وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈاپور نے کچھ عرصہ پہلے پیسکو کو صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کا حکم دیا تھا، اس پر عمل نہیں ہوا تو وہ اس بار ’ان ایکشن‘ ہیں۔ ان کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ سولہ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ تھی۔ وزیراعلیٰ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گرڈ اسٹیشن جا پہنچے، انھوں نے حکم دیا کہ بجلی فوراً بحال کی جائے اور آئندہ بارہ گھنٹوں سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔
ڈرے سہمے پیسکو اہلکاروں نے بجلی بحال کردی اور علاقے کے لوگوں نے اپنے لیڈر کے لیے خوب واہ واہ کے نعرے بلند کیے۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور نے اس موقع پر وفاقی حکومت کو بھی دھمکی دی کہ اگر نیشنل گرڈ سے صوبے کی بجلی کم کی گئی تو وہ نیشنل گرڈ کی بجلی بند کردیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اب کسی علاقے میں 12 گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، انھوں نے اپنے اراکین اسمبلی کو حکم دیا کہ وہ اپنے علاقوں میں گرڈ اسٹیشنز کا دورہ کر کے لوڈ شیڈنگ شیڈول پر عملدرآمدکروائیں۔
پشاور میں ایک صوبائی وزیر جبکہ نوشہرہ میں پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے نے بھی اسی انداز میں اپنے علاقے کے فیڈرز کی بجلی بحال کرائی۔ تحریک انصاف کے باقی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے وزیراعلیٰ کے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی، راوی فی الحال دانتوں تلے انگلیاں دبائے کھڑا ہے۔ ان ارکان اسمبلی کا اپنے حلقوں میں کہیں نظر نہ آنا، گرڈ اسٹیشنز تک نہ پہنچنا وزیراعلیٰ اور ان کی پارٹی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے، یہ الگ ایک سوال ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے حلقوں میں طویل لوڈشیڈنگ کے سبب بلبلاتے بچے اور تڑپتے مریض آنکھوں کے اوپر ہاتھ کا چھجا بنائے ان کی راہ تک رہے ہیں۔
شاید پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سرکاری سہولتوں سے بھری ہوئی کوٹھیوں میں داد عیش دے رہے ہوں اور سمجھ رہے ہوں کہ ان کے اہلیان حلقہ بھی اسی طرح عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔
خیر! جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے گرڈ اسٹیشن پر چڑھ دوڑے، انھوں نے اپنے ساتھی ارکان اسمبلی کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا تو اسلام آباد میں تھرتھلی مچ گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فون اٹھایا اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے درخواست کی کہ رک جائیں، ایسا نہ کریں، عید کی چھٹیوں کے بعد اس پر بات کرلیتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ کی ملاقات سے خیبر پختونخوا کے عوام کی زندگی سہل ہوتی ہے یا پہلے کی طرح مشکلات میں دھنسی رہتی ہے۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا کے ایک بڑے علاقے کو بجلی تقسیم کرنے والے بلکہ بجلی سے محروم کردینے والے ادارے کا دعویٰ ہے کہ فیڈرز سے زبردستی بحال کیے جانے کے نتیجے میں اسے لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔’ پیسکو‘ کا موقف ہے کہ زیادہ نقصان والے فیڈرز پر زیادہ لوڈشیڈنگ ناگزیرہے کیونکہ بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کےباعث لاسز زیادہ ہیں۔پیسکو نے بتایا ہے کہ
جن فیڈرز پر لائن لاسز 20 سے 30 فیصد ہیں، وہاں 6 گھنٹےکی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
جن فیڈرز پر لاسز 30 سے40 فیصد ہیں، وہاں 7 گھنٹےکی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
جن فیڈرز پر لاسز 40 سے 60 فیصد ہیں، وہاں 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
جن فیڈرز پر لاسز 60 سے 80 فیصد ہیں، وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔
جن فیڈرز پر لاسز 80 فیصد سےزیادہ ہیں، وہاں 20 گھنٹےکی لوڈ شیڈنگ کی جاری ہے۔
اب تک بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں کہ وہ کس قانون کے تحت بلز دینے والوں اور نہ دینے والوں سے یکساں برا سلوک کرتی ہیں۔ جس علاقے میں ستر سے اسی فیصد لوگ بل دیتے ہیں، انھیں بھی چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلز نہ دینے والوں کی طرح۔ جس علاقے میں ساٹھ سے ستر فیصد لوگ بل دیتے ہیں، ان کے بچے بھی سات گھنٹے لوڈشیڈنگ کے سبب بلبلاتے ہیں بلز نہ دینے والوں کی طرح۔ جس علاقے میں چالیس سے ساٹھ فیصد لوگ بل دیتے ہیں، ان کے مریض بھی بارہ گھنٹے بجلی کا عذاب سہتے ہوئے تڑپتے اور کراہتے ہیں بلز نہ دینے والوں کی طرح۔ جس علاقے میں بیس سے چالیس فیصد لوگ بل دیتے ہیں، انھیں بھی سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ بھگتنا پڑتی ہے بلز نہ دینے والوں کی طرح۔ کیسے ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکا جاسکتا ہے؟
کیا ان علاقوں میں بلز دینے والوں کا فرض ہے کہ وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لیے بلز نہ دینے والوں، بجلی چوری کرنے والوں کو قائل کریں یا مجبور کریں کہ وہ بل دیں؟ ایسے میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ان اہلکاروں کا کیا کام رہ جائے گا جن میں سے ہر ایک افسر لاکھوں روپے تنخواہ اور بھاری بھرکم مراعات لیتا ہے۔ اور مفت بجلی استعمال کرتا ہے۔ یہ بجلی چوروں کو کیوں نہیں پکڑتے؟ کیوں نادہندگان سے بلز وصول نہیں کرتے؟ کیوں نہیں ان کے میٹر کاٹتے؟؟؟ آخر کیوں ان سب کا بوجھ بجلی کا بل دینے والوں کے سر ڈالتے ہیں؟
دو ماہ قبل ان افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں، مراعات وغیرہ کے لیے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے کھربوں روپے قومی خزانے سے مانگے تھے۔ ان کی خدمت میں یہ رقم ہمیشہ پیش کر دی جاتی ہے۔ تاہم ان کی کارکردگی محض عوام کی زندگیوں کو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ بجلی چوری ختم نہیں کرسکتے، لائن لاسز ختم کرنے کی صلاحیت اور ہمت نہیں رکھتے۔
ذرا! وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اپنے مشیر خزانہ مزمل اسلم سے کہیں کہ وہ پاکستان کی تمام ڈسکو کمپنیوں کے نہ سہی، صرف پیسکو ہی کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں، مراعات اور انھیں ملنے والے بجلی کے مفت یونٹس کا مجموعہ مرتب کرلیں، پھر ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال پوچھا جائے۔
ویسے اگر صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزرا، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزرا، سینیٹرز، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ملنے والے بجلی کے مفت یونٹس کا مجموعہ مرتب کرلیا جائے اور ان کی کارکردگی کو دیکھ لیا جائے تو نہایت خوفناک تصویر دیکھنے کو ملے گی۔ اگر اسی تصویر میں ان جاگیرداروں، وڈیروں کو بھی شامل کرلیا جائے جو پورے دھڑلے سے بجلی چوری کرتے ہیں، اور یہ وزرا اور ارکان پارلیمان ان کی حفاظت پر مامور ہیں تو تصویر مزید دہشت ناک بنے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے خیبر پختونخوا کی صورتحال پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا’ چار بٹن اوپر نیچے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، معاملات مفاہمت سے آگے بڑھتے ہیں، عوام کو سہولت دینے سے متعلق ہمیں ایک پیج پرہونا چاہیے۔‘
پوچھنا محض یہ ہے کہ جب وہ عوام کو سہولت دینے کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’سہولت‘ سے کیا مراد ہوتی ہے؟ اور ’مفاہمت‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یعنی آؤ مل کر قوم کو لوڈشیڈنگ کے بدترین عذاب میں مبتلا کریں، اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ کیا یہی مطلب ہوتا ہے نا؟
بادبان/ عبیداللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “آؤ! مل کو قوم کو عذاب سے دوچار کریں”
صحیح ۔۔۔۔ دلچسپ ۔۔۔۔ المیہ۔۔۔۔۔ بجلی جو اب تعیشات میں نہیں۔۔ ضرورت زندگی ہے۔۔ اس کی تقسیم ۔۔ اور مفت خوروں کے مزے۔۔۔۔