آپ کا ایک عدد انتہائی عیار و مکار دشمن ہو۔ اور وہ ہو بھی آپ کا ہمسائیہ، آپ پھر آپ بڑے آرام سے اپنی شہ رگ اس کے حوالے کر دیں تو یہ کیسا لگے گا؟
آپ تو اس کے تصور سے ہی کانپ گئے۔ اب آپ یہ سوچیے کہ آپ کے اپنے پیارے ملک پاکستان کی شہ رگ بھی تو عیار و مکار ہمسائیہ کے ہاتھ میں ہے نا!
جی ہاں! پاکستان کے مفاد پرست حکمرانوں ہی کا یہ کارنامہ ہے کہ وطن عزیز کی شہ رگ کشمیر جنت نظیر تھال میں سجا کر بھارت کے سامنے پیش کردی گئی۔
قارئین! آج ہم نے بحیثیت قوم اگر اپنی شہ رگ والے معاملہ کو برداشت کرلیا تو گویا ہم اپنے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے اس گھناؤنے جرم کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔
شہ رگ کے تذکرے کے انداز ہزار ، کبھی کبھی تو ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا بنتا ہے نا۔۔۔
راقم نے اپنے ضمیر کا بوجھ کچھ ہلکا کرنے کی خاطر تحریکِ جہادِ کشمیر کے ایک گمنام ہیرو کی کچھ یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ زیرِ نظر سطور آپ کے دل کے خاموش تاروں کو ہِلا دیں گی۔
آئیے! پہلے ایک کتاب پر امجد اسلام امجد کے لکھے تاثرات میں سے چند فقرے پڑھتے ہیں:
’۔۔۔ حیرت کی بات ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ان کا شاعر، سلیم ناز بریلوی ایک نیم گمنام حیثیت رکھتا ہے۔ نہ اخبارات ورسائل میں اس کی تصویریں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ مشاعروں یا ادبی محفلوں میں کہیں دکھائی دیتا ہے۔ میڈیا کے اس دور میں ایک ایسے مشہور آدمی کا گمنام رہ جانا اپنی جگہ پر ایک دلچسپ اور قابلِ غور سوال ہے اور یہ سوال جماعتِ اسلامی کے لیے تو سب سے بڑھ کر قابل غور ہونا چاہیے تھا۔ سلیم ناز دیکھنے میں اتنا عام سا اور گفتگو میں اس قدر منکسر المزاج ہے کہ اس سے ملنے کے بعد بھی اس پر ’شاعر‘ ہونے کا گمان نہیں گزرتا۔ وہ اپنے فکر اور موضوع سے اتنا کمیٹڈ اور وابستہ ہے کہ شاید اسے اس طرح رہنے کی فرصت ہی نہیں ملتی جسے ہم زمانے کا دستور کہتے ہیں۔۔۔‘
یہ الفاظ ملک کے نامور ادیب و شاعر امجد اسلام امجد نے سلیم ناز بریلوی کی کتاب ’جنگ جاری رہے ‘پر اپنےتاثرات میں لکھے تھے۔
قارئین! امجد اسلام امجد کی طرح ہمیں بھی حیرت ہے، بلکہ دکھ ہے، شکوہ ہے۔ وہ جو ڈالروں کے عوض بِک گئے، ڈالروں کے عوض ٹریک 2 پالیسی سے بھی پسپائی اختیار کر کے، مسئلہ کشمیر کو رول بیک کر بیٹھے۔
دیس کے ان ‘محسنوں’ سے کیا شکوہ کہ رول بیک کرنے کے بعد قوم کو یہ سبق پڑھایا کہ
’ جہاد یہ ہے کہ آپ لوگ جہالت کے خلاف جدو جہد کریں۔ ‘
اور ساتھ ہی قوم کو جہالت کی گہری کھائی میں پھینک دیا۔ اب ان سے ہم شکوہ کریں؟
انہوں نے تحریکِ جہادِ کشمیر، تحریکِ حریتِ کشمیر، مزاحمتی تحریک کے ہیروز کو بھی گمنام رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
زمانہ دیکھ رہا ہے کہ ایسے ‘محسنوں’ کی سانسیں تک بعض اوقات ان کے لیے ‘شکوہ’ بن جایا کرتی ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار‘۔۔۔۔۔۔
سچ پوچھیں تو ہمیں شکوہ محبِ وطن حلقوں سے ہے۔ وادئ کشمیر کے گیت گاتے جھرنوں، نغمہ خواں آبشاروں، بل کھاتی جھیلوں کے حسن کے اسیر ان دیوانوں سے، جن کے لیے وادی کی یہ ادائیں دل کی زندگی اور روح کی غذا تھیں۔ ان لوگوں نے بھی اپنے جذبات کو کچھ کچھ ٹھنڈا کر دیا اور وادی کے ساتھ اپنا روحانی وقلبی تعلق اور مستی و شوق کی وہ بو اور وادی میں ظلم سہتے نہتے کشمیریوں کا درد انہوں نے اپنی اگلی نسل میں منتقل نہیں کیا۔
جماعتِ اسلامی سے آپ ہزار اختلافِ رائے رکھیں تاہم اس حقیقت کو کوئی رد نہیں کر سکتا کہ جماعتِ اسلامی نے مسئلہ کشمیر کے لیے تن بھی دیا، من بھی اور دھن بھی۔ بلا شبہ آج بھی جماعت اسلامی مسئلہ کشمیر پر ٹھوس پالیسی رکھتی ہے۔ مگر خود جماعت کے حلقوں میں اس مسئلے کے ساتھ جذباتی وابستگی میں کچھ کمی آئی ہے اور اسی کی طرف اشارہ کیا امجد اسلام امجد نے۔
ہم جانتے ہیں جہاں آپ کے پاؤں میں زنجیریں پہنا دی جائیں وہاں آپ مجبور ہیں مگر روح اور دل کو آج تک کوئی زنجیریں پہنا سکا ہے کیا ؟؟؟
ہم بات کر رہے تھے سلیم ناز بریلوی کی۔
قارئین ! ہمارے بچوں کو، پاکستانی بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سلیم ناز بریلوی پاکستان سے سچا پیار کرنے والا، میدانِ عمل میں ہمہ وقت متحرک شاعر تھا۔ محسوس کرو اس کی محبت، پاکستان سے محبت
آزادی کے تین نشان
اللہ محمد اور قرآن
سب کشمیری مل کر بولو
جیوے جیوے پاکستان
آزادی آزادی آزادی آزادی
اور
آزادی کی للکاروں میں
تیروں، تیغوں، تلواروں میں
ہند پہ جاری یلغاروں میں
اور لاشوں کے انباروں میں
ہر کشمیری مست رہے گا
جب تک 14 اگست رہے گا
سلیم ناز بریلوی کا جذبہ، ان کی خواہش ( کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی ) ان کی جدو جہد جب الفاظ میں ڈھلتی تو کچھ اس طرح کے گیت خود ان کی پرسوز آواز میں فضا میں اپنا جادو بکھیرتے تھے۔
ہم تن من دھن واریں کشمیر کی وادی پر
ہر قطرہ خوں قربان تیری آزادی پر
تیری خاک کا ہر ذرہ دل و جان سے پیارا ہے
کشمیر ہمارا ہے،کشمیر ہمارا ہے
’ مہذب ’دنیا‘ کی ’ثالثی ‘ اور بھارت کی ہمہ جہت پراکسی وار اور اقوامِ متحدہ کی بے بسی و بے حسی کے نتیجے میں وطنِ عزیز میں پسپائی و ذہنی شکست خوردگی کے اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے رجحان سے پہلے ، 1990ء کی دہائی میں جب مقبول علائی شہید، شمس الحق شہید، اشرف ڈار شہید کے تازہ گرم خون نے تحریکِ آزادئ کشمیر کی آبیاری کی اور ’سید علی گیلانی‘ کے جذبہ و استقامت کے سامنے ہمالیہ بھی سرنگوں ہو کر رہ گیا تھا تب سلیم ناز کی خوبصورت آواز میں یہ نغمہ پاک وطن کی فضاؤں میں ایسا گونجا گویا کہ بچے بچے کو زبانی یاد تھا۔ سکولوں میں بچے اس نغمے پر ٹیبلو اور خاکے پیش کرتے تھے، ریڈیو مظفر آباد اور ریڈیو تراڑ کھل پر دن میں کئی بار پیش کیا جاتا وہ مشہور نغمہ یہ تھا:
’پیاری ماں مجھ کوتیری دعا چاہیے
جب شہادت ملے مجھ کو کشمیر میں اور کیا چاہیے
پیاری ماں
آندھیوں سے لڑا اپنے شہباز کو
سر پہ رکھ ہاتھ پھر بھیج پرواز کو
اور دعائیں شہادت کی دے ناز کو
پیاری ماں‘
قارئین !لہو لہو وادی اور مظلوم کشمیریوں کا درد سلیم ناز بریلوی جیسے حساس انسان کے لیے دل کا روگ بن گیا۔ احباب نے مشورہ دیا علاج کا، مگر سلیم ناز کے پاس کہاں فرصت تھی کہ وہ اپنی صحت کی طرف دھیان دیتے۔ شدید معاشی مشکلات سے دوچار کثیرالعیال اس دردمند دل والے نے تکمیلِ پاکستان کا جو خواب آنکھوں میں بسایا تھا اس کی تعبیر کی تلاش میں دن رات ایک کر دئیے۔ دل کا سوز نغموں میں ڈھلتا رہا۔ یہ نغمے قریہ قریہ کوچہ کوچہ گونجتے کرتے رہے۔ فضاؤں میں جذب ہوئے، پہاڑوں سے ٹکرائے، دلوں میں بس گئے۔
بقول جگ موہن سنگھ ( اس وقت کا مقبوضہ کشمیر کا گورنر )
’یہ نغمے قبروں کے مردوں کو جگاتے رہے۔۔۔۔‘
اور پھر وہ جو دلِ دردمند رکھتا تھا، وادی کے بچوں، بوڑھوں، جوانوں، بہنوں بیٹیوں کی آواز تھا وہ جواں سال سلیم ناز چپکے سے 4 اکتوبر 1999 کو ابدی نیند سو گیا۔
جبر کی رات کہتی ہے ’اسے ڈھونڈ کے لاؤ کہیں سے __ ’ صبح روشن کی امید کہتی ہے’ اس کی روح تو بہشت کے آزاد پرندے کے قالب میں ڈھل چکی، وہ آزاد تھا، آزاد رہنا چاہتا تھا، غلامی سے جنم جنم کا بیر تھا اسے۔ آزاد ہو گیا، امر ہو گیا ۔
ہاں مگر آدھے ادھورے دیس کے باسیو! اس کی زندگی کا ایک ایک پل، جذبہ شہادت سے سرشار اس کی مدھر آواز کی بازگشت یہ پیام دیتی ہے کہ اپنی جنت کو جہنم بننے سے بچا لو کہیں یہ شعلے تمہارے گھروں کو بھی بھسم نہ کر ڈالیں۔
اور سنو جاتے جاتے وہ آزاد پنچھی کیا کہہ گیا۔۔
’میں ذرا وہاں چلا ہوں
کبھی یاد کرتے رہنا
میرے بعد میرے بیٹو! یہ جہاد کرتے رہنا
میرے تن کا ذرہ ذرہ
جہاں جا کے کام آئے
میری خواہشِ شہادت
کوئی معجزہ دکھائے
نہ بہانا اشک جب بھی
میری نعش کوئی لائے
میں ذرا وہاں چلا ہوں۔۔۔‘
اب آخر میں حکومت پاکستان سے چند گزارشات
1۔ سلیم ناز بریلوی کے حالات زندگی کو میٹرک کے مطالعہ پاکستان کے مضمون میں شامل کیا جائے۔
2۔ نیشنل میوزیم میں ایک کارنر کشمیریات کے لیے مختص کیا جائے جہاں کشمیر سے متعلق دوسری چیزوں کے علاوہ سلیم ناز بریلوی کی زیرِ استعمال اشیاء مثلاً قلم، ڈائریاں وغیرہ رکھی جائیں۔
3۔ اہلِ علم و تحقیق کو سلیم ناز کے کام پر نقد و تحقیق کا موضوع دیا جائے۔
4۔ مرحوم کے پسماندگان کی خبرگیری کا مؤثر بندوبست کیا جائے۔ اس گمنام ہیرو کا خاندان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔
5 سلیم ناز کی وصیت کہ’مجھے کورنگی (کراچی) میں امانتاً دفن کیا جائے اور جب کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو جائے تو میری تدفین سری نگر میں کی جائے۔‘ اس وصیت کو محفوظ کرنے کا سرکاری طور پر انتظام کیا جائے۔ تاکہ آنے والے وقتوں میں جب پاکستان کی شہ رگ وطن عزیز کو واپس ملے تو حکومت اپنا یہ فرض پورا کرے۔
وہ جو پاکستان سے محبت کے عملی تقاضے کے طور پر خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارے دیس کی شہ رگ ہمیں واپس آملے، ان سے گزارش ہے کہ کم از کم یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پہ اس گمنام ہیرو کی یادوں کو تازہ کر لیا کریں۔
ہم اپنی گفتگو کو گمنام ہیرو کی روح کو سلامِ عقیدت و دعا کے ساتھ ختم کرتے ہیں انہی کے الفاظ میں
’ تجھ سے ہے رنگ و خوشبو چمن در چمن
تو خزاں میں بھی ہے نوبہارِ وطن
جانِ جاں تیرا تمغہ ہے زخمِ بدن
تجھ سے وادی میں بادِ بہاری رہے
جنگ جاری رہے جنگ جاری رہے
ایک تبصرہ برائے “جانِ جاں ترا تمغہ ہے زخمِ بدن”
سلیم ناز بریلوی ۔۔۔ عظیم شاعر ۔۔۔جماعت اسلامی ہی تو مسئلہ کشمیر پر ثابت قدم ہے۔۔اللہ تعالیٰ اسے استقامت عطا فرمائے آمین