اڑتی ہوئی چڑتا کی چونچ میں پانی کا قطرہ

شام کے بعد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

وہ سرپٹ دوڑا جارہا تھا گھوڑے کی طرح۔۔ کئی تگڑے نوجوان اس کے پیچھے بھاگے، مگر اسے قابو نہ کر سکے۔ وہ بھاگا جارہا تھا اور کچھ اعدادوشمار بولے جا رہا تھا 38،345 اور 16000 اور۔۔۔اور 88،295۔۔

لوگ انگشت بدنداں تھے کہ یہ ہے کون ؟ کہہ کیا رہا ہے؟!!

چھلاوہ ہے یہ تو کوئی۔۔’

‘نہیں۔۔۔ مجذوب ہے۔‘

‘دیوانہ ہے پکڑو ۔۔۔’

‘پکڑو اسے۔۔’

کئی نوجوان اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اتفاق سے سڑک پر ٹریفک بھی زیادہ نہیں تھی۔ ایک جگہ وہ رکا مگر ایک ثانیے کی تاخیر کیے بغیر اچھلا اور سڑک کنارے ایک خالی پلاٹ کے گردا گرد بنی دیوار پہ جا کھڑا ہوا اور انتہائی دکھی لہجے میں وہی اعداد وشمار دہرانے لگا۔

اور پھر اسی چار دیواری پہ چلتا ہوا دوسری طرف کود گیا۔

لوگ دیکھتے رہ گئے، کدھر چلا گیا کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ خالی سڑک پہ آہستہ آہستہ چہل پہل بڑھنے لگی۔ لوگ اپنی اپنی راہ ہو لیے۔  


 اسے اس اندھیر نگری میں داخل ہوئے کچھ لمحے ہی بیتے تھے۔ واپس جانے والوں کے قدموں کی چاپ اسے اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ کل تک وہ ان سب کے درمیان تھا، یہ اس کے اپنے تھے۔ عام لوگ تو اس کے دیدار کو ترس جاتے تھے۔ وہ ہر ایک سے ملاقات تو نہیں کر سکتا تھا۔ بڑا آدمی تھا۔ اس کے کندھوں پر کروڑوں لوگوں کی ذمہ داری کا “بوجھ” تھا۔ لوگ اس کی دولت اس کے پر تعیش طرزِ زندگی پر رشک کرتے تھے۔ اس کے دوست بھی کافی تھے اور دشمن بھی بہت تھے۔ اس نے اپنے بچوں کے لیے بلکہ نواسوں، پوتوں کے لیے بھی کافی مال ودولت اکٹھا کرلیا تھا۔

 موسم گرما میں وہ ان سب کے ساتھ یورپ کے دورہ جات پلان کرتا تھا۔ہردن عید، ہر شب شبِ برات تھی۔۔۔ پھر یکایک اس کے ملک میں احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس سے مطالبہ کر رہا تھا کہ صیہونی سفاکیت پہ خاموشی بذاتِ خود ایک ظلم ہے۔ ہر روز جھلستے، تڑپتے موت کے منہ میں جاتے غزہ کے معصوم بچوں کی تصاویر اخبارات میں دیکھتا تھا اور خود کو مطمئن کر لیتا کہ’میں تو مجبور ہوں، میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔۔‘

لیکن آج وہ سب منظر کہیں گم ہوگئے تھے۔ وہ عیش، وہ جائیدادیں، وہ سیر و سیاحت، مزے، سب پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ تنِ تنہا پڑا تھا بے جان و بے حس ۔۔۔ شدید خوف اس کے اعصاب پر سوار تھا ۔۔۔ اچانک ایک خیال کوندا کہ اٹھوں یہاں سے نکل بھاگوں، مگر جب خود کو حرکت دینا چاہی تو پتہ چلا کہ اس سے سب اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں۔ شدید پریشانی نے اسے آن گھیرا ۔

  اچانک جیسے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی۔ دو انوکھی صورت والے آئے اور اس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ اف! اس قدر خوفناک صورتیں۔ اس کا جی چاہا کہ آنکھیں بند کر لے مگر نہ کر سکا۔ اگلے ہی لمحے اس کی زبان ان کے سوالات کے جوابات دے رہی تھی بلکہ ایک ایک عضو بول رہاتھا، اس کی مرضی کے خلاف بالکل صحیح صحیح جواب دے رہا تھا۔ اس کی زبان بولے جا رہی تھی کہ ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے جسم کے ہزار ٹکڑے ہو گئے۔ وہ چلّانا چاہتا تھا، بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن کچھ بھی تو اس کے اختیار میں نہیں تھا۔

اسے لگا جیسے احتجاج کرتے مظاہرین کی آوازیں اس کے پردہ سماعت کو پھاڑ کے رکھ دیں گی، وہ کہہ رہے تھے ’غزہ کے معصوم بچوں کے کٹے پھٹے لاشے تمھیں آواز دے رہے ہیں…‘ 

  اور پھر ۔۔۔ اگلے ہی لمحے اس کا جسم اصلی حالت میں واپس آگیا۔ وہ شکر ادا کرنا چاہتا تھا مگر اب کے ایک نئی مصیبت نے آن لیا۔ اس نے دیکھا اس تاریک کوٹھڑی میں آگ کا بڑا سا الاؤ روشن ہو گیا ہے۔۔۔

‘یہ خواب ہے نا تھوڑی دیر تک اس خواب سے باہر آ جاؤں گا۔‘ اس نے سوچا…

 ’سنو! مظلوموں کو، تمھارے دینی بھائیوں کو زندہ جلایا جاتا رہا اور تم چپ رہے۔ تمہاری کتابِ زندگی مکمل ہو چکی، دروازے بند ہو چکے، فیصلہ ہو چکا۔ اب تمہارا یہ خوفناک خواب تا قیامت ختم نہیں ہوگا۔‘

ایک بھدی سی آواز نے اسے مزید خوفزدہ کردیا۔ اور پھر یہی ہوا، آگ کا الاؤ خود ہی ٹھنڈا ہوا۔ وہ سر تا پا جل چکا تھا۔ عجیب سڑاند اس کوٹھڑی میں پھیل چکی تھی۔ وہ کرب سے چلّانا چاہتا تھا ۔۔ کراہنا چاہتا تھا ۔۔ پانی کے چند قطروں کی فرمائش کرنا چاہتا تھا مگر کچھ بھی تو نہ کر سکا۔ چند لمحے یونہی بیت گئے ۔۔۔۔ پھر اس کا بدن اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا۔ وہ آنکھیں مل لینا چاہتا تھا۔ اک لمحےکے لیے خوش ہونا چاہتا تھا کہ چلو یہ خواب تو ٹوٹا۔۔۔ لیکن یہ کیا ! اگلے ہی لمحے آگ کا الاؤ دوبارہ روشن ہوچکا تھا اور۔۔۔ اور اس کا ایک ایک عضو دوبارہ اس ہولناک آگ کا ایندھن بننے لگا تھا۔۔۔


اس کی خدا داد صلاحیتوں سے کون ناواقف رہا ہوگا، لیکن اب کے جو کام اس نے کیا تھا اس نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔۔۔ وہ اپنی گفتگو میں اکثر پہاڑی علاقہ جات اور  دیہی علاقوں کی “مظلوم” خواتین کا تذکرہ کرتی رہتی تھی کہ ان خواتین کو گھروں میں بند رکھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے جب بھی ان عورتوں سے بات چیت کی تو انہیں اپنی زندگی سے خوش پایا ۔۔۔ اب کے اس نے اپنے ملک میں طلاق یافتہ خواتین پر ڈاکیومنٹری بنائی۔ گیارہ منٹ کی یہ ڈاکیومنٹری چند ہی دنوں میں کروڑوں لوگوں کے لائکس اور کمنٹس لے چکی تھی۔

 اپنے ملک میں اس کا انٹرویو لیتے ہوئے صحافی اس سے بار بار پوچھتے تھے کہ

 ‘غزہ کی مظلوم خواتین پر کب فلم بنائیں گی؟’

تو ہر بار وہ موضوع بدل جایا کرتی تھی۔ غزہ پہ قیامت صغریٰ نہ تھمی ۔۔۔ ضمیر فروشی کی منڈی کی رونق بھی کبھی کم نہ ہوئی، مگر کچھ ایسا ہو گیا کہ آج اس کے اپنے، بھیگی آنکھوں کے ساتھ اسے یہاں چھوڑ گئے تھے ۔۔۔ 

گھپ اندھیرا، چھوٹی سی کوٹھڑی کوئی در نہ کوئی روزن، اور وہ تن تنہا۔ اس نے پورا زور لگا کر چلّانا چاہا مگر آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ ہاں اگلے ہی لمحے دلدوز مناظر پہ مشتمل ایک خوفناک وڈیو اس کے سامنے چلا دی گئی تھی۔ ایک سکول پر شدید بمباری اور بچوں کی چیخ پکار ۔۔۔ اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینا چاہیں، آنکھیں بند کر لینا چاہیں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ آہ ۔۔۔ یہاں تو ایک انگلی کا اشارہ، آنکھ کی ایک جھپکی تک اس کے اختیار میں نہ تھی۔ اس نے پورا زور لگا کر بولنا چاہا

’ یہ۔۔۔ یہ ک۔۔۔کیا ہے؟؟یہ۔۔۔ یہ اتنے بڑے بڑے شعلے۔۔۔ یہ دھواں۔۔۔ یہ بارود کی بو۔۔۔ یہ بچوں کی چیخیں ۔۔۔۔یہ نوزائیدہ بچوں کے بدن کے کٹے پھٹے ٹکڑے۔۔۔ اف یہ کیا ہے سب۔۔۔‘

وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہ بول سکی۔ اگلے ہی لمحے شعلے اس کی طرف لپکنے لگے۔۔۔ بچوں کی چیخیں اس کے کان کے پردے پھاڑ دینا چاہتی تھیں۔ کٹی پھٹی نعشیں اس کے قریب آرہی تھیں۔۔۔۔اور۔۔۔۔پھر وہ اس کے ساتھ لپٹ گئیں۔۔

‘بچاؤ ! بچاؤ ! بچاؤ!

ارے کوئی ہے۔۔۔’

پکارنا چاہتی تھی، صدا دینا چاہتی تھی۔ مگر ہر صدا گھٹ کے رہ گئی۔ اس کی چیخیں بچوں کی چیخوں میں مدغم ہو چکی تھیں۔۔ پل دو پل کے لیے یہ خوفناک آوازیں تھم گئیں۔ اس نے کان لگا کر سنا۔۔۔

اس کی کوٹھڑی کے اوپر کچھ لوگوں کے واپس جانے کی اور باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی ’ بہت بڑی آرٹسٹ تھی۔‘

‘ہاں جی بس! زندگی نے وفا نہیں کی۔’…

بے چاری اچانک ہارٹ اٹیک کے شکنجے میں آگئی۔۔۔


قیمتی ریشمی پردے، اعلیٰ معیار کی نشستیں، انمول فانوس، تیز روشنی بکھیرتے قمقمے، مشروبات اور ریفریشمنٹ۔۔۔۔ اور گراں مایہ قبائیں، پینٹ شرٹس نکٹائیاں ۔۔۔ اور پروٹوکول اور سیکیورٹی کے انتظامات۔۔۔۔ یہ سب رنگ تھے او آئی سی کے اجلاس کے۔

سب “قائدین”آچکے تھے۔ بس ایک نشست خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ وہ جو اتنے بڑے اسلامی ملک کا حکمران چند دن پہلے جہانِ عدم کوسدھار گیا تھا اس کی تعزیت کی علامت کے طور پہ یہ نشست خالی رکھی گئی تھی۔۔۔۔

غزہ پہ اسرائیلی جارحیت پہ یہ قائدین”دکھی” تھے ۔۔مگر “بےبس” تھے بے چارے۔ طاقتور ٹینکوں، طرح طرح کے میزائلوں، جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس، معدنی وسائل۔۔۔۔ اور۔۔۔ اور تیل کی دولت سے مالامال۔۔۔ بہترین فوجوں، بہترین انسانی دماغوں کی آبادیاں رکھنے والے یہ مسلم دنیا کے حکمران لکڑی کے ساکت و جامد تختے دکھائی دے رہے تھے یا ماٹی کے بے جان مادھو۔ اوروں کے اشاروں پہ ناچنے والی یہ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا کے ممالک پہ مسلط پتلیاں اپنے سامنے لکھی لکھائی تقاریر اور قراردادیں لیے بیٹھی تھیں ۔تھوڑی دیر تک اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔اسرائیل کو تسلیم(سوائے ایک دو کے) کیے بیٹھے یہ “مسلم حکمران” اسرائیل کی بڑے پیار بھرے انداز میں

 “مذمت “کریں گے۔۔۔

مزید براں عالم اسلام کی ایک مایہ ناز ڈاکومینٹر کی تعزیت پر مبنی قرارداد بھی ایجنڈے میں شامل تھی۔

اجلاس شروع ہوا ہی چاہتا تھا کہ خالی نشست کے نیچے سے اچانک ایک نوجوان نمودار ہوا۔ بلا کی تیزی سے ان پتلیوں پہ جھپٹا۔۔۔ اور پھر کسی کی قبا نوچ ڈالی، کسی کی نکٹائی کھینچ لی۔کسی کاگریبان پکڑ لیا۔

’بے حمیتو! غزہ کے 38،345 شہدا کا خون تمھارے کندھوں پہ ہے۔۔۔۔ 16000 معصوم بچے تمھاری بے غیرتی کی نذر ہوگئے۔ تم بے حس ہو، ذہنی غلام ہو، سفاک ہو، ظالم ہو تم ۔۔۔۔ ‘

وہ پوری آواز سے چلّا رہاتھا۔۔

’یہ کون جاہل ہے پکڑو اسے۔۔۔۔ یہ جانتا نہیں ہم کس قدر “طاقتور” ہیں۔۔۔ پکڑو عبرت کا نشان بنادو اسے۔۔‘

اور پھر کئی ہاتھ اس کی جانب بڑھے گرفتار کر لیا گیا۔۔

اب جب مکمل سکون ہوگیا تو اجلاس کی کارروائی باقاعدہ شروع ہوئی۔


 اک معصوم سی چڑیا اڑتی اڑتی آئی اور بحیرہ روم سے پانی کا ایک قطرہ اپنی چونچ میں لیے بستی کی طرف محوِ پرواز ہو گئی۔۔۔

ایک کوا بھی اس کے پیچھے ہولیا۔۔۔

’میں بستی میں لگی آگ بجھانے جارہی ہوں۔ دیکھا نہیں کیا؟ بچے زندہ جلا دیے اسرائیلی قابض فوج نے۔ تم بھی پانی بھر لاؤ چونچ میں جلدی کرو۔۔۔‘

چڑیا اسے ترغیب دلا رہی تھی مگر یہ کلموہا ۔۔۔ زبان کا کسیلا۔۔۔ جب بھی بات کرے گا جلی کٹی ۔۔۔

’یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔ اتنے سے پانی سے آگ بجھ جائے گی کیا؟۔۔ہونہہ۔۔۔‘

’ارے اپنا فرض تو نبھانا ہے نا کل بڑی عدالت میں پیشی ہے جانتے ہو نا ! جلدی کرو چونچ بھر پانی لے آؤ۔۔ رات بھیگنے کو ہے ہم صبح کا انتظار کرتے رہے تو وہ انسانیت کا دشمن۔۔۔ وہ خون کا پیاسا۔۔۔ وہ آگ و بارود کے کھیل کے لیے غزہ کے پھولوں کو ایندھن بنا لے گا کاگاجی!‘

’اے! ساری انسانیت کادرد تمھارے سینے میں ہے تم جاؤ، میں اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالا کرتا جس کافائدہ کچھ نہ ہو پاگل چڑیا!‘

یہ کہا اور واپس اڑ گیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں