیشہ افراد کے ساتھ جبکہ کمزور طبقے کے ساتھ بالخصوص ہمدردانہ و خیر خواہانہ

 رویہ رکھے۔ اس کی کئی جہات ہو سکتی ہیں:

نرم خوئی ہمدردی کا خاص عنصر ہے اور یہ انسانی معاملات کو بحسن و خوبی انجام دینے

اور آپس کے تعلقات کو مضبوط کرنے

 نیز انسانیت کو جوڑے رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہمیں اس آیت سے ہوتا ہے کہ

 ہمارے پیارے نبی کی بھی

 نرم خوئی اور نرم گفتار کو اللہ کا ایک خاص انعام گردانا گیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

اے پیغمبر! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے چھٹ جاتے۔

 باری تعالٰی نے دل و زبان دونوں کی سختی سے منع فرمایا ہے۔

ایک شخص اگر نرم دل ہے لیکن اس کی زبان سخت اور

الفاظ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں، اور دوسرا شخص جو کہ دل کا سخت ہے، ان دونوں کے قریب آنا پسند نہیں کیا جاتا،

  کیونکہ نبی مہربان  ﷺ کا ارشاد ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’دلوں کی سرشت یہ بنائی گئی ہے کہ جو ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرے، دل ان سے محبت کرتے ہیں اور جو بدسلوکی کرے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ ‘

اس طرح تند خو اور سنگدل، دونوں کا حلقہ خالی رہتا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھیں کہ ہم کسی سے ہمدردی و خیر خواہی کے دو بول بولتے ہیں،

اس کا ہاتھ تھام کر  اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے رحمت ایزدی اور  پھر اپنے ساتھ کا یقین دلاتے ہیں۔

 یہ بندہ زندگی بھر کے  لیے آپ سے جڑ جاتا ہے۔ اور یہی نرم خوئی و نرم دلی نہ صرف معاشرے کے امن و خوشحالی کی ضامن ہے بلکہ جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کا بھی سبب ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے اور کون آگ پر حرام ہے۔

 آگ حرام ہے ہر اس شخص پر جو (اللہ اور اس کے بندوں سے) قریب ہے، ان سے نرم سلوک کرتا ہے، ملائمت رکھتا ہے اور ان کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔‘

اور

’ کیا میں تمہیں اہل جنت کے متعلق خبر نہ دوں۔۔۔۔۔۔

 ہر آسانی پیدا کرنے والا۔

 نرم خو، نرم دل

 اور لوگوں کے قریب رہنے والا

اہل جنت میں شامل ہے۔ ‘

 دوسروں کےحالات سے آگہی۔

آج کے  ڈیجیٹل دور نے جہاں دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے، وہاں پاس بیٹھے دو لوگوں کو بھی ایک دوسرے سے  کوسوں دور کر دیا ہے۔

جبکہ ایک دوسرے کی صحت، عافیت، معاشی و دیگر گھریلو  حالات و مسائل سے باخبر رہنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

اسلام نے اس کی بھی تفصیل بتا ڈالی کہ جو جتنا قریب ہے اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہے۔

پڑوسی کا حق اللہ نے رکھا ہے لیکن قریب ترین پڑوسی اور اگر پھر  رشتہ دار بھی ہو تو اس کے حق نسبتا  زیادہ ہے۔

اسی طرح قرآن نے ایک اصطلاح صاحب بالجنب کی استعمال کی ہے جس سے مراد ہے:

’ پہلو کا ساتھی۔۔۔‘

یہ اصطلاح کافی وسیع ہے  اس سے مراد ہر موقع و مقام پر  پہلو کا ساتھی جس کی ہمیں مختصر و طویل رفاقت نصیب ہوتی ہو، اس کے ساتھ حسن سلوک و ہمدردی ہمارا فرض ہے۔

ہمارا روم میٹ، مجلس میں پاس بیٹھا شخص۔

سفر میں ہیں تو سیٹ پر ساتھ بیٹھا بندہ، کلاس یا آفس میں ہیں تو پہلو میں موجود فرد۔ اسی طرح کئی طرح کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

ان سب کے حقوق ہں کہ ہم اپنی صحبت سے ان کو سکون و آرام پہنچائیں نہ کہ تکلیف و پریشانی۔

اور پہلو کے ساتھی کے حالات سے باخبر رہنا تاکہ اگر وہ خدانخواستہ کسی مشکل و پریشانی میں مبتلا ہے تو ہم اس کے کسی کام آ سکیں۔

شاعر مشرق کے بقول

ہیں لوگ وہیں جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

فاطمۃ الزہرا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے