جماعت-اسلامی-پاکستان-کے-امیر-حافظ-نعیم-الرحمان-وفاقی-وزیر-داخلہ-محسن-نقوی-اور-وفاقی-وزیر-اطلاعات-عطا-اللہ-تارڑ-کے-ہمراہ

جماعت اسلامی اور وفاقی حکومت کے مابین معاہدہ: پاکستانی قوم کو کب، کتنا اور کیسے ریلیف ملے گا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جماعت اسلامی اور وفاقی حکومت کے درمیان گزشتہ شب بالآخر باقاعدہ طے پا گیا، جس کے بعد جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے  راولپنڈی اور کراچی میں دیے گئے دھرنوں کو موخر کرنے کا اعلان کردیا۔ جماعت اسلامی کے یہ دھرنے  بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسز کی بھرمار و دیگر ایسے مسائل کے خلاف ہیں جن کے سبب عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔

گزشتہ شب ہونے والے معاہدے میں جماعت اسلامی پاکستانی قوم کے لیے کس قدر ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اور یہ ریلیف کب اور کیسے ملے گا؟ اس کا بخوبی اندازہ اس معاہدے کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے جو گزشتہ شب طے پایا۔

ذیل میں معاہدے کا مکمل متن قارئین کی دلچسپی کی خاطر شائع کیا جارہا ہے:

جماعتِ اسلامی پاکستان کے دھرنا میں 08 اگست 2024ء رات 9:30 بجے حکومت کی مذاکراتی  ٹیم اور جماعتِ اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے پانچویں مشترکہ اجلاس میں دھرنا کے مطالبات پر حتمی مذاکرات ہوئے۔ اِس موقع پر حافظ نعیم الرحمن صاحب، امیر جماعتِ اسلامی پاکستان خصوصی طور پر مذاکرات میں شریک ہوئے۔

حکومت کی مذاکراتی ٹیم:     وفاقی وزیرِ  داخلہ سید محسن نقوی صاحب،  وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات  عطاء اللہ تارڑ صاحب

جماعتِ اسلامی مذاکراتی ٹیم:         لیاقت بلوچ،  امیر العظیم،  نصر اللہ رندھاوا،  فراست شاہ

08 اگست 2024ء مذاکرات کے آخری راؤنڈ میں طے پایا کہ گزشتہ چار راؤنڈز کے  مذاکرات میں جن اُمور پر اتفاق ہوا ہے اُسی کے تسلسل میں اتفاق پایا کہ حکومت درج ذیل اقدامات کرے گی:

1۔      تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کو ہر ممکن طریقے سے کم کیا جائے گا، اِس کے لیے ریونیو کو بڑھایا جائے گا، جس سے fiscal base پیدا کی جائے گی اور تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کی شرح گذشتہ مالی سال کے مطابق آجائے گی۔ اِس کے لیے حکومت اور جماعتِ اسلامی کی مشترکہ کمیٹی عملدرآمد کروائے گی۔

2۔      حکومت نے جماعتِ اسلامی کے اِس مطالبہ کو تسلیم کیا ہے کہ بجلی کے بل ہر صورت کم ہونے چاہئیں۔ فی یونٹ لاگت اور اُن پر لگنے والے ٹیکسز صارفین پر بڑا بوجھ ہیں۔ حکومت نے وضاحت کی کہ یہ مجبوری  ہے، تاہم یقینی طور پر ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جس سے آئندہ ڈیڑھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کردی جائے گی۔

3۔      حکومت نے دھرنا کے اِس مطالبہ سے اتفاق کیا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ میکنزم طے کرکے جاگیرداروں اور بڑے لینڈ ہولڈرز پر انکم ٹیکس لگانے کا مؤثر  نظام وضع کیا جائے گا۔

4۔      تاجر دوست سکیم کے نفاذ سے پیدا ہونے والے غیرمنصفانہ نظام اور خدشات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تاجروں پر ٹیکس کا نظام آسان اور سہل الحصول بنایا جائے گا۔

5۔      تاجروں، ایکسپورٹرز کے مسائل کے حل کے لیے  فوری طور پر ایک کمیٹی NOTIFY کی جائے گی جو حکومت ، ایکسپورٹرز اور تاجروں پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرے گی۔

6۔      وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت آئی پی پیز کے معاملہ میں سنجیدہ ہے، جماعتِ اسلامی کا مطالبہ قومی مطالبہ ہے، اِسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔ حکومت نے اِسی لیے بااختیار ٹاسک فورس قائم کردی ہے جو ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی۔

7۔      ماہِ اگست 2024ء بجلی کے بل کی ادائیگی 15 دن کے لیے مؤخر کی جارہی ہے تاکہ صارفین کو سہولت حاصل ہو۔

نیز ٹاسک فورس درج ذیل اقدامات بھی کرے گی:

(1)     آئی پی پیز کی جانچ پڑتال کا مقصد عوام کو ریلیف دینا اور فی یونٹ لاگت کم کرنا ہے، تاکہ کیپیسٹی بلز ادائیگی کی بچت براہِ راست بجلی فی یونٹ کی کمی سے منسلک ہو۔

(2)     ٹاسک فورس واپڈا چیئرمین، آڈیٹر جنرل آف  پاکستان، ایف پی سی سی آئی کے نمائندے بھی Opt کرے گی۔

مذاکراتی کمیٹیوں نے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ٹاسک فورس کے درجِ ذیل نکات (TORs) سے اتفاق کیا ہے:

ٹاسک فورس اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی  میں:

(i)      پبلک/پرائیویٹ سیکٹر سے کسی بھی ماہر کا انتخاب کرے گی۔

(ii)     مقامی اور/یا بین الاقوامی مشاورتی فرموں، بینکرز، قانونی مشیروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرموں، یا کسی دوسری تنظیم یا فرد سے جیسا کہ ضروری سمجھا جائے، ریکارڈ اور معلومات اور/یا مدد حاصل کرے گی۔

ٹاسک فورس کے حوالہ کی شرائط (TORs) حسب ذیل ہیں۔

(i)      پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل طور پر پائیدار بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔

(ii)     اس کے نفاذ کے ساتھ ایک موثر اور لیکویڈیٹی پر مبنی  پاور مارکیٹ ڈیزائن کرنا؛

(iii)    ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے صنعتوں/SEZs کی طرف سے اضافی صلاحیت کے استعمال کی سفارش کرنا؛

(iv)    صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لینا اور تجویز کرنا، بشمول لیکن ان تک محدود نہیں بعض پلانٹس کو بند کرنا اور مناسب سمجھے جانے والے دیگر ضروری اقدامات کرنا۔

(v)     ملک میں مختلف آئی پی پیز کے سیٹ اپ لاگت سے متعلق معاملات کا جائزہ لینا اور ان کو درست کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرنے کے لیے غلط طریقوں، طریقہ کار کی کمزوریوں اور ریگولیٹری خلا کی نشاندہی کرنا؛

(vi)    متعلقہ سرکاری ایجنسیوں/ اداروں کے ساتھ دستخط کیے گئے مختلف معاہدوں کے پیرامیٹرز/ شرائط و ضوابط کے ساتھ آئی پی پیز کی تعمیل کا جائزہ لینا؛ اور

(vii)   توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیبٹ اسٹاک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔

(viii)  ٹاسک فورس کا کردار حقائق کی تلاش تک محدود نہیں ہوگا، اور ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بھی ذمہ دار ہوگی۔

(ix)    ٹاسک فورس کو وفاقی حکومت کی جانب سے مطلوبہ بجٹ مختص کرنے سمیت مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔

(x)     اپنے قیام کے ایک ماہ کے اندر، ٹاسک فورس اپنی سفارشات اور عمل درآمد کے منصوبے کے ساتھ وزیر اعظم کو غور کے لیے پیش کرے گی۔

جماعتِ اسلامی اور حکومتی وزراء کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے پانچ ادوار میں درج ذیل مطالبات پر تفصیلی بحث ہوئی لیکن اِن پر اتفاق نہ ہوسکا۔ حکومتی ٹیم نے اِس کی وضاحتیں کیں کہ آئندہ مراحل میں حکومت اِن مطالبات پر پہلے ہی کام کررہی ہے:۔

٭        سُود کی لعنت  کو مکمل ختم کرنا تو لازم ہے ہی لیکن حکومت ابتدائی طور پر بجلی کے بِلوں میں فوری ریلیف دینے کے لیے شرح سُود میں 5 سے 10 فیصد بتدریج کمی لائے گی۔ اِس اقدام سے حکومت کوعوام کو ریلیف دینے کے لیے ہزاروں ارب روپے اضافی حاصل ہوجائیں گے۔ اِسی طرح بنکوں/ مالیاتی اداروں کی ریزرو شرح کو 25 فیصد تک کردیا جائے گا۔

٭        K الیکٹرک کا بھی فرانزک آڈٹ کیا جائے گا۔ اس کا میکنزم بنایا جائےگا اور اس کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ KE کی monopoly کو ختم کیا جائے گا۔ KE کی generation براہِ راست کی جائے گی اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے competition کو پیدا کرتے ہوئے متعدد کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا۔

٭        سرکاری سطح پر سیاسی، حکومتی، انتظامی اہل کاروں کے لیے گاڑیوں کا استعمال 1300 سی سی تک محدود کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔ نیز سرکاری  اہل کاروں کے لیے مفت مراعات خصوصاً ذاتی استعمال کے لیے مفت پٹرول کی مراعات ختم کی جائے گی۔

٭        حکومت آٹا، چینی، بچوں کا دودھ اور اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسوں کا بوجھ ختم کرکے ان اشیائے ضروریہ میں عوام کو ریلیف دے (حکومتی ٹیم نے وضاحت  کی کہ اِس پر غور اور عمل کیا جارہا ہے)۔

مطالبات کے جو نکات طے پاگئے ہیں حکومت اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے کہ اُن پر اُس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرے گی۔ حکومت اور جماعتِ اسلامی کی کمیٹی اِس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً ملاقات کرکے عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔

نوٹ:  مذاکرات کے ادوار میں حکومتی ٹیم کی جانب سے وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری، وفاقی وزیر امورِ کشمیر امیر مقام، چیف وہپ طارق فضل چوہدری شریک ہوتے رہے۔    

کمشنر راولپنڈی ڈویژن، آر پی او راولپنڈی ریجن، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ضلع نے کوآرڈی نیشن اور مہمان داری کی بہت خوب ذمہ داری ادا کی۔

حکومت کی جانب سے مذاکرات کے ادوار میں ٹیکنیکل ماہرین بھی شریک ہوئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “جماعت اسلامی اور وفاقی حکومت کے مابین معاہدہ: پاکستانی قوم کو کب، کتنا اور کیسے ریلیف ملے گا؟”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ کوریج ۔۔۔۔ تمام نکات کی تفصیل موجود ہے۔۔۔ عوام الناس کے لیے رہ نمائی اور روشنی۔۔۔۔ جماعت اسلامی ایک امید ۔۔ان شاءاللہ