خسرہ-کی-شکار-بچی

پاکستان میں کہاں کہاں خسرہ وبا کی شکل اختیار کرچکا اور کیوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

’میری سات ماہ کی بیٹی خسرے کا شکار ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ وائرس اس تک پہنچا کہاں سے؟‘

لاہور کی رہائشی فاطمہ نے بتایا کہ ’میری بیٹی کا پہلے گلا خراب ہوا اور وہ بعد بخار میں متبلا ہو گئی۔ میں نے سمجھا کہ عام موسمی بخار ہے لیکن بخار کے تین دن بعد اس کے پورے جسم پر دانے نکل آئے۔‘

’اتنی سخت گرمی میں اس کے دانے اور تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی، بیٹی کے علاوہ میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ اس وقت سب سے مشکل کام دونوں بچوں کو الگ رکھنا اور بطور ماں اپنے بیٹے سے دور رہنا ہے۔‘

گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں خسرہ نے وبا کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ محکمہ صحت پنجاب کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں اب تک پنجاب بھر میں خسرہ کے تیرہ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ جبکہ 31 اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔

تیزی سے پھیلتے ہوئے خسرہ کی تشویشناک صورتحال پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون حامد نے بتایا ہے کہ ’ہمارے پاس ہر عمر کے بچے خسرہ سے متاثر ہو کر آرہے ہیں۔ جہاں تک رہی بات کہ سب سے زیادہ مریض کہاں سے آرہے ہیں؟ تو ہم نے دیکھا ہے کہ لاہور، ملتان اور راولپنڈی ہاٹ سپاٹ شہر ہیں۔ جبکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی اس کا پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس کی شدت بہت زیادہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزيد بتایا کہ اس وقت بچوں کے علاوہ وہ مائیں جو متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو رہی ہیں۔ جبکہ کچھ کیسز مردوں کے بھی سامنے آئے ہیں۔

’ہمارے پاس علاج کے لیے خسرہ سے متاثر سب کم عمر بچہ صرف 25 دن کا آیا تھا۔ ایسے کیسز میں اتنے چھوٹے بچے کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔‘

ڈاکٹرز کے مطابق خسرہ ایک وائرس ہے جو زیادہ تر کم عر بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم بچوں کے علاوہ بڑے بھی اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے مطابق اس وائرس میں کچھ مخصوص علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کھانسی، گلا خراب ہونا، بخار، آنکھوں کی تکلیف، جسم پر دانوں کا نمودار ہونا۔ یہ وہ تمام تر علامات ہیں جن کے نمودار ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ہارون حامد کے مطابق خسرہ میں جسم پر دانے فوری نمودار نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بچے کو سب سے الگ رکھیں تاکہ دیگر لوگ متاثر نہ ہوں۔

انھوں نے اس بیماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’ویسے تو یہ بیماری نقصان دہ نہیں ہے البتہ اگر اس میں نمونیہ، گردن توڑ بخار یا ساتھ کوئی اور انفیکشن ہوجائے تو یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے احتیاط ضروری ہے۔‘

زیادہ تر ماہرین کے مطابق خسرہ کے پھیلاؤ اور وبا کی صورت اختیار کرنے کی بنیادی وجہ اس کا تیزی سے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہونا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کے مطابق جب بھی کوئی بچہ یا بڑا کسی متاثرہ شخص کے ساتھ بغیر احتیاطی تدابیر کے رابطے میں آتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی اس وائرس کا شکار ہوجائے۔

انھوں نے خسرہ کے پھیلاوُ کی مزید وجوہات کو بیان کرتے ہوئے کہا ’ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں ہر چار سے پانچ سال بعد خسرہ کی وبا پھوٹتی ہے جس کی وجہ پنجاب میں بمشکل 85 فیصد لوگوں کا خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کا کورس پورا کرنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی علاقے یا شہر کو خسرہ جیسے مرض کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس علاقے کے 95 فیصد افراد کو اس کے حفاظتی ٹیکے لگے ہوں۔

’اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسا وائرس وبا کی صورت نہ اختیار کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ویکسین لگوائیں۔‘

ڈائریکٹر امیونائزیشن پروگرام پنجاب ڈاکٹر مختار اعوان نے  گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ خسرہ سے بچاؤ کے ٹیکے سو فیصد لوگوں کو نہیں لگ پاتے ہیں۔ لیکن یہ اس کے پھیلاؤ کی واحد وجہ نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہمیں کچھ دہائیوں پیچھے دیکھنا ہوگا۔ آج کل خسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ بچے کو نو ماہ اور پندرہ ماہ کی عمر میں لگتا ہے۔ جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے زمانے میں ایک ٹیکہ لگایا جاتا تھا۔ اس لیے جب خسرہ بچوں کو ہوتا ہے تو اس سے اکثر مائیں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔‘

’اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ بچوں کا ایک سال کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس ختم ہونے کے بعد پندرہ ماہ پر لگنے والی دوسری ڈوز کے لیے واپس نہیں آتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بچے بوسٹر ڈوز سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں صوبہ پنجاب میں دو کروڑ پینتیس لاکھ بچے پانچ سال سے کم عمر ہیں اور ان سب کو ویکسین لگانے اور ویکسینیشن کی خریداری کے لیے ہمیں 24 ارب روپے چاہیے ہوتے ہیں۔

ان کا مزيد کہنا تھا کہ اس مرتبہ خسرہ نے وبا کی صورت اس لیے بھی اختیار کی ہے کیونکہ کورونا کے دنوں میں ہر قسم کی مہم اور میڈیکل سے جڑی چیزیں رک گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے کئی بچوں کے حفاظتی ٹیکے لگنے میں بھی دیر ہوئی۔ لیکن ہم نے کورونا کے بعد پولیو کی مہم کے ساتھ سب بچوں کے حفاضتی ٹیکوں کے کارڈ بھی چیک کیے تاکہ جن بچوں کی ویکسینشن رہ گئی تھی اسے لگایا جا سکے۔

ڈاکٹر مختار اعوان نے حکومتی اقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہم نے تمام تر ہاٹ سپاٹ علاقوں کی نشاندہی کرلی ہے اور ہم ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہی نہیں ہم اس کے ساتھ ساتھ آگاہی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ جبکہ جہاں جہاں ہمیں ایک بھی کیس ملتا ہے تو ہم متاثرہ گھر کے آس پاس کے سو گھروں کی سیپملنگ کرکے چیک کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ان لوگوں کو ویکسینٹ کر رہے ہیں جن کوخسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ نہیں لگا ہے۔

انھوں نے مزيد بتایا کہ پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں خسرہ کے مریضوں کے لیے ایک الگ وارڈ بنا دیے گئے ہیں تاکہ وہ اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

اس کے علاوہ اگلے سال ہمارا ارادہ ہے کہ 2025 میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر خسرہ کی کمی اور اس کے بچاؤ کے لیے مہم چلائی جائے گی۔

ڈاکٹرز کے مطابق خسرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ خسرہ کے مریض سے دور رہا جائے۔ مریض کو قرنطینہ میں رکھا جائے اور اس کے استعمال کی چیزیں بھی الگ کر دی جائیں۔ مریض کی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔

ڈاکٹر مختار اعوان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خسرہ کے بارے میں لوگوں میں بہت سے مفروضے پائے جاتے ہیں جیسا کہ بچے کو نہلانا نہیں ہے، اسے گرم چیزیں کھانے کو دیں تو یہ وائرس جسم سے باہر نکل جاتا ہے یا پھر بچے کو ٹھنڈے کمرے میں نہ رکھنا۔ یہ وہ تمام تر مفروضے ہیں جس پر عمل کرنے سے بچے کی صحت مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایسا کوئی اقدام مت کریں جس سے بیماری بڑھے۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق ادویات دیں۔

(ترہب اصغر، بی بی سی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں