ڈاکٹر توصیف احمد لغاری……….
اللہ تعالیٰ نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے افزائش نسل کا نظام قائم کیا ہے اور تمام جاندار مخلوقات کے جوڑے پیدا فرمائے۔ ہر جاندار کی خصوصیات اس میں موجود جینیاتی مواد پر منحصر ہوتی ہیں جس طرح رنگ اور نسل والدین سے منتقل ہونے والی ایک خصوصیت ہے، اسی طرح کبھی کبھار والدین سے کچھ خاص جینیاتی نقائص بھی منتقل ہوتے ہیں۔ کروموسوم وہ موروثی مواد ہے جو دونوں والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ کروموسوم پر موجود جین اس موروثی نظام کا خصوصی کوڈ سسٹم ہے۔ ہر بچے کا آدھا جینیاتی مواد ماں سے اور آدھا باپ سے منتقل ہوتا ہے۔ یہ جینیاتی مواد مستقبل میں بہت سی بیماریوں سے بچاؤ یا پھر ممکنہ شکار کے لئے پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا خون کی ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق منتقل ہونے والے جینیاتی مواد پر منحصر ہے۔
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے ناکارہ ہوتے ہیں اور بننے کے فوراً بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انسانی جسم میں خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ خون کے خلیے کے ٹوٹنے سے بننے والا مواد جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور توڑ پھوڑ جن اعضا میں واقع ہوتی ہے ان پر شدید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ بیماری ناقص مورثی مواد پر منحصر ہے لہذا جسم میں بننے والا نیا خون بھی پہلے کی طرح ناقص ہوتا ہے۔ زندگی کے پہلے سال میں ہی عموماً خون کی کمی شدت اختیار کر لیتی ہے اور خون لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیاکے 5000 نئے مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2015 ء میں پاکستان میں 16800 مریضوں کی موت تھیلیسیمیا کی وجہ سے واقع ہوئی۔ تھیلیسیمیا کے جین اگر دونوں والدین سے بچے میں منتقل ہوں تو بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہوتا ہے اور اگر بچے میں تھیلیسیمیا کے جین صرف والدین سے کسی ایک سے منتقل ہو تو یہ مرض اگلی نسلوں میں ظاہر ہوتا ہے تاہم یہ بچہ نارمل یا تقریباً نارمل زندگی گزارتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اس لیے بہت زیادہ چانس ہے کہ دو ایسے افراد کی شادی ہوجائے جن دونوں میں تھیلیسیمیا کا جین چھپی ہوئی حالت میں موجود ہو۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر دونوں والدین سے بچے میں تھیلیسیمیا کا جین منتقل ہو جائے تو بچہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہو گا اور یہ موروثی بیماری ساری زندگی اس بچے کے ساتھ ساتھ رہے گی۔
اگر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کرا لیا جائے تو پہلے ہی سے اندازہ ہو گا کہ مستقبل میں ان والدین کے بچوں میں تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہونے کا امکان ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا جین موجود ہو اور شادی ہو تو پھر جب ماں امید سے ہو تو شروع میں ٹیسٹ سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہو تو شروع میں بچے کو پیدائش سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام کا فتویٰ موجود ہے کہ شروع کے کچھ دنوں میں ایسے سائنسی علوم کی بنیاد پر حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تاہم یہ مسئلہ علما کے ساتھ انفرادی طور پر ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں تقریباً ہر جوڑے کو شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی نے پچھلے دور حکومت میں بل پاس کیا تھا کہ ہر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔ کم از کم ایسے خاندان جن میں ایک بچہ تھیلیسیمیا سے پیدا ہوا ہو ان میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ بہت ہی ضروری ہے۔ اگرچہ تمام بیماریاں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ہی ہوتی ہیں تاہم انسان کو علم بھی اللہ نے انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے سکھایا ہے اور موجود علم سے فائدہ حاصل نہ کرنا بھی نعمتوں سے ناشکری ہے۔ اللہ ہم سب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔