گزشتہ دنوں جنرل یحییٰ خان کا ایک انٹرویو دیکھ رہا تھا بلکہ اس انٹرویو کے دوران جنرل کا چہرہ اور ان کا انداز گفتگو دیکھ رہا تھا۔ ان کا چہرہ نخوت بلکہ تکبر سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے منہ سے ایک ایک لفظ بدترین تکبر سے لتھڑا ہوا نکل رہا تھا۔ فہم و فراست اور دانش کی کہیں پرچھائی بھی نہ تھی۔
ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا سگریٹ سلگانے والے فوجی جرنیل کا چہرہ پتھریلے تاثرات سے بھرا ہوا تھا۔
تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ انٹرویو کرنے والا غیر ملکی اخبار نویس حیرت زدہ تھا کہ ایک قوم نے کیسے اس شخص کو بطور حکمران برداشت کرلیا۔ مجھے لگا جیسے جنرل کو انٹرویو ختم ہونے کی بہت جلدی ہو، اسے بار بار شراب اور شباب کی فکر ستا رہی تھی جو ایک دوسرے کمرے میں اس کے منتظر تھے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں چیزیں اس فوجی جرنیل کی ذات تک ہی محدود رہتیں، انھیں ریاست کے معاملات پر غلبہ حاصل نہ ہوتا۔ اور آج ہم جنرل یحییٰ خان کی زندگی کے اس بُرے پہلو کا ذکر نہ کرتے۔
مغرب میں کتنے ہی حکمران ہیں، جو شراب و شباب کے رسیا ہوتے ہیں لیکن ان کے اس شغل کی کسی دوسرے کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ ان کی شبانہ روز مصروفیات کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھیں ریاستی امور نمٹانے کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں۔
جس مغربی حکمران کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ اس کی ایسی کسی ‘مصروفیت’ سے ریاستی معاملات متاثر ہوئے، پھر اسے عدالت کے کٹہرے میں ضرور کھڑا ہونا پڑتا ہے اور سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔
تاہم جنرل یحییٰ خان کا معاملہ یکسر مختلف تھا۔ ان کے لیے ریاست کے تمام معاملات ترجیحات کی فہرست میں آخری درجے پر تھے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے درجوں میں صرف اور صرف عیش و عشرت، اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
مثلاً ایک بار شاہ ایران پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ دورہ مکمل ہوچکا تھا۔ ان کا دمِ واپسی تھا۔ پروٹوکول کے مطابق ملک کے صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے انھیں رخصت کرنا تھا لیکن جنرل صاحب اپنے بیڈ روم سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں تھے۔
ایوان صدر کے حکام اور اسٹاف کو اندازہ تھا کہ جنرل صاحب کس قسم کے’شغل‘ میں مشغول ہوں گے۔ چونکہ شاہ ایران کی رخصتی کا معاملہ بھی اہم ترین تھا، اس لیے صدر مملکت کو بیڈروم سے باہر نکالنا بہت ضروری تھا، اس کے لیے ایک تدبیر اختیار کی گئی۔ یہ تدبیر کیا تھی؟ اس کا جواب دلچسپ بھی ہے اور افسوس ناک بلکہ شرمناک بھی۔
سابق آئی جی پولیس سردار محمد چوہدری اپنی آپ بیتی’ جہانِ حیرت’ میں لکھتے ہیں:
‘آخر صدر کے ملٹری سیکریٹری جنرل اسحٰق نے اقلیم اختر رانی( المعروف بہ جنرل رانی) سے کہا کہ وہ اندر جائے اور صدر کو باہر لائے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ملک کی ایک مشہور ترین گلوکارہ کو صدر کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پایا۔ خود رانی کو اس منطر سے بڑی کراہت محسوس ہوئی۔ اس نے کپڑے پہننے میں صدر کی مدد کی اور بدقّتِ تمام اسے باہر لائی۔’
سردار محمد چوہدری ان دنوں اسپیشل برانچ (راولپنڈی) کے ایس پی تھے، صدر مملکت کی ذات اور ایوان صدر کی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی انہی کے پاس تھی۔ صدر کے ذاتی محافظوں کا تعلق بھی ان کے اسٹاف سے تھا۔ راولپنڈی ڈویژن کی اسپیشل برانچ کے لیے سیاسی اور سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے کے ذمہ دار بھی سردار محمد چوہدری تھے،اور اسلام آباد بھی انہی کے دائرہ اختیار میں آتا تھا۔
جنرل یحییٰ کے دور میں ایوان صدر کیسا تھا؟ سردار محمد چوہدری لکھتے ہیں:
‘اس وقت ایوان صدر ہر قسم کے لوگوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔صدر پرلے درجے کا شرابی اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کی سیکورٹی کا انچارج ہم جنس پرست تھا۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ وہاں دلال اور طوائفیں تھیں اور بعض کو انتہائی اہم مرتبہ حاصل تھا۔ ان میں اقلیم اختر رانی، مسز کے این حسین اور لیلیٰ مظفر سرفہرست تھیں۔ علاوہ ازیں وہاں بہت سی بدنام لیکن حسین و پرکشش عورتوں کا ہجوم تھا جو سارا دن تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ناچنے کودنے میں مصروف رہتی تھیں۔ پولیس کے سپاہی ایوان صدر کو کنجر خانہ، جی ایچ کیو کو ڈنگر خانہ اور اپنی پولیس لائنوں کو لنگر خانہ کہتے تھے۔’
سردار محمد چوہدری کی اس کتاب میں جنرل یحییٰ کو جاننے کے لیے مزید بہت کچھ ہے، صرف ان کی ذات سے متعلق نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست سے متعلق بھی۔ یہ کتاب گویا ایک عینی شہادت ہے، ایک گواہی ہے۔ اس کے مطالعہ سے ایسے بہت سے لوگوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے جو پاکستان ٹوٹنے کے بعد ‘ ہیروز’ قرار پائے، جمہوریت کے علمبردار اور پاکستان کے نمبردار بنے۔
اس کتاب کے علاوہ بھی دیگر کئی شہادتیں موجود ہیں۔ مثلاً سابق آئی جی پولیس راؤ رشید کی کتاب ’ جو میں نے دیکھا‘۔ ایسی ساری کتب کے سبب پاکستان کی ہر آنے والی نسل کچھ اور یاد رکھے یا نہ رکھے، یہ ضرور یاد رکھے ہوئے ہے کہ جب مشرقی پاکستان ٹوٹ رہا تھا، جنرل یحییٰ خان کس قسم کی ‘ذمہ داریاں’ ادا کر رہے تھے۔
اور پھر جب مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کو شکست ہو چکی تھی، جنرل اپنے روایتی متکبرانہ لہجے کے ساتھ نشری تقریر کرنے لگا:
‘آج میں ملک کی تشویش ناک صورت حال کے بارے میں ایک بار پھر آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں۔ یہ صورت حال ہمارے عیار اور سفاک ہمسائیہ ملک نے ہم پر جنگ مسلط کرکے پیدا کردی ہے۔۔۔۔۔دشمن کے پاس کثیر اسلحہ تھا اور جسے ایک عظیم طاقت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی، انہی اسباب کی بنا پر مشرقی پاکستان میں دشمن ہم پر حاوی ہوگیا۔۔۔۔۔ ‘
جب جنرل یحییٰ خان یہ نشری تقریر کر رہے تھے، شاید وہ بھول گئے تھے کہ جب مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے جوان انتہائی مشکل صورت حال میں پھنسے ہوئے تھے، وہ خود ایوان صدر میں جنرل رانی اور دیگر حسیناؤں کے جھرمٹ میں ہوش سے مکمل طور پر بے گانہ تھے۔اور اسی حال میں جینا چاہتے تھے۔
جب مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی، عین اس وقت یحییٰ خان پشاور میں نوتعمیر شدہ اپنے بنگلے کا افتتاح کر رہے تھے۔ اس بنگلے پر ایک ایک پائی سرکاری خزانے کی لگی تھی۔ افتتاح کے اس’پرمسرت موقع‘ پر جنرل رانی بھی شریک تھیں۔
بنگلے میں ایک سوئمنگ پول تھا، جو روشنیوں میں نہا رہا تھا۔ یہاں رات ایک دو بجے تک شراب چلتی رہی۔ عجب طوفان بدتمیزی بپا تھا۔ کھیل میں شریک جرنیل بکینی میں ملبوس حسیناؤں کو اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینک رہے تھے، وہ باہر نکلتیں، قہقہے لگتے اور پھر انھیں سوئمنگ پول میں پھینک دیا جاتا۔
یہ سب کچھ عین اس وقت ہورہا تھا جب پاک فوج کے جوان مشرقی پاکستان میں گھیرے میں آئے ہوئے تھے، انھیں بدترین اذیتوں کے ساتھ مارا جا رہا تھا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنرل صاحب کچھ ایسا کرجاتے کہ آج ان کی وفات کے چوالیس سال مکمل ہونے پر ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جاسکتا!
ایک تبصرہ برائے “جنرل محمد یحییٰ خان، پاکستان کا انوکھا جرنیل”
بہت عمدہ تحریر ۔۔ جنرل یحیٰی خان واقعی محمد شاہ رنگیلا تھا۔۔ خدا جانے ہماری قسمت میں ابھی سیاسی اور فوجی کتنے” محمد شاہ رنگیلے” لکھے ہیں۔۔ سردار محمد چودھری بڑے دیانت دار افسر تھے۔۔