آزادی، مساوات اور عدل کے خوب چرچے ہیں۔ انہیں حیات انسانی کے زرّیں اصولوں کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے بہت سے انسان غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جو آزاد تھے، وہ بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے۔ طاقت و اقتدار کا مالک طبقہ ان پر اپنی مرضی تھوپتا تھا۔
رفتہ رفتہ ان میں بیداری آئی، اپنی محرومی اور مظلومیت کااحساس پیدا ہوا، اپنے حقوق کے حصول کے لیے انہوں نے منصوبہ بند کوششیں کیں۔ مختلف ممالک میں انسانی حقوق کے اعلامیے تیار کئے گئے۔ ان کوششوں کا نقطۂ عروج حقوق انسانی کا بین الاقوامی منشور ،جسے 10دسمبر1948ءکو اقوام متحدہ میں پیش کیاگیا ۔
1949 ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے جنیوا (Geneva) میں عالمی سطح پر ایک معاہدہ کو قطعیت دی گئی ۔ جس کی رو سے دنیا کے تمام ممالک کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کریں لیکن اس کنونشن کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ان ہی ممالک میں ہو رہی ہے جو اس کے محرک و داعی تھے اور آج بھی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بنے ہوئے ہیں۔
ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی اس سے بدتر کوئی مثال نہیں ہوسکتی جو جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ اپنائی ۔ تمام قیدیوں کو ایک بڑے پائپ میں ٹھونسا گیا اور اس کے کنارے سے زہریلی گیس چھوڑدی گئی ۔ ہولوکاسٹ(Holocaust) کے نام سے مشہور ان ہی مظالم کے حوالے سے یہودی آج بھی اپنے کو مظلوم ثابت کرکے دنیاکی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی دباؤ کے نتیجے میں1945ء میں ان قیدیوں کو رہاکرنے کا حکم ملا، تو ان میں سے صرف 20 فیصد یہودی زندہ تھے اور 80 فیصد قیدی ناقابل برداشت اذیت رسانی سے موت کے منہ میں پہنچ چکے تھے۔ مصرکے اشتراکی ، شام کے نصیری اور عراق کے بعثی حکمران گزشتہ صدی میں اسلام کالبادہ اوڑھے واشنگٹن کو اپناقبلہ بنائے ہوئے ان ہی کی تقلید میں فخرمحسوس کر رہے تھے۔
ان کاحال بھی اپنے مغربی آقاؤں سے کچھ کم نہیں تھا۔ جمال عبدالنّاصر سے السّیسی تک نے مصر میں اخوانیوں پر مظالم ڈھائے۔ زینب الغزالی سے لے کر سابق صدر محمد مرسی تک ہزاروں بے گناہ اخوانی ان درد ناک اور وحشت ناک اذیتوں کے گواہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے مخلص اوربزرگ رہنماؤں کے ساتھ مغرب نواز حکمراں ٹولہ کی ذاتی پرخاش اور ’ عظیم جمہوریت‘ کی دعویدار ہندوستان کی جیل خانوں میں تعذیب کی بدترین شکلیں ، غرض کہ حقوق انسانی کاراگ الاپنے والے ہی توہین انسانیت کے مجرم بنے ہوئے ہیں ۔ ؎
آدمیت احترام آدمی باخبرشوازمقام آدمی (اقبالؔ)
دورِجاہلیت اور دور نو میں قیدیوں کے ساتھ رویے میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ رومی حکومت میں قیدیوں کی کھال اتاری جاتی اور ان کی لاش کتّوں کے سامنے ڈالی جاتی، جسموں کو گرم لوہوں سے داغا جاتا۔ اشوکؔ کے زمانے میں قیدیوں کو کھولتے ہوئے پانی کے کنوؤں میں ڈالا جاتا تھا۔ اٹلی میں قیدیوں کو ایسے کمروں میں رکھاجاتا جن میں نہ وہ کبھی کھڑے ہوسکتے تھے اور نہ ہی سوسکتے تھے۔ قیدیوں کی پوری زندگی بیٹھنے کی حالت میں گزرتی۔
عہدجاہلیت میں عرب اپنے قیدیوں کو سخت گرم پتھروں پرلٹاتے ، جس سے ان کے جسم کی چمڑی جل جاتی اور جسم کی چربی پگھل کر پتھر پر بہتی۔ ان کی اقتداکرتے ہوئے آج مغربی ممالک کی طرف سے قیدیوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور سفاکانہ سلوک کیاجا رہا ہے ، وہ ماضی کے ان ہی درد ناک مناظر کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ عراق کے ابو غریب اورکیوبا کے قیدخانوں سے جو اطلاعات عالمی پریس میں شائع ہوئی ہیں، وہ اس کی کافی مثال ہیں۔ افغانستان میں قندھار اورکابل سے طالبان قیدیوں کو جانوروں سے بھی بدترحالت میں بند ٹرکوں میں ٹھونساگیا، جن میں ہوا کے داخل ہونے کا کوئی سوراخ نہیں تھا۔ پیاس سے تڑپ تڑپ کر ان معصوموں نے ایک دوسرے کے جسم سے نکلنے والے پسینے کو چوسنا شروع کیا، اس حالت میں تڑپ تڑپ کر ان میں سے ایک بڑی تعداد نے جامِ شہادت نوش کیا۔ بچ جانے والوں کو بحراوقیانوس کے جنوب میںواقع کیوباکے گوانتانامی جزیرے میں واقع لوہے کے ایسے تپتے ہوئے کمروں میں بند کیاگیا کہ جانوروں کو بھی ان پر رحم آگیا۔
’فُکّوالعانیِ‘ ڈاکٹرشاہد بدر فلاحی کی داستانِ الم ہے۔ بدنام زمانہ تہاڑجیل میں جرمِ بے گناہی کے کٹے تاریک ایام کی رونگٹے کھڑی کرنے والی کہانی ۔
یہ صرف مصنف کی آپ بیتی نہیں بلکہ’ عظیم جمہوریت ‘اور’ حقوق انسانی ‘کے علمبردار ہندوستان کے مختلف جیلوں میں اُداس و ناامید اورحبس بے جا میں پڑے ہزاروں قیدیوں کی ترجمانی ہے۔
مصنف کو قید ہونے کے بعد دوسال تک اپنی شریک حیات اور معصوم بچوں کا دیدار تک نہ کرایاگیا۔ انسانی عظمت جیل کی دیواروں سے فزوں تر ہے، لیکن اس عظمت کا احساس دنیاکی بڑی جمہوریت کے دعویدارکو نہیں۔ کنیاکماری سے کشمیر تک کے عقوبت خانے اس سفاکانہ سلوک کے شاہد عادل ہیں۔
ڈاکٹرشاہدبدر کے قلم نے مظلوم قیدیوں کی آہ وفغاں کو قلمی پیکر عطا کرکے مجسم ، قاری کے سامنے کھڑا کردیا اور اہل دل قاری جذبات سے مغلوب ہوکر اشک شوئی کے لیے مجبور ہوتاہے۔ عقوبت خانوں میں مقید اللہ کی پیداکردہ معزز مخلوق کے ساتھ کس طرح کا غیر انسانی سلوک کیاجارہا ہے ، مصنف نے اس طرف اشارہ کیاہے ۔ ناخن اکھاڑے جاتے ہیں، الیکٹرانک شاک دیا جاتا ہے، الٹالٹکایاجاتاہے، لوہے کی گرم سلائی سے جسم کے پوشیدہ اور نازک اعضاء کو داغا جاتاہے، کتے اور سانپ ان پر چھوڑے جاتے ہیں، ان کوپانی میں مسلسل ڈبوکر ان سے اپنی من چاہی معلومات اگلوائی جاتی ہیں، ایسے تنگ اور تاریک کمروں میں رکھاجاتا ہے کہ غلطی سے بھی وہاں ہوا اور روشنی کاگزر نہ ہو۔ مسلسل نیند سے محروم رکھ کر ذہنی و دماغی طورپر مفلوج کرنے کے لیے ان کی آنکھوں پراتنی تیز اور چکاچوند کرنے والی روشنی چھوڑی جاتی ہے کہ قیدی کے لیے لمحہ بھر سونا دشوار ہو جاتاہے۔ بسا اوقات قیدی کو ایسی متعفن اور بدبودار جگہ پر رکھاجاتاہے کہ جس کے تصور سے ہی ایک سلیم الطبع انسان کا دل کانپ اٹھے۔ غرض کہ ان کے ساتھ وہ وحشیانہ اور سفاکانہ سلوک کیاجاتاہے ، جس کے سامنے ہلاکو ، چنگیزخان اور ہٹلر کے مظالم کی داستان بھی شرما جائے۔ ؎
بھرنہ آئے جوکسی کی بے بسی پراے حفیظؔ
اس کوکیسے آنکھ کہہ دیں، اس کوکیسے دل کہیں
میدان جنگ میں اتنا ظلم نہیں ہوا جتناکہ عدالت کی چاردیواری کے اندر ہو رہاہے۔ سالوں سال ملزموں کو مجرم قرار دینے کے لیے تاریخوں پر تاریخیں ملتی ہیں لیکن جرم ثابت نہ ہونے پر کئی برس عقوبت خانوں میں گزارکر انہیں بری کیاجاتاہے۔ ایسے میں بے گناہ قیدیوں پر ایک منفی اثر پڑتا ہے اور بسا اوقات جرم کی طرف ان کی رغبت بڑھ جاتی ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد اپنی جیل ڈائری میں لکھتے ہیں :
’جیلیں بگاڑنے کی جگہیں ہیں ۔یہ مجرم ساز فیکٹریاں ہیں ۔چندہی دنوں میں جو چیز ہم لوگ شدّت سے محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ کہ بدقسمتی سے ہماری جیلوں کو محض عذاب گھر بنا دیاگیاہے، اور نتیجہ کے اعتبارسے یہ مجرم ساز فیکٹریاں بن گئی ہیں…..‘
تحریر کی یہ خوبی ہے کہ وہ تصویر بن جائے ، ڈاکٹرشاہد بدرفلاحی اس میں کامیاب نظرآتے ہیں۔ اگرچہ اردو ادب کی چاشنی اور لطافت کی کمی ہے لیکن سوزِ دل سے چھیڑے ہوئے اس نغمہ کی کیفیت ہرقاری اپنے اوپر طاری ہوتے ہوئے محسوس کرسکتاہے۔ یہ کتاب حقوق انسانی کے ان دعویداروں کے لیے بھی چشم کشاہے، جن کی موجودگی میں یہ وحشت ناک اورانسانیت سوزحرکات رقم کیے جارہے ہیں۔ ؎
کہہ رہاہے داستاںبے دردی ایّام کی
کوہ کے دامن میںبیٹھا وہ دہقان پیر
٭٭٭
2 پر “قیدی کو چھڑاؤ” جوابات
ماشاءاللہ
آپ نے بہت خ۲بصورتی سے تمام صورتحال کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی علم و عمل میں مزید برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
شکرًا جزاک اللہ عزیزمن