فلسطینی-باپ-شہید-بچے-کو-اٹھائے-ہوئے-ہے

لہو کے چراغ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے۔ یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے۔ اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں۔ یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی۔ یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدان محشر بھی ہے۔ اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:

 "جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ” اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح  ہے” ۔

سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓ اور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :

 "اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے :

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ ذات ہر بات سننے والی ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔(سورۂ اسراء)

” اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں ۔ اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا۔(سورۃ الاعراف: ۱۳۷)

"اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط کواس زمین کی طرف  جہاں ہم نےتمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی ہے ۔ (سورۃالانبیاء: ۷۱)

"اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر  بات کا پورا پورا علم ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۸۱)

” اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں  ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں  اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔( سورۃالسبا: ۱۸)

ارض مقدس سے مراد ’’ارضِ مطہر‘‘ (پاک وصاف سرزمین ) ہے ۔ راغب کہتے ہیں :

"بیت المقدس شرک وکفر کی نجاست سے پاک ہے .

 زجاج کہتے ہیں : "ارض مقدس سے مراد دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصے ہیں” حضرت قتادہ ؓسے مروی ہے:” اس سے ملک شام مراد ہے۔ ابن عساکر نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ: "ارض مقدس عریش سے فرات تک کی سرزمین کو کہتے ہیں”۔ 

  سرزمین فلسطین کے متعلق قرآن مجید میں ذکر ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:

"اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد ہوجاؤ گے ۔”(سورۃ المائدہ: ۲۱)

"اور مریم کے بیٹے  اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا۔”(سورۃالمؤمنون:۵۰)

ابن جریر نے مرہ نہزی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"یہاں ’’الربوۃ‘‘ سے مراد

، ’’ الرملۃ‘‘ ہے "۔

ابن عساکر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں :   ” "ربوۃ‘‘ سے فلسطین کا علاقہ مراد ہے۔”

 قتادہ، کعب اور ابو العالیہ فرماتے ہیں :

"اس سے مراد بیت المقدس ہے۔”

اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے پیروکاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے سورہ الفتح کی آخری آیت میں فرمایا کہ:

 "وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے انھیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤگے ۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات  اور انجیل میں۔ ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی پھر وہ گدرائی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں”۔

ہر ایک شہید ، امت کی حیات جاوداں اور کفار کی ابدی موت  کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رح  نے حکم رانوں سے مصالحت کی نہ مفاہمت نہ  ہی جنگ ، لیکن عزیمت کے ساتھ ظلم سہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی شہادت پر تیس ہزار غیر مسلم مسلمان ہوگئے ۔

سورہ یاسین میں جس شخص کا ذکر ہے کیا وہ  ناکام تھا؟ اصلاً تو وہی کامیاب تھا کہ اسے مومن کی زندگی کی معراج یعنی شہادت نصیب ہوئی اور اس شہادت کا  فوری ردعمل یہ تھا کہ  اللہ تعالیٰ نے پوری بستی تباہ و برباد کر دی اور بعد میں  اہل حق ہی غالب ہوئے اور ان  کو زمین کا وارث بنا دیا گیا۔

"اصحاب الاخدود” کی شہادت کے بعد دین قائم ہوا اور لوگ اللہ کی طرف  پلٹے اور اس خونی واقعہ نے اہل دین کو غلبہ عطا کر دیا ۔ "اصحاب کہف” کے غار میں روپوش ہوجانے کے بعد زمین پر حق قائم ہوا۔

  یقینا اصل کامیابی اپنے مقصد پر مرتے دم تک قائم رہنا اور  اس کے لیے مخلصانہ جدوجہد کرتے ہوئے  شہادت سے سرفراز ہوجانا ہے ۔ امت مسلمہ کا  اصل کام لوگوں کی ترجیحات کو بدلنا ہے ۔ دنیا کی ہوس سے ہٹا کر   آخرت کے  امتحان کے لیے چوکس، آمادہ اور تیار کرنا ہے۔ قرآن مجید اور انبیاء کرام علیھم السلام  کی تمام تر جدوجہد کا مطمح نظر آخرت کی یاد اور

” یوم الدین”  کامیابی  کی جستجو ہے۔

سورہ العنکبوت کی آخری آیت میں وعدہ ربانی ہے :

"اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں جھیل رہے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے” 

 یعنی مظلوم مسلمانوں کے لیے نئی راہیں بھی کھلیں گی دنیا کی مشکلات بھی حل ہوں گی اور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہوگی ۔

 الروم ٤٧ میں کہا گیا ہے کہ:

 "اہل ایمان کی نصرت ہم پر لازم ہے”۔ سورہ الروم کا مرکزی مضمون ہی یہ ہے کہ حالات کے باطنی اسرار تک لوگوں کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی وہ سرسری طور پر حالات کو دیکھ کر غلط نتائج نکالتے ہیں کائنات بالحق پیدا کی گئی ہے۔ تمام معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں حق اور اہل حق کی سرفرازی کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔

سورہ قصص کا مرکزی مضمون  بھی یہ ہے کہ اگر حق کا ساتھ دینے والے کم زور اور حق کے مخالفین مضبوط ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ حق کو قائم اور اس کے مخالفین کو تباہ کر دیتا ہے لہٰذا حق کے پیش کرنے میں کسی نرمی، مداہنت ، مصالحت ، مفاہمت ،کچھ لو اور دو سے یا کسی قسم کے اعراض سے کام نہ لیا جائے اور نظام کفر کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کسی سطح پر بھی قبول نہ کی جائے۔

اس رویے کے ساتھ اگر اہل حق دین کا کام کریں تو خواہ وہ تعداد میں تھوڑے ہوں بلکہ برائے نام  ہوں یا صرف دو چارہی  ہوں تب بھی غلبہ آخرکار  ان کو ہی  ملے گا، کامیابی انھیں ہی عطا ہوگی۔”تمکن فی الارض” ان کو ہی  حاصل ہوگا زمین کے وارث اور "استخلاف فی الارض "کے حق دار یہی مخلص غیرلچک دار رویہ رکھنے والے ہی ہوں گے ۔

 ” پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر کیجیے، اللہ کا وعدہ برحق ہے اب خواہ ہم آپ کے سامنے ہی ان کو برے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں یا اس سے پہلے آپ کو دنیا سے اٹھالیں پلٹ کر آنا تو انھیں ہماری ہی طرف ہے (المومن:٧٧)

” بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی اور اس دن بھی مدد کریں گے جس دن گواہ اس کے حضور میں پیش ہوں گے”۔ ( المومن:٥١)

 اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا۔ اہل ایمان، مخلصین، راسخون فی العلم، اہل حق کے تمام گروہوں سے تمام زمانوں میں اللہ کا وعدہ یہی رہا ہے اور قیامت تک یہی رہے گا بشرط یہ کہ اہل حق صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہوئے صبر، حکمت، صلوٰة اور راستی پر قائم رہیں اور کفر سے کسی قسم کی مصالحت نہ کریں ۔

اگر روئے زمین پر ایک صالح گروہ موجود ہو جو اپنے ایمان علم و عمل کے ذریعے آزمائش میں ثابت قدم رہا ہو تو کیا لازماً اسی گروہ کو ہی  خلافت ارضی عطا کرنا مشیت الٰہی کا تقاضا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے تحت اس گروہ کو "استخلاف فی الارض” سے اپنی حکمت بالغہ کے تحت محروم بھی رکھ سکتا ہے۔ ؟

 یقینا ایسا ممکن ہے  کیونکہ کسی گروہ کو اقتدار کا ملنا اس کے جذبہ شکر کی آزمائش ہے اور کسی گروہ کو اقتدار سے محروم رکھنا اس کے صبر کا امتحان ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو شکر اور صبر کے امتحانات سے گزارتا ہے اور پھر مناسب موقع پر اپنی حکمت کلی کے تحت اقتدار عطا فرما دیتا ہے۔

کیا اکثر ایسا نہیں ہوا کہ ایک گروہ کلمہ حق کہتے کہتے شہید ہوگیا لیکن یہ شہادت بالآخر انقلاب اور خلافت ارضی کا عنوان بن گئی۔ مکہ مکرمہ میں سختیاں جھیلنے والے فتح مکہ نہ دیکھ سکے لیکن ان کی قربانیاں بنیاد رکھ گئ تھیں ۔

حدیث کی” کتاب الرقاق  ” کے مطابق حکمت کا سرچشمہ زہد ہے۔ زاہدانہ زندگی دنیا سے کم سے کم تمتع حاصل کرنا دنیا میں مسافر کی طرح ٹھہرنا ہے۔ اس زاہدانہ طرز کے نتیجے میں مومن کا دل حکمت کے چشموں سے معمور ہوجاتا ہے اور حکمت کے کلمات اس کے دل، ذہن، اور زبان سے پھوٹنے لگتے ہیں۔

اہل غزہ ان الہی و الہامی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں ساری امت مسلمہ کے لیے صبر، ایثار اور شہادت، شجاعت، غیرت اور استقامت میں نمونہ اور ماڈل بن چکے ہیں اور اگر آج امت مسلمہ کسی کو حافظان حرم اور خادمان حرم کا لقب دینا چاہے تو یہ مقدس عنوانات صرف انہی جوانوں کا حق ہے جو اسلام اور مسلمین کی عزت و ناموس اور حرم بیت المقدس کا دفاع کر رہے ہیں چونکہ قرآن کریم کے مطابق جب کبھی  مومنوں کو اعزاز سے نوازا گیا ہے تو ان کی کارکردگی اوراستقامت کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو جہاد نہ کرنے اور  عورتوں کی طرح گھروں میں رک جانے والوں پر فضیلت دی ہے۔ آج غزہ کے غیور جوان، مثالی ایمان کے حامل مرد و زن   صبرو استقامت کا پہاڑ بنے ظالم صیہونیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔   وہ اس طرح امتحان میں ہیں کہ ہلا مارے جارہے ہیں۔ ہر دن ان کے ایمان کو مضبوط اور دل کو سکینت بخش رہا ہے ۔ جو عوام اسرائیل کی  تجارت متزلزل کرکے اپنا حصہ ڈال رہی ہے ان کے لیے بھی استقامت کی دعا ہے ۔ فلسطین کے بہادر باشندوں نے اپنے عمل سے ساری دنیا کے لوگوں کے سمندر میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے اور  ساری دنیا اور خصوصاً عرب کے  غدار حکمرانوں کو یہ باور کروا دیا ہے  کہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی قریب ہی ہے  ۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ قول ربانی  اپنی حقیقت منوانے کو تیار ہے کہ: ” تم نہ اٹھو گے تو اللہ تعالیٰ یہ کام کسی اور سے پورا کروا لے گا” ۔

 مسلمان واقعہ اسراء و معراج سے اب تک بیت المقدس کی آزادی اور فتح کرنے کی آرزو اور جد وجہد کرتے آرہے ہیں،  کیونکہ بیت المقدس  پہ توحید کے علمبرداروں کا حق ہے اور ہمیشہ انبیاء نے وہاں سے توحید کا علم بلند کئے رکھا ۔اب امت مسلمہ ہی توحید پہ قائم ہے اسی لیے وہ مشرکوں اور مغضوب و گمراہ قوم سے بیت المقدس کو آزاد کرنے کی ذمہ دار ہے ۔

 عرب اور مسلمان ممالک کے مایوس کن کردار اور دشمنوں کی جارحیت کے باوجود فلسطینی مجاہدین کے اندر جہاد کی یہ چنگاری آج تک برقرار ہے، اور مجاہدین نے فلسطینی عوام کے ساتھ یہودی غاصبانہ قبضے کے خلاف جہاد جاری رکھا ہوا ہے اور اس طرح سرزمین فلسطین آپ ﷺ کی اس حدیث کا مصداق بن رہی ہے جس میں چودہ سو سال پہلے آپ ﷺ نے بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :

 "میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الا یہ کہ بطورآزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا:’’ یارسول اللہ یہ لوگ کہاں کے ہوں گے۔‘‘تو نبی کریمﷺ نے جواب دیا :’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے” (السلسلة الصحيحۃ: 4/599 ،)

 اہل غزہ و فلسطین جس ایمانی غیرت اور استقامت کی مثالیں قائم کر رہے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مزکورہ حدیث کے مصداق ہیں ۔ قرآن و حدیث اور سیرت صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی مثالیں ہم اپنے سر کی انکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔

کون کہتا ہے کہ ایمان کے چراغ بجھ گئے ہیں ۔ فروزاں شمعیں دنیا کو ظلمات سے نکال رہی ہیں ۔  اسلام کے چراغ کو روشن رہنے کے لیے پاک مطھر مصفا و منزہ ایمانی حرارت والے خون کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا معصوم ننھی جانوں  کا خون رائگاں جائے گا؟ اپنے جگر گوشوں کے خون کو اللہ کے حضور پیش کرکے  رب کا شکر ادا کرنے اور اس اعزاز پہ خوش ہونے والے، سبقت لے جانے والوں میں شامل نہ ہوں گے؟ یقیناً ہوں گے وہ ان قلیل لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالی اپنے لیے چن لیتا ہے ۔ اور اللہ رب العزت ازل سے  منافق،خائن، بد عمل ، بے حس لوگوں سے نفرت کرتا ہے ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔ اللہ ان کی ظلمت پہ مزید ظلمت کا اضافہ کرتا جاتا ہے ۔  اللہ عزوجل پاک ہے پاک عمل،پاک لوگ اور پاکیزہ لہو قبول کرتا ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں  سبقت لے جانے والے ، مقربین  اور جنتی لوگوں   کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ” وہ شروع کے دور میں زیادہ ہوں گے اور آخری دور میں قلیل ہوں گے (الواقعہ )

اے گروہ مجاہدین  ! آپ  کا دل پاک، عمل خالص ہے  ،والدین  اپنے  معصوم اور جوان  بچوں کا مطھر لہو پیش کرکے  متشکر ،خوش و مطمئن ہیں اور اے پیارے نونہالو! جو اپنےوالدین سے جدا ہو کر ، گھر کے ملبے پہ بیٹھ کر ماتم کی بجائے کلام الٰہی کی تلاوت کر رہےہو اور اپنے  رب سے راضی ہو  کہ رب نے تمہیں  اس کام کے لیے پسند فرما لیا ۔ یقینا  آپ سب مبارک باد اور سلام عقیدت و محبت   کے لائق ہیں  کہ آپ کی قربانیوں سے  دنیا اس دین کی طرف متوجہ ہو رہی ہے جس کو حاملان قرآن کی کثرت نے چھوڑ رکھا ہے ۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا مشرکوں،  کافروں منافقوں  کو یہ بات کتنی ناگوار کیوں نہ ہو ۔

 ایک جان کی شہادت سے کتنے چراغ روشن ہوں گے دنیا بھی دیکھے گی اور اسلام دشمنوں کے سینے جلیں گے منہ کالے ہوں گے وہ نام کے مسلمان ہوں یا کٹے کافر و مشرک۔۔

نعیم صدیقی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے:

نوید برلب سحر بسیماں چمن بداماں لہو کے قطرے

حیات تازہ کا لے کے آئے پیام یزداں لہو کے قطرے

لہو کے قطرے، لہو کے قطرے

چمکتے ہیں نقش راہ بن کر سربیاباں لہو کے قطرے

قرار پائے نشان منزل بہ کوئے جاناں لہو کے قطرے

لہو کے قطرے، لہو کے قطرے

لہو کے قطرے جو بولتے ہیں جو غازیوں کو بلا رہے ہیں

لہو کے قطرے اذان دے کر زمانے بھر کو جگا ہے ہیں

لہو کے قطرے ،لہو کے قطرے

خدا کی میزان میں گراں ہیں زمیں پہ ارزاں لہو کے قطرے

فرشتے پلکوں سے چوم رہے ہیں بخاک غلطاں لہو کے قطرے

لہو کے قطرے ،لہو کے قطرے

لہو کے قطرے جو چرخ ہستی میں تارے بن کر چمک رہے ہیں

لہو کے قطرے، لہو کے قطرے

پیام طوفاں لہو کے قطرے

فروغ ایماں لہو کے قطرے

چراغ عرفاں لہو کے قطرے

لہو کے قطرے، لہو کے قطرے 


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں