بارہ جون سن دو ہزار چوبیس کو جب قومی اسمبلی میں ’تاریخِ انسانی کا بہترین بجٹ‘ پیش ہونے جارہا تھا، وزیر اعظم شہباز شریف حکومت کی اتحادی پاکستان پیپلزپارٹی ناراضی کا نعرہ لگا کر اپنے چیمبر میں جا بیٹھی کہ بجٹ بناتے ہوئے ہم سے مشورہ کیوں نہیں کیا۔
ہمارے ہاں دیہاتوں میں جب بھی کسی خاندان میں کوئی شادی ہوتی ہے تو مشہور ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی پھوپھو ناراض ہوکر اپنے گھر میں بیٹھ جاتی ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے اس سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ زیادہ تر ایسے قصے پھوپھو کے بارے میں ہی سننے کو ملتے ہیں لیکن اگر ’ پھوپھو‘ کی دل آزاری ہو رہی ہو تو ہم ’پھوپھا‘ کا نام اس قصہ میں شامل کرلیتے ہیں، یقیناً اس پر پھوپھو بھی اتفاق کرلے گی۔
پھر خاندان میں سے کچھ موثر ’مذاکرات کار‘ پھوپھو یا پھوپھا کے در پر حاضر ہوتے ہیں، اسے منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں پرجوش انداز میں نعرہ بلند ہوتا ہے کہ پھوپھو مان گئیں۔ اور پھر شادی ہوجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی کچھ ہی دیر میں مان کر ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کے ساتھ قومی اسمبلی ہال میں آن بیٹھی۔ اس ساری ناراضی یا نخرے کا مقصد محض پاکستانی قوم کو باور کرانا تھا کہ شہباز شریف حکومت ’عوام دوست بجٹ‘ کے عنوان سے جو عوام دشمن بجٹ پیش کرے گی، اس سے پیپلز پارٹی بری الذمہ ہے۔
قومی اسمبلی میں جب بجٹ تقریر شروع ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف (سنی اتحاد کونسل ) کے اراکین نے پہلے بجٹ تقریر والی کتاب کو پھاڑنے کی کوشش کی، پھر اپنی سیٹوں پر کھڑے ہوکر اسی کتاب سے ڈیسک بجانے لگے۔ پاکستان کے سب سے پہلے بڑے فوجی ڈکٹیٹر کے پوتے، اپوزیشن رہنما عمر ایوب خان تو قدرے زیادہ زور سے ڈیسک بجا رہے تھے، ان کے دائیں ہاتھ کھڑے پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان آہستہ آہستہ ڈیسک بجا رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ وہ عمر ایوب سے گپ شپ بھی کر رہے تھے۔ ان کی پچھلی قطار میں قومی اسمبلی میں پارٹی کی پارلیمانی لیڈر محترمہ زرتاج گل ڈیسک بجاتے ہوئے قدرے بلند آواز میں ’ گو شہباز گو‘ کا مسلسل ورد کر رہی تھیں۔
مجھے یقین ہے کہ جناب عمران خان کے ان دیوانوں اور فرزانوں میں سے کسی نے بھی شہباز شریف کو ’ گو‘ کہنے سے قبل بجٹ تقریر نہیں پڑھی ہوگی۔ عمران خان قومی اسمبلی میں ہوتے تو وہ بھی بجٹ دستاویز نہ پڑھتے۔ یہ ہمارے ننانوے فیصد اراکین پارلیمان کا وتیرہ ہے۔ وہ قوانین کے مسودے پڑھے بغیر ’منظور‘ کا آواز بلند کرتے ہیں، دیگر ملکوں اور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے پہلے ’معاہدہ نامہ‘ نہیں پڑھتے۔ اس کی ایک بڑی مثال بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں سے وہ معاہدہ ہے جو اس وقت پاکستانی قوم کی ہڈیاں اور گوشت ایک کر رہا ہے۔ یہ ڈسکوز پاکستانی قوم کی ہڈیاں بھی چچوڑ رہی ہیں۔
جب یہ سطور رقم کر رہا ہوں، تب بھی ہمارے اراکین پارلیمان بالخصوص پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور سینیٹرز میں سے کسی نے بھی تقریر نہیں پڑھی ہوگی۔اس کا مجھے یقین ہے۔ اور یہ نہیں پڑھیں گے۔ میں نے ٹی وی چینلز، اخبارات اور تمام نیوز ویب سائٹس دیکھ لیں، اب تک مجھے کسی پی ٹی آئی رہنما کی طرف سے بجٹ پر بات دیکھنے کو نہیں ملی۔ ظاہر ہے کہ انھیں عوام کو ملنے والی اذیت پر کوئی دکھ نہیں۔ یہ اذیت موجودہ شہباز شریف حکومت بھی دے رہی ہے، اس سے پچھلی انوار الحق کاکڑ حکومت بھی، اس سے پہلے کی ڈیڑھ سالہ شہباز شریف حکومت بھی اور اس کی پیش رو عمران خان حکومت نے بھی دی۔ ہر روز کسی نہ کسی انداز میں اذیت مل رہی ہے۔
میاں شہباز شریف اور ان کی مسلم لیگ ن اپنی گزشتہ اور موجودہ حکمرانی میں عوام کو ملنے والی اس مسلسل اذیت کا ذمہ دار ’عمران خان پراجیکٹ‘ اور اس کے تخلیق کاروں کو قرار دیتی ہے لیکن ساری کی ساری سزا پہلے سے مری پڑی قوم کو دیتی ہے۔ دوسری طرف ’تخلیق کاروں‘ کی مراعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ان کی طرف تنقیدی نظر سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جاتی ہیں، ان کے خلاف بولنے والی زبانیں گُدّی سے کھینچ لی جاتی ہیں، ان کی طرف بڑھنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جاتی ہیں کیونکہ یہی ’حب الوطنی‘ کا تقاضا ہے۔ ملک میں موجود دیگر تمام مافیاز کو بھی مال بٹورنے اور اسے ڈکارنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جبکہ قوم کی کنپٹی پر بندوق کی نالی رکھ کر یہی کہا جاتا ہے’ چل بن قربانی کا بکرا‘۔
بدھ کے روز جو بجٹ پیش آیا، اس کے مندرجات جان کر ہر عام پاکستانی کی یہ سوچ کر نیندیں اڑ گئی ہیں کہ وہ کمائے گا کیا اور بچوں کو کھلائے گا کیا ! اگر رائے عامہ کے جائزہ لینے والے ادارے جاننے کی کوشش کریں کہ بارہ اور تیرہ جون کی درمیانی شب کتنے پاکستانی سکون کی نیند سوئے؟ پتہ چلے گا کہ سب کے سب کروٹیں ہی بدلتے رہے، نیند ان سے کوسوں دور رہی۔
خاص طور پر تنخواہ دار لوگ اسی حساب کتاب میں لگے رہے کہ اب ان کی تنخواہ میں سے کتنی کٹوتی ہوگی۔ وہ جو تنخواہ میں چند ماہ قبل اضافہ ہوا تھا، اس میں کچھ انکم ٹیکس مد میں کٹ جائے گا، کچھ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ادا کرنے میں خرچ ہوجائے گا اور باقی ماندہ تنخواہ بھی مہینے کے پہلے پندرہ، بیس دنوں میں نکل جائے گی۔ باقی کے دن نواز شریف کے اس وعدے میں کاٹنا پڑیں گے کہ بس! دو برس مشکل ہیں میری جان!
تنخواہ دار آدمی کو خود بھی پیٹرول مزید مہنگا خریدنا ہوگا کیونکہ اس پر لیوی ساٹھ سے اسی فیصد کردی گئی ہے، جب پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرے گا تو اسے زیادہ کرایہ دینا پڑے گا۔ کھانے پینے کی تمام چیزوں سمیت دیگر تمام اشیائے ضروریہ فراہم کرنے والے دکاندار بھی اسے مہنگے داموں چیزیں بیچیں گے۔ یوں گھر سے نکل کر بازار پہنچنے تک، جگہ جگہ، بار بار ٹیکس دینا پڑے گا۔ دکانداروں پر حکومت نے جو ٹیکسز نافذ کیے ہیں، وہ بھی اسی خریدار سے وصول کیے جائیں گے۔ دکاندار پاگل تو نہیں ہیں جو اپنے منافع میں سے ٹیکس ادا کریں۔
قبلہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں ماحول کو پاک صاف کرنے کے لیے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کی تھی، اس کے نتیجے میں ماحول کس قدر پاک اور صاف ہوا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اب ہر دکاندار ہر خریدار کو جس ’ ماحول دوست‘ شاپنگ بیگ میں سامان دیتا ہے، اس کے بھی دس سے پچاس روپے وصول کرتا ہے۔ یوں دکانداروں کوایک اور پراڈکٹ فروخت کرنے کا نیا موقع مل گیا۔ اور وہ کہتے ہیں ’ھذا من فضل ربی‘ ۔
ٹھہریے! ابھی تنخواہ دار کی تنخواہ باقی ہے۔ اس کے پاس ٹوٹا پھوٹا، کئی برس پرانا موبائل جو بقا کی تمام تر کوششوں کے باوجود دم توڑ گیا تھا، اس کی جگہ کوئی دوسرا موبائل خریدنا ہے، وہ بھی بجٹ میں اٹھارہ فیصد ٹیکس کا سن کر ہی اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ اب یہ عام پاکستانی سوچے گا کہ خاموشی ہی بہتر ہے۔
اس بے چارے نے کوئی پراپرٹی خریدنا ہوگی تو اس پر بھی اسے پندرہ فیصد ٹیکس دینا ہوگا حالانکہ وہ حب الوطنی کے جذبے سے فائلر بن گیا تھا، اور اس وقت اسے کہا گیا تھا کہ فائلر کو چیزوں کی فروخت اور خریداری پر بہت معمولی ٹیکس دینا ہوگا، البتہ نان فائلرز کا خون نچوڑ لیا جائے گا۔ بارہ اور تیرہ جون کی درمیانی شب وہ کوس رہا ہوگا اس لمحے کو جب وہ فائلر بنا تھا۔ اب وہ تلاش کرے گا ایسے طریقے جن کی بدولت ٹیکسز سے بچا جا سکے۔
اگر کسی کے پاس پلاٹ تھا تو وہ اب ہمیشہ پلاٹ ہی رہے گا۔ پہلے ہی لوگوں کے پاس گھر کی تعمیر کے لیے پیسے نہیں جمع ہو رہے تھے، حالیہ بجٹ میں سیمنٹ سمیت تعمیراتی میٹیریل مہنگا کرکے باقی کی کسر بھی پوری کر دی گئی۔ حکومت نے پورا انتظام کیا ہے کہ کوئی گھر تعمیر نہ کرسکے۔ جو جھونپڑی میں رہتا ہے، وہ جھونپڑی ہی میں رہے۔
بارہ اور تیرہ جون کی درمیانی شب، نیند صرف تنخواہ دار سرکاری طبقہ ہی کی نہیں اڑی، غیر سرکاری تنخواہ دار کی بھی اڑی، جس بے چارے کی تنخواہ میں کئی برس بعد اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کا ہر سال اضافہ ہوتا ہے تو وہ اس قدر معمولی ہوتا ہے کہ اسے ’اضافہ‘ کے نام پر بھیک لیتے ہوئے شرم آ رہی ہوتی ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ یہ ’بھیک‘ مالک یا باس کو یہ کہہ کر واپس دیدے کہ آپ کو زیادہ ضرورت ہوگی، شاید آپ کوئی مزید ایک آدھ چیز اپنے بچوں کے لیے خرید سکیں۔
اب ہوگا کیا؟ بجٹ پر بحث کے نام سے ایوان زیریں اور پھر ایوان بالا کا سیشن ہوگا لیکن بحث نہیں ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ دوچار تقریریں ہوں گی، ’تجاویز‘ کے نام پر بجٹ جیسا ہے، ویسے ہی منظور ہوگا۔ اپوزیشن ارکان ’گو شہباز گو‘ کورس کے انداز میں گاتے چلے جائیں گے۔ عوام آنے والی راتوں میں بھی کروٹیں ہی بدلتے رہیں گے۔ وہ گوگل پر ایسے طریقے تلاش کریں گے جنھیں اختیار کرکے حکومت کو ٹیکسز دینے سے محفوظ رہا جائے۔
چنانچہ آئیں ممتاز شاعر صوفی تبسم کی ایک نظم پھر سے پڑھتے ہیں:
آؤ بچو سنو کہانی
ایک تھا راجہ ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
طوطا بیٹھا چونچ ہلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
طوطے کا بھی جی للچایا
راجا بین بجاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
طوطا حلوہ کھاتا جائے
بادبان، عبید اللہ عابد