کوئی وقت تھا، جب امریکی وزیرخارجہ ( سیکرٹری آف اسٹیٹ) ایک وائسرائے کی طرح مشرق وسطیٰ کے دورے پر آتا تھا، کچھ منتخب سربراہان مملکت سے ملتا تھا، کس سربراہ مملکت سے ملنا ہے، اس کا فیصلہ بھی وہی کرتا تھا۔ اور پھر مشرق وسطیٰ میں چند ایک فرامین جاری کرتا اور واپس واشنگٹن کی طرف پرواز کرجاتا۔
اس کے اس ٹور کے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے۔ کس کو کس کے ساتھ کیسا معاہدہ کرنا ہے، کیسے تعلقات روا رکھنے ہیں، اس کا فیصلہ انہی فرامین کی روشنی میں کیا جاتا۔
امریکی عہدے دار کے دورے کا مقصد خطے میں اسرائیل کی عمل داری کو بڑھانا اور مستحکم کرنا ہوتا تھا۔ اور ہر ایسے دورے کے نتیجے میں یہ مقصد پوری طرح حاصل بھی ہوتا تھا۔ یہ تب کی بات تھی جب امریکا ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے عنوان سے صرف اپنا پرچم لہرانا چاہتا تھا لیکن یہ خواب تمام تر کوششوں کے باوجود شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
آج کا مشرق وسطیٰ بالکل مختلف ہے۔ اب چین اس قدر بھرپور انداز میں خطے کے معاملات میں شریک ہوچکا ہے کہ امریکی اثرورسوخ سکڑتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان حالات میں امریکی پالیسی ساز سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا!
یقیناً انھیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے، اور یہ ضروری ہے۔ شاید امریکا اور مغربی اقوام کی اگلی نسلیں کچھ سبق حاصل کرسکیں اور اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ دوام انصاف ہی کو ہے، بے انصافی کا سر نیچا ہی ہوتا ہے۔ ایک نہ ایک دن وہ بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کو ذلت سے بھرپور شکست سے دوچار کرتی ہے۔
مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکا اور چین کی پالیسی میں فرق کیا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ امریکا اور چین میں سے کون فلسطینیوں کے ساتھ کتنا مخلص ہے؟
سن دو ہزار چھ میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے عام انتخابات ہوئے۔ اس میں حماس اور اس کے اتحادیوں نے مجموعی 132 نشستوں میں سے 74 حاصل کیں جبکہ محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن( پی ایل او ) کو 50 سیٹیں ملیں۔ اس اتحاد میں سب سے بڑی جماعت ’فتح‘ ہی ہے۔
جیسے یہ نتائج سامنے آئے، واشنگٹن والوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ ان کا دکھ یہ تھا کہ انھوں نے پی ایل او کے حق میں ماحول بنانے کے لیے 2.3 ملین ڈالر کے اخراجات کیے تھے لیکن ان کی ساری رقم ہی ڈوب گئی تھی اور حماس نے حکومت قائم کرلی تھی۔
امریکیوں کے پیش نظر اب ایک ہی سوال تھا کہ حماس کی راہ روکنے کے لیے اگلی حکمت عملی کیا اختیار کی جائے؟ انہوں نے فیصلہ کیا اور پلان بی پر کام شروع کیا، اس کے ’مفید‘ نتائج آنے والے چند روز میں سامنے آگئے۔ حماس اور فتح کے درمیان تصادم ہوا۔ فتح نے مغربی کنارے کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ حماس کی حکومت غزہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس کے بعد غزہ کا محاصرہ ہوا۔ وہاں خوراک تو دور کی بات ادویات کی ترسیل سے متعلق بھی فیصلہ اسرائیل ہی کرتا۔ محاصرہ اس قدر سخت تھا کہ اقوام عالم میں اس پر بے چینی کی لہر ابھرنا شروع ہوئی۔
ترکیہ( اس وقت ترکی) نے فریڈم فلوٹیلا کے نام سے ایک بحری امدادی قافلہ بھیجنے کی کوشش کی لیکن اسرائیل نے اس پر حملہ کردیا۔ اور ترکی کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی ایک دنیا میں مذمت ہوئی لیکن بس! مذمت ہی ہوئی البتہ غزہ کے باسیوں کی زندگی تنگ ہوتی چلی گئی۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران امریکا کی پالیسی یہی تھی اور ہے کہ غزہ والوں کی زندگی مزید تنگ کردی جائے۔
اس کے نتیجے میں غزہ ایک جیل بن گیا حتیٰ کہ گزشتہ برس سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو غزہ کے مزاحمت کار گروہوں نے جیل کو توڑنے کی ایک کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں غزہ والے شہید کردیے گئے ہیں۔ تادم تحریر شہادتوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جن میں بہت بڑی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیل اور امریکا کا خیال تھا کہ وہ نئی صورت حال میں بھی خطے میں اپنا کنٹرول برقرار رکھیں گے بلکہ اسے مزید سخت کردیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کچھ ایسے دعوے کر رہے تھے کہ اگلے چند ہی روز میں حماس سمیت تمام فلسطینی مزاحمت کاروں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اور پھر خطے میں اسرائیل امریکا کا ہاتھ پکڑ کر چہل قدمی کرتا پھرے گا۔
دس ماہ بیت چکے ہیں، مزاحمت کار مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسرائیل پاگلوں کی طرح وحشت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ امریکا ایک طرف جنگ بندی کی باتیں کر رہا ہے، دوسری طرف ایک آنکھ میچ کے اسرائیل کو اشارے کرتا ہے کہ لگے رہو!
امریکا کی ایسی ہی پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے مشرق وسطیٰ میں ’امن کے علمبردار‘ کے بجائے ’اسرائیل کا مددگار‘ سمجھا جاتا ہے۔ اب اس کے بیانات اور کوششوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف چین کا کردار یہ ہے کہ اس نے چند روز قبل حماس اور فتح سمیت 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں کو اپنے ہاں مدعو کرکے ان کی صلح کروا دی۔ اس صلح نامہ کے مطابق سب فلسطینی گروہ تقسیم ختم کرتے ہوئے باہم متحد ہوں گے۔ ایک قومی مفاہمتی عبوری حکومت قائم کریں گے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے چین مزید کیا کچھ کروائے گا، سمجھنا مشکل نہیں۔
ان کوششوں کے تناظر میں چین مشرق وسطیٰ میں صرف اور صرف امن چاہتا ہے۔ یہ امن چین کے منصوبے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ کے لیے ضروری ہے جس کے مطابق وہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں ترقی اور خوشحالی چاہتا ہے۔ وہ دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
چین کو اپنا یہ منصوبہ بہرصورت پورا کرنا ہے۔ اس کے لیے اسے مشرق وسطیٰ میں مکمل امن قائم کرنا ہے۔ دنیا میں جنگ، لڑائی، نفرت اور تفریق کی سیاست کرنے والے چین کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ مشرق وسطیٰ پہلے جیسا نہیں رہا اور نہ ہی وہ اس حالت میں رہ سکتا تھا۔ اب 1967 سے پہلی کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست قائم ہوگی، ایک مضبوط ریاست۔
بادبان، عبید اللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “سات اکتوبر 2023 کے بعد، مشرق وسطیٰ کس قدر بدل چکا ہے؟”
بہت عمدہ تحریر ۔۔۔ تاریخ بھی۔۔ مستقبل بھی۔۔۔ کاش چین اپنے منصوبے کو مکمل کرے تاکہ امریکہ کی اجارہ داری ختم ہو۔۔۔۔ رہی مسلم دنیا تو غلاموں کا ذکر ہی کیا۔۔۔۔