داعش کے سابق سربراہ کی اہلیہ ام حذیفہ کے انکشافات
اُمِ حذیفہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کی پہلی بیوی ہیں اور وہ اس وقت بھی ان کے نکاح میں تھیں جب شام اور عراق کے بڑے حصے پر اس گروہ کا قبضہ تھا۔
اب وہ ایک عراقی جیل میں قید ہیں جہاں ان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہونے جیسے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
بی بی سی نے جیل میں قید اُمِ حذیفہ کا انٹرویو کیا ہے۔ 2014 کے موسمِ گرما میں وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے گڑھ سمجھے جانے والے شامی شہر رقہ میں اپنے شوہر ابوبکر الغدادی کے ساتھ رہائش پزیر تھیں۔
چونکہ ابوبکر البغدادی ایک انتہا پسند گروہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب سربراہ تھے اس لیے انھیں خود کو بچانے کے لیے متعدد مقامات پر رہنا پڑتا تھا۔
ایسے ہی ایک وقت میں ابوبکر البغدادی نے اپنے ایک محافظ کو اپنے گھر بھیجا تاکہ وہ ان کے دو بیٹوں کو ان کے پاس لا سکے۔
اُمِ حذیفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ سیر پر جا رہے ہیں جہاں بچوں کو تیراکی سکھائی جائے گی۔‘
اُمِ حذیفہ کے گھر پر ایک ٹی وی بھی تھا جو وہ چُھپ کر دیکھا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ ٹی وی کھول لیا کرتی تھی جب وہ (ابوبکر البغدادی) گھر پر نہیں ہوتے تھے۔‘
ان کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں حقیقی دُنیا سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا تھا، ابوبکر البغدادی انھیں ٹی وی دیکھنے دیتے تھے اور نہ ہی 2007 کے بعد سے انھیں موبائل فون سمیت کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔
محافظ کے بچوں کو لے جانے کے کچھ دنوں بعد جب اُمِ حذیفہ نے اپنا ٹی وی کھولا تو انھیں ایک ’بڑا سرپرائز‘ ملا۔ انھوں نے اپنے شوہر کو عراقی شہر موصل کی نوری مسجد میں بطور نام نہاد اسلامی خلافت کے سربراہ خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔
کچھ دن پہلے ہے ان کے گروہ سے منسلک جنگجوؤں نے موصل پر قبضہ کیا تھا۔
برسوں بعد دنیا نے ابوبکر البغدادی کی پہلی جھلک اسی ویڈیو میں دیکھی تھی۔ ان کے چہرے پر لمبی داڑھی تھی، جسم پر سیاہ جبہ پہنا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں سے اطاعت کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
یہ وہ لمحہ تھا جسے دنیا بھر میں دیکھا گیا اور اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ عراق اور شام کے بڑے حصے پرقبضہ کر چکی تھی۔
اُم حذیفہ کہتی ہیں کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ ان کے بیٹے دریائے فرات میں تیراکی سیکھنے کے بجائے موصل میں موجود ہیں۔
یہ تمام مناظر اُمِ حذیفہ بغداد کی ایک پُرہجوم جیل میں بیان کر رہی تھیں، جہاں ان کے خلاف نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے کیے گئے جرائم اور ان کے کردار کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
اس جیل میں کافی شور سُنا جا سکتا ہے جہاں منشیات کے استعمال اور جسم فروشی سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد اور باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی لایا جا رہا ہے۔
ہم نے جیل کی لائبریری میں ایک خاموش مقام ڈھونڈا اور اُمِ حذیفہ سے تقریباً دو گھنٹے گفتگو کی۔ ہماری بات چیت کے دوران انھوں نے خود کو بطور ایک متاثرہ خاتون پیش کیا، جس نے کئی مرتبہ اپنے شوہر سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی۔ وہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی متشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بھی تردید کرتی ہیں۔
تاہم ان کا مؤقف یزیدی برادری کی طرف سے دائر کیے گئے عدالتی کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یزیدی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے اراکین کی جانب سے اغوا کیا گیا اور جنسی غلام بنایا گیا اور ان کا الزام ہے کہ اُمِ حذیفہ لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلام بنانے کے عمل میں ملوث تھیں۔
انٹرویو کے دوران اُمِ حذیفہ نے ایک بھی بار اپنا سر نہیں اُٹھایا۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوئی تھیں جس میں صرف ان کے چہرے کا کچھ حصہ نظر آ رہا تھا۔
اُمِ حذیفہ سنہ 1976 میں عراق کے ایک تنگ نظر خاندان میں پیدا ہوئیں تھیں اور سنہ 1999 میں انھوں نے ابراہیم عواد البدری (ابوبکر البغدادی) سے شادی کی۔
وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کے شوہر نے بغداد یونیورسٹی سے شریعت یعنی اسلامی قوانین کی تعلیم حاصل کی تھی۔
امِ حذیفہ کے مطابق اس وقت ان کے شوہر ’مذہبی ضرور تھے لیکن انتہا پسند نہیں۔ تنگ نظر تھے لیکن کُھلے دماغ کے مالک بھی تھے۔‘
پھر سنہ 2004 میں عراق پر امریکا کی قیادت میں ہونے والے حملے کے بعد امریکی فوج نے ابوبکر البغدادی کو گرفتار کر لیا اور وہ تقریباً ایک برس تک امریکی فوج کے زیرِ انتظام حراستی مرکز کیمپ ’بوکا‘ میں قید رہے۔
کیمپ بوکا میں مزید ایسی شخصیات بھی موجود تھیں جو بعد میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور دیگر جہادی گروہوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں۔
امِ حذیفہ کا دعویٰ ہے کہ حراستی مرکز سے رہائی کے بعد ان کے شوہر میں تبدیلی آئی: ’وہ غصے کے تیز ہو گئے تھے۔‘
وہ دیگر لوگ جو ابوبکر البغدادی کو جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کیمپ بوکا میں قید ہونے سے قبل بھی ابوبکر البغدادی القاعدہ کا حصہ تھے۔ لیکن ان کی اہلیہ کا دعویٰ ہے کہ کیمپ بوکا ان کے شوہر کی زندگی کا وہ موڑ تھا جب وہ شدید انتہا پسند ہو گئے۔
اُمِ حذیفہ اپنے شوہر کے بارے میں مزید بتاتی ہیں کہ ’انھیں نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔‘ جب اُم حذیفہ نے مسائل کی وجہ پوچھی تو ابو بکر البغدادی نے انھیں بتایا کہ: ’وہ کچھ ایسی چیزوں کا سامنا کرکے آئے ہیں جو وہ (اُمِ حذیفہ) نہیں سمجھ سکتیں۔‘
ابوبکر البغدادی نے کبھی صاف صاف تو نہیں کہا لیکن اُمِ حذیفہ کا ماننا ہے کہ ’حراست کے دوران ان پر جنسی تشدد کیا گیا تھا۔‘
اس زمانے میں امریکہ کے زیرِ انتظام ایک اور حراستی مرکز ’ابو غریب‘ کی تصاویر منظرِ عام پر آئی تھی جن میں قیدیوں کو جنسی حرکات کرنے پر مجبور ہوتے ہوئے اور ہتک آمیز حالت میں دیکھا جا سکتا تھا۔
ہم نے اُمِ حذیفہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات امریکی محکمہ دفاع کے سامنے بھی رکھے لیکن ان کی طرف سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اُمِ حذیفہ کہتی ہیں کہ وہ سوچنے لگیں تھے کہ کہیں ان کے شوہر کسی عسکری گروہ کے رُکن تو نہیں بن گئے۔
ابوبکر البغدادی کی اہلیہ کے مطابق ’جب وہ گھر واپس آتے تھے، نہا رہے ہوتے تھے یا سو رہے ہوتے تھے تو میں ان کے لباس کی تلاشی لیا کرتی تھی۔‘
’یہاں تک کہ میں ان کے جسم کو بھی دیکھا کرتی کہ کہیں وہاں کوئی زخم یا نشان تو نہیں، میں پریشان تھی۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایسا کچھ نہیں مل سکا۔
’میں نے انھیں تب کہا تھا کہ آپ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ اس بات پر شدید غصے میں آ گئے تھے۔‘
اُمِ حذیفہ بتاتی ہیں کہ ابوبکر البغدادی اکثر گھر تبدیل کیا کرتے تھے، جھوٹی شناخت بنایا کرتے اور پھر ان کے شوہر نے دوسری شادی بھی کرلی تھی۔
ان کے مطابق انھوں نے اپنے شوہر سے طلاق کا بھی مطالبہ کیا لیکن وہ بچوں کو چھوڑنے کی شرط پر راضی نہیں ہوئیں اور اسی وجہ سے انھیں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پڑا۔
جب سنہ 2006 سے 2008 کے درمیان عراق میں فرقہ وارانہ جنگ اپنے عروج پر تھی اس وقت اُمِ حذیفہ کو یقین ہوگیا کہ ان کے شویر کسی سُنّی جہادی گروہ کا حصہ ہیں۔
سنہ 2010 میں ابوبکر البغدادی نام نہاد دولتِ اسلامیہ عراق کے رہنما بن گئے، جو کہ متعدد عراقی جہادی گروہوں کا ایک مجموعہ تھی۔
اُمِ حذیفہ کہتی ہیں کہ ’جنوری 2012 میں ہم شام میں ادلب کے دیہی علاقے میں منتقل ہو گئے اور وہاں یہ بات بالکل واضح ہو گئی کے وہ ایک گروہ کے امیر بن چکے ہیں۔‘
جب نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے خلافت کا اعلان کیا تو دولتِ اسلامیہ عراق کا گروہ بھی اس کا حصہ بن گیا۔
اُمِ حذیفہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کے شوہر نے افغانی لباس پہننا شروع کر دیا تھا، داڑھی بڑھا لی تھی اور پستول بھی رکھنا شروع کردی تھی۔
جب شمال مغربی شام میں خانہ جنگی کے دوران حالات زیادہ خراب ہوئے تو ابوبکر البغدادی رقہ منتقل ہوگئے اور اسے ہی اپنی ’خلافت‘ کا دارالحکومت بنا لیا۔
یہ وہ وقت جب اُمِ حذیفہ نے پہلی مرتبہ اپنے شوہر کو ٹی وی پر دیکھا۔
جن گروہوں نے مل کر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو قائم کیا ان کے مظالم پہلے بھی دنیا کو معلوم تھے لیکن سنہ 2014 اور 2015 میں یہ ظلم مزید خوفناک شکل اختیار کر گیا اور مزید پھیلنے بھی لگا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ان کے پاس ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ عراق کی یزیدی اقلیت کی نہ صرف نسل کشی میں ملوث ہے بلکہ انھوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا بھی ارتکاب کیا ہے۔
ان جرائم میں قتل، تشدد، اغوا اور لوگوں کو غلام بنانا شامل ہیں۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اپنے ان مظالم کو سوشل میڈیا پر بھی نشر کرتی تھی، جن میں سر قلم کرنا اور اردن کے ایک پائلٹ کو زندہ جلانے جیسے مناظر بھی شامل تھے۔
کچھ خواتین جو دولتِ اسلامیہ کے زیرِ انتظام علاقوں میں منتقل ہوئیں تھِیں ان کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہیں۔
اسی سبب میں نے اُمِ حذیفہ سے پوچھا کہ اس وقت کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت بھی یہ مناظر نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
وہ مظالم نہ صرف میرے لیے ’گہرے صدمے‘ کا باعث تھے بلکہ ’غیر انسانی‘ بھی تھے اور ’ناحق کسی کا خون بہانا ایک خوفناک چیز ہے اور اس سلسلے میں انھوں (نام نہاد دولتِ اسلامیہ) نے انسانیت کی حد پار کر دی تھی۔‘
اُم حذیفہ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو کہا تھا کہ ان کے ہاتھ ’معصوم لوگوں کے خون سے رنگے‘ ہوئے ہیں اور یہ کہ ’اسلامی قوانین کے مطابق بہت کچھ اور بھی کیا جا سکتا تھا، جیسے کہ انھیں اپنے گناہوں پر شرمسار کرنے کے لیے ان کی رہنمائی کی جا سکتی تھی۔‘
اُمِ حذیفہ نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر کیسے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے دیگر رہنماؤں سے اپنے لیپ ٹاپ کے ذریعے رابطہ کیا کرتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ابوبکر البغدادی اپنا لیپ ٹاپ ایک بریف کیس میں رکھا کرتے تھے۔
اُمِ حذیفہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میں نے اس لیپ ٹاپ کو کھولنے کی کوشش کی تاکہ جان سکوں کہ ہو کیا رہا ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بالکل نابلد تھی اور اس لیپ ٹاپ پر ہمیشہ پاس ورڈ لگا ہوتا تھا۔‘
اُمِ حذیفہ کے مطابق انھوں نے وہاں سے فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن انھیں ایک چیک پوائنٹ پر مسلح افراد نے روک لیا اور واپس گھر بھیج دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک ان کی معلومات ہیں، ابو بکر البغدادی نے ’بذاتِ خود کسی لڑائی یا جنگ میں حصہ نہیں لیا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ جب نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے موصل پر قبضہ کیا تو ابوبکر البغدادی رقہ میں تھے اور وہیں سے تقریر کرنے موصل روانہ ہوئے تھے۔
اس خطبے کے فوراً بعد ابوبکر البغدادی نے اپنی 12 سالہ بیٹی عمیمہ کی شادی اپنے دوست منصور سے کردی اور اپنے خاندانی امور بھی ان ہی کو سونپ دیے۔
امِ حذیفہ کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ شادی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی مخالفت کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
ایک عراقی سکیورٹی ذرائع نے ہمیں بتایا کہ عمیمہ کی ایک شادی پہلے بھی دولتِ اسلامیہ کے ایک ترجمان سے کی گئی تھی اور اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ برس تھی۔
یہ بھی پڑھیے
نادیہ مراد، داعش کے قبضے سے فرارہوکرنوبل انعام پانے والی عراقی خاتون کی حیرت انگیزداستان
اسامہ بن لادن کی پیش گوئی پوری ہوگئی
غانیہ کا مسئلہ کیا ہے، کیا آپ جانتے ہیں؟
تاہم سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمیمہ کی پہلی شادی صرف اس لیے کی گئی تھی تاکہ ان کا شوہر ابوبکر البغدادی کی غیرموجودگی میں گھر میں داخل ہوسکے، اس شادی میں جنسی تعلقات شامل نہیں تھے۔
پھر اگست 2014 میں اُمِ حذیفہ نےایک اور بیٹی نصیبا کو جنم دیا جسے پیدائش سے ہی دل کی بیماری لاحق تھی۔ اسی دوران منصور نو لڑکیاں اور خواتین گھر لے آیا، جن کی عمریں نو سے 30 برس کے درمیان تھیں۔
اس زمانے میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے ہزاروں یزیدی خواتین کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔ اُمِ حذیفہ کہتی ہیں کہ انھیں اس عمل سے گہرا صدمہ ہوا اور ’شرم محسوس ہوئی۔‘
منصور کی جانب سے گھر لائی گئی لڑکیوں میں ثمر اور زینا (فرضی نام) بھی شامل تھیں۔ اُمِ حذیفہ کا دعویٰ ہے کہ یہ لڑکیاں ان کے رقہ میں واقع گھر میں صرف چند دن مقیم رہیں اور پھر انھیں کہیں اور منتقل کردیا گیا۔
لیکن جب اُمِ حذیفہ اپنے خاندان سمیت موصل منتقل ہوئیں تو ثمر دوبارہ وہاں آئیں اور تقریباً دو مہینے ان کے گھر پر ہی مقیم رہیں۔
میں ثمر کے والد کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی اور انھوں نے اشکبار آنکھوں سے بتایا کہ ان کی بیٹی کو کیسے اغوا کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی دو بیویاں، 26 بچے، دو بھائی اور ان کے خاندان کے تمام افراد کو سنجار کے علاقے خنصور سے اغوا کیا گیا تھا، لیکن وہ خود قریبی پہاڑوں میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ثمر سمیت ان کے چھ بچے آج بھی لاپتہ ہیں۔ ان کے کچھ بچے تاوان کی رقم ادا کرنے کے بعد واپس گھروں کو آئے اور کچھ اس وقت جب نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے علاقے آزاد کروائے گئے۔
ثمر کے ساتھ موجود دوسری لڑکی زینا حامد کی بھتیجی ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ اب بھی شمالی شام میں پھنسی ہوئی ہیں۔
زینا کی بہن صود کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود کبھی اُمِ حذیفہ سے نہیں ملیں، لیکن انھیں (زینا) غلام بنایا گیا تھا، جنسی زیادتی کی گئی تھی اور سات مرتبہ فروخت کیا گیا تھا۔
حامد اور سود نے اُمِ حذیفہ کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یزیدی خواتین کے اغوا اور انھیں غلام بنانے کے جرم میں شریک تھیں۔
وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ اُمِ حذیفہ ایک لاچار خاتون تھیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ابوبکر البغدادی کی پہلی بیوی کو موت کی سزا سُنائی جائے۔
صود کہتی ہیں کہ ’وہ تمام چیزوں کی ذمہ دار ہیں۔ وہ تمام لڑکیوں کا انتخاب کرتی تھیں کہ کون لڑکی ان کی خدمت کرے گی اور کون لڑکی ان کے شوہر کی اور میری بہن بھی ان لڑکیوں میں شامل تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی یہ رائے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے چُنگل سے آزادی پانے والے افراد کی گواہیوں پر مبنی ہے۔
’وہ مجرم ابوبکر البغدادی کی بیوی ہے اور وہ اس کی طرح خود بھی ایک مجرم ہے۔‘
ہم نے صود کا انٹریو اُمِ حذیفہ کو بھی سُنایا اور انھوں نے کہا کہ: ’میں اس بات کی تردید نہیں کرتی کہ میرا شوہر ایک مجرم تھا‘ اور ’ان (یزیدی خواتین) کے ساتھ جو ہوا مجھے اس پر دُکھ ہے۔‘
تاہم وہ خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
اُمِ حذیفہ کہتی ہیں کہ جنوری 2015 میں ان کی مختصر ملاقات امریکی امدادی کارکن کیلا مُلر سے ہوئی تھی۔ کیلا مُلر تقریباً 18 ماہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی قید میں رہیں تھیں اور اسی دوران وفات پا گئیں تھیں۔
کیلا کی موت کی تفصیلات آج بھی سامنے نہیں آ سکی ہیں، لیکن اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی موت اردن کے ایک فضائی حملے میں ہوئی تھی۔
تاہم امریکا کی جانب سے اس دعوے کی تردید کی گئی تھی اور اب ایک عراقی سکیورٹی ذرائع نے بھی ہمیں یہی بتایا ہے کہ انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے ہی قتل کیا تھا۔
سنہ 2019 میں امریکی فوجی اہلکاروں نے شمال مغربی شام کے اس علاقے میں چھاپہ مار کارروائی کی جہاں ابوبکر البغدادی اپنے خاندان کے کچھ افراد کے ہمراہ چھُپے ہوئے تھے۔
اس کارروائی کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سربراہ نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ اس دھماکے میں ان کے بچے بھی ہلاک ہوئے تھے، جبکہ ان کی چار میں سے دو بیویاں بھی فائرنگ کے تبادلے میں ماری گئیں تھیں۔
اس وقت اُمِ حذیفہ وہاں موجود نہیں تھیں بلکہ ایک جھوٹی شناخت کا سہارا لیتے ہوئے ترکی میں چُھپی ہوئی تھیں، ان کی گرفتاری بھی وہیں عمل میں آئی تھی۔
فروری 2018 میں انھیں واپس عراق بھیج دیا گیا تھا، جہاں آج بھی وہ جیل میں قید ہیں اور حکام کی جانب سے تحقیقات کا سامنا کر رہی ہیں۔
ان کی سب سے بڑی بیٹی عمیمہ بھی ان کے ساتھ جیل میں ہی قید ہیں، جبکہ دوسری 12 سالہ بیٹی فاطمہ بچوں کے لیے قائم کیے گئے ایک حراستی مرکز میں موجود ہیں۔
ان کا ایک بیٹا ابوبکر البغدادی کے ساتھ مارا گیا تھا، جبکہ دوسرا شام میں ایک روسی فضائی حملے میں ہلاک ہوا تھا۔
ان کا سب سے چھوٹا بیٹا ایک یتیم خانے میں مقیم ہے۔
جب ہماری گفتگو اختتام پر پہنچی تو اُمِ حذیفہ نے ایک لمحے کے لیے اپنا سر اُٹھایا اور میں نے ان کا پورا چہرہ دیکھا، لیکن ان کے تاثرات سے ہمیں نہیں پتا چل سکا کہ وہ کیا سوچ رہی ہیں۔
جیسے ہی انٹیلیجنس افسر انھیں واپس لے کر جانے لگے انھوں نے اپنے چھوٹے بچوں کے بارے میں معلومات مانگنی شروع کردیں۔
اور اب وہ واپس سلاخوں کے پیچھے ہیں اور انتظار کر رہی ہیں کہ ان کے خلاف تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
( فراس کیلانی، بی بی سی عربی)