مرزا اے بی بیگ
انڈیا میں حزب اختلاف کانگریس کی جنرل سیکریٹری پریانکا گاندھی نے اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی وزیر اعظم کو جس طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس نے انڈیا میں مبصرین کی توجہ حاصل کی ہے۔
انھوں نے ایک ایسے وقت میں اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب انڈیا میں اسرائیل کے خلاف بولنا یا اس کے خلاف کسی قسم کا مظاہرہ کرنا انڈین حکومت کو للکارنے کے مترادف ہے کیونکہ انڈیا نے غزہ میں جاری جنگ پر اپنا موقف واضح کیا ہوا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ میں شرکت سے اجتناب بھی کیا تھا۔
اس پر پریانکا گاندھی نے ’صدمے‘ اور ’شرم‘ کا اظہار کیا تھا جسے بی جے پی حکومت کے سابق وزیر مختار عباس نقوی اور راجیہ سبھا ایم پی سودھانشو تریویدی کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
لیکن گزشتہ بدھ کو امریکی کانگریس میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے خطاب کے بعد پریانکا گاندھی نے ایک بار پھر غزہ میں اسرائیل کے حملے کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے وہاں جاری جنگ کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت کے ’نسل کشی کے اقدامات‘ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں روکنے پر مجبور کریں۔
پریانکا گاندھی جو ایک عرصے تک کانگریس پارٹی میں جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہی ہیں اب وہ کیرالہ سے انتخابی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ اور ان کے بھائی اور حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کی خالی کردہ وائیناڈ کی نشست سے انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
پریانکا گاندھی نے کیا کہا؟
انھوں نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایکس پر لکھا کہ ’اب عام شہریوں، ماؤں، باپوں، ڈاکٹروں، نرسوں، امدادی کارکنوں، صحافیوں، اساتذہ، ادیبوں، شاعروں اور ان ہزاروں معصوم بچوں کے لیے صرف آواز اٹھانا کافی نہیں ہے جو دن بہ دن غزہ میں ہولناک نسل کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘
It is no longer enough to speak up for the civilians, mothers, fathers, doctors, nurses, aid workers, journalists, teachers, writers, poets, senior citizens and the thousands of innocent children who are being wiped out day after day by the horrific genocide taking place in Gaza.…
— Priyanka Gandhi Vadra (@priyankagandhi) July 26, 2024
انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ ہر صحیح سوچ رکھنے والے فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے جس میں ایسے تمام اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو نفرت اور تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور دنیا کی ہر حکومت اسرائیلی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرے اور انھیں رکنے پر مجبور کرے۔ ان (اسرائیلی حکومت) کی کارروائی ایسی دنیا میں ناقابل قبول ہیں جو تہذیب اور اخلاقیات کا دعویٰ کرتی ہے۔‘
پریانکا گاندھی نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے بیان کو نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ اسے ’بربریت اور تہذیب کے درمیان تصادم‘ کہتے ہیں۔ وہ بالکل درست ہیں، سوائے اس کے کہ وہ اور ان کی حکومت وحشی ہے اور ان کی بربریت کو مغربی دنیا کے بیشتر ممالک کی بے دریغ حمایت حاصل ہے۔ (اور) یہ دیکھنا واقعی شرم کی بات ہے۔‘
’بہت بہادرانہ‘ اور ’انتہائی قابل قدر‘
سماجی ایکٹوسٹ اور مصنف کویتا کرشنن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پریانکا گاندھی کے بیان کو ’بہت بہادرانہ‘ اور ’انتہائی قابل قدر‘ اور ’قابل ستائش‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ نوے کی دہائی کے بعد سے جو بھی حکومتیں رہی ہیں چاہے وہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، اگرچہ وہ زبانی طور پر فلسطین کی بات کرتی رہی ہیں لیکن ان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ رہے ہیں، یہاں تک کہ مغربی بنگال کی کمیونسٹ حکومتیں بھی اسرائیل کے ساتھ ڈیل کرتی رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لیکن ’موجودہ حکومت تو اس قدر اسرائیل نواز ہے کہ حالیہ جنگ کے خلاف ہم لوگوں کو کسی قسم کے احتجاجی مظاہرے کی اجازات بھی نہ مل سکی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں لوگ جنگ بندی کے حق میں بول رہے ہیں لیکن انڈیا کا سیاسی حلقہ بہت محتاط ہو کر بول رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسدالدین اویسی کے علاوہ کسی قومی سیاسی پارٹی کے اہم رہنما نے اس طرح سے بے لاگ بات نہیں کی۔ پریانکا کی جانب سے براہ راست نتن یاہو کو اس طرح کی بات کہنا بہت بڑی بات ہے۔ یہ بہت بہادری کی بات ہے۔‘
کویتا کرشنن نے کہا کہ ’آج کے ماحول میں نتن یاہو کو اس طرح سے تنقید کا نشانہ بنانا سیاسی بہادری ہے اور دنیا بھر میں اس حوالے سے جتنی تحریکیں چل رہی ہیں پریانکا نے خود کو ان سے جوڑا ہے۔ ان کے اس طرح کے بیان سے انڈیا میں جمہوریت بچانے کی لڑائی مضبوط ہو گی۔‘
پریانکا گاندھی کے اس سے قبل اکتوبر میں آئے بیان پر حکمراں جماعت نے سخت موقف اختیار کیا تھا اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
پریانکا گاندھی کی جانب سے اسرائیل اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے کے معاملے پر مشرق وسطی کے امور اور انڈیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پروفیسر محمد سہراب کہتے ہیں کہ وہ اس ’وائس آف سینیٹی‘ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب سے غزہ پر اسرائیلی کارروائی جاری ہے اس کے بعد سے پہلی بار کسی انڈین رہنما کا اس طرح کا بیان آیا ہے۔ حکومت تو واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے لیکن دوسرا حلقہ بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے یا پھر وہ بھی اسرائیل کے حق میں ہے لیکن پہلی بار عوامی سطح پر تیسری آواز آئی سامنے آئی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے تو ہر طرح سے اسرائیل حکومت کے اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں پریانکا گاندھی کی شروعات حکومتی موقف کو واضح کرنے سے ہونی چاہیے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حکومت نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے اس کا داخلی پہلو کیا ہے اور اس کا بین الاقوامی حاصل کیا ہے اور انڈیا اس معاملے پر کہاں کھڑا ہے۔ شاید یہ دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے جہاں اسرائیل کی غزہ پر مہلک کارروائیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔‘
پروفیسر سہراب نے مزید کہا کہ ‘انڈیا کا ایک چھوٹا سا طبقہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ ہم کس طرح سے عالمی سطح پر کٹتے جا رہے ہیں اور یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور ہم بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ ہوتے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات حق کی ترجمانی ہیں اور شاید انڈیا کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس بحال کرنے کا کام کر سکیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے پریانکا گاندھی کی جانب سے اسرائیل پر تنقید کرنے پر جہاں ایک طبقہ ان پر تنقید کر رہا ہے وہیں کچھ لوگ ان کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔
رضیہ مسعود نامی ایک صارف نے آئی آئی ٹی مدراس میں منعقدہ ایک پروگرام کا ایک ویڈیو کلپ اور فلسطین کی حمایت میں جاری ایک ڈاک ٹکٹ کی تصویر ڈالتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا میں فلسطین کے بارے میں بات کرنے اور اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی منصوبہ بند نسل کشی میں فلسطینیوں کے درد کو سمجھنے کے لیے بہت ہمت اور انسانیت کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے انصاف کا علم بلند رکھنا چاہیے۔ کیونکہ انڈیا نے ہمیشہ اقوام متحدہ میں بھی اس کی حمایت کی ہے۔‘
سی جی سندرکشن نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’میں انڈین نیشنل کانگریس کا ممبر یا اس سے وابستہ نہیں ہوں۔ لیکن میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ سے متعلق پریانکا گاندھی کے بیان کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ موجودہ انڈین حکومت اسرائیل نواز ہے۔ لیکن انڈیا میں جو لوگ سمجھدار ہیں ان میں 50 فیصد سے بھی کم اسرائیل کے حامی ہوں گے۔‘
علاؤالدین نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آر ایس ایس کے موقف کی کسے پروا۔ پریانکا گاندھی نے جو کہا وہ منطقی اور درست ہے۔ وہ فلسطینیوں کے تئیں انڈیا کی پرانی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ اسرائیل نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو دھماکہ خیز مواد، راکٹوں، لڑاکا طیاروں اور امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ تباہی کے ہتھیاروں سے مارا گیا۔
کیا پریانکا گاندھی کے انتخابی سیاست میں اترنا اس کے پس پشت ہے۔ اس سوال کے جواب میں کویتا کرشنن نے کہا کچھ حد تک ایسا ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ بہت بہادری کی بات ہے۔( بشکریہ بی بی سی)
ایک تبصرہ برائے “پریانکا گاندھی: غزہ پر اسرائیلی حملے اور نتن یاہو کیخلاف بھارت میں اٹھنے والی زوردار آواز”
انصاف پسند اواز۔۔۔۔۔۔ یہی بہت ہے کہ پرینکا نے اپنے ملک قوم اور حکومت کی پالیسی کے برعکس اسرائیل کی بربیت کو آشکار کیا ہے۔۔