جب ہر طرف دکھ کے ڈیرے ہوں تو کون نہیں چاہے گا کہ خوشی کے نغمے اس کی سماعت سے ٹکرائیں، پیار کے ترانے اس کی روح کو سیراب کریں، چاہت کے قصے اس کے لیے طمانیت و سکون کاسامان کریں ۔کچھ ایسی ہی آرزو لیے میں 14اگست کی صبح کا در کھولتی ہوں ۔۔۔۔۔
اور اب میرے سامنے یہ مناظر ہیں
ایک الہڑ دوشیزہ آلات موسیقی اٹھائے، تہذیب سے عاری لباس زیب تن کیے، ایک گانے کا بھاری معاوضہ طے کرنے کے بعد افلاس کی ماری، بھاری بلوں کے بوجھ تلے دبی، خودکشیوں پہ مجبور قوم کے سامنے ناچ رہی ہے اور گارہی ہے’ ہم زندہ قوم ہیں، پائیندہ قوم ہیں۔۔۔‘
دوسرا منظر ملاحظہ کیجیے
ٹی وی سکرین پہ چند دانشور بیٹھے ہیں اور قائد اعظم کو ایک سیکولر پاکستان کا بانی ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ٹی وی کے سامنے پانچویں کلاس کا ایک بچہ اپنی درسی کتاب میں قائد کا یہ فرمان پڑھ رہا ہے ‘مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے نہ وطن ہے نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلافرد جب مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔۔‘
اس کی بہن جو ساتویں کلاس میں ہے اسے نئی کتاب دکھاتے ہوئے بتا رہی ہے’ بھیا ! پرانی کتاب کو چھوڑو، یہ نئی دیکھو۔ اس میں یہ فرمان قائد نہیں ہے، نئی کتاب خریدو۔
جی ہاں! اب کے جشن آزادی سے پہلے پہلے حکمرانوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا کہ قیام پاکستان کے مقصد کو واضح کرنے والے فرامین قائد ہی کو درسی کتب سے حذف کردیا۔۔
ایک اور منظر
کچھ ٹین ایج بچے بچیاں اسمارٹ ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہیں، اسکول کالج سے چونکہ چھٹی ہے لہذا یہ لوگ تفریح کے موڈ میں ہیں۔ پیپسی کی کئی بوتلیں، مکڈونلڈز کی آئیٹمز ان کے سامنے ہیں۔ یہ لوگ جشن آزادی مناتے ہوئے بالی ووڈ کی ایک مشہور مووی دیکھیں گے جو ثابت کرتی ہے کہ بھارتی فوج امن چاہتی ہے جبکہ پاکستانی فوج دہشت گرد تیار کرتی ہے۔
اس پراپیگنڈا فلم کے مناظر جو ہیں سو ہیں مگر ان بچے بچیوں کی بے ہنگم سرگرمیاں، مووی کے مناظر کے ساتھ ان کے اعصاب اور خیالات اور دل پہ وارد ہونے والے معاملات ان کی باہم گفتگو سے ظاہر ہو رہے ہیں۔۔۔
میں شرم سے نگاہ جھکا لیتی ہوں، تفکرات گھیر لیتے ہیں اور پھر بچوں کی آواز مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے:
‘امی جان مانا کہ ہمارے ٹیرس پہ جا کے ایک نئی دنیا دکھائی دیتی ہے مگر اب نیچے آئیں، جلد تیار ہوجائیں آپ بھی۔ہم تیار ہیں سب۔ پروگرام یہ ہے
۔۔۔آپ کا ایک لیکچر ہوگا قیام پاکستان، تشکیل پاکستان کے موضوع پہ۔ اور یہ پروجیکٹر کے ساتھ ہو گا۔ ہم نے یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کو اکٹھا کر لیا ہے،
ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک خاکہ پیش کریں گے’تعمیر پاکستان کیوں اور کیسے؟‘ کے عنوان سے۔آخر میں ہم سب دوست دس دس درخت لگائیں گے’
بچوں کا عزم ان کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک کی صورت دکھائی دے رہا تھا۔ اب جہاں میرے اندر اداسی و مایوسی کے ڈیرے تھے، وہاں امید اور مسرت کے شادیانے بجنے لگے۔
صحن میں قدم رکھا تو بچے سبز ہلالی پرچم لہرانے کی تقریب منعقد کرنے میں مصروف تھے۔ سبز ہلالی پرچم کا نظارہ روح کو مسرور نہ کرے، ایسا ہو نہیں سکتا۔
ایک تبصرہ برائے “ہم زندہ قوم ہیں”
بہت عمدہ ۔۔ خوب صورت عکاسی ۔۔ جان دار مناظر ۔۔۔۔ وقت بتائے گا کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔۔