روبینہ شاہین……….
سورج واپسی کے لیئے عازم سفر تھا۔۔۔شام اپنے پر پھلائے آنے کو بے تاب تھی ۔درخت، چرند، پرند سب خاموش تھے۔۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن اپنے گھر کے سامنے واقع پارک میں بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔۔۔وہ ایک کامیاب سائنس دان تھا۔۔۔سب کچھ تھا اس کی زندگی میں۔۔۔پھر بھی کبھی کبھی اس پر اداسی کا دورہ پڑتا جو کئی دنوں تک طاری رہتا۔۔۔۔اس کے دماغ میں عجیب وغریب سوال سر اٹھانے لگےجنھیں وہ جھٹک دینا چاہتا تھا۔۔۔وہ جتنا ان سوالوں کو نظر انداز کرتا وہ اتنا ہی شو ر مچاتے۔۔۔۔اسے اپنی نئی ریسرچ کے لیئے موضوع چاہیئے تھا۔۔۔۔کوئی انوکھا اور اچھوتا موضوع ۔۔۔۔
آج بھی ڈاکٹر ونسٹن پر اداسی طاری تھی۔۔۔۔وہ پارک میں آبیٹھا۔۔۔اس کے سامنے سے ایک لڑکی اپنی پالتو بلی کے ساتھ واک کرتے دکھائی دی۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن نے اپنی نظریں ان دونوں کی ٹانگوں پر جما دیں اور پُر سوچ انداز میں قدم گھر کی طرف بڑھا دیئے۔۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن کو اپنی نئی تحقیق کے لیئے موضوع مل چکا تھا۔۔۔ ونسٹن جو ایک سائنسدان ،محقق ،مصنف اور امریکا کا نامور ایکالوجسٹ(Ecologist) تھا۔
جوں جوں ریسرچ آگے بڑھ رہی توں توں ڈاکٹر ونسٹن کو حقائق سے آشنائی ہو رہی تھی۔۔۔۔وہ بہت پر جوش تھا۔۔ساری تھکن ساری پریشانیاں ختم ہو گئیں تھیں۔۔۔کیتھی جو اس پراجیکٹ میں اس کی معاون تھی،بھی بہت مددگارثابت ہو رہی تھی۔ وہ ونسٹن کو خوب جوش دلاتی اور ہر طرح سے موضوع سے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ،اب یہ ریسرچ کچھ ہی دنوں میں مکمل ہو جانی تھی۔ دونوں تن من دھن سے اس کےاحتتامی مراحل میں مشغول تھے۔۔۔ بس کچھ ہی دن باقی تھے۔۔۔۔
ونسٹن کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔وہ بہت پرجوش تھا اپنی کامیابی پہ۔ اور کیوں نہ ہوتا اس کی ریسرچ مکمل ہونے جا رہی تھی۔ ایک ایسی ریسرچ جو اپنی سطح پربہت انوکھی اور منفرد تھی۔ کیا انسان ایلین ہے؟ایک ایسا اچھوتا موضوع تھا۔جو دنیا کو ایک انوکھی دریافت سے ہمکنار کرنے والا تھا۔
اور دنیا ایک نئے دور میں داخل ہونے والی تھی۔زمین انسان کا گھر ہے مگر کیا یہ اس کا اصلی گھر ہے؟کیا انسان شروع دن سے اس سرزمین کا باسی تھا یا کسی اور سیارے سے اٹھا کر یہاں لایا گیا ؟ یہ ایسے سوالات تھے جن کا جواب اخذ کیا گیا ۔بالآخر یہ مفروضہ اب مفروضہ نہیں رہا بلکہ ایک ثابت شدہ تحقیق کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔اس کا کہنا ہے انسان کا ڈی این اے باقی جانداروں سے بہت مختلف ہے۔یہ اکیلا ایسی مخلوق ہے جو دو پاؤں پر چل سکتا ہے لہذا یہ کسی بھی جانور کی ارتقائی شکل نہیں ہے۔
ڈاکٹر ونسٹن نے دریافت کیا کہ انسان کو جس ماحول میں ڈیزائن کیا گیا وہ انتہائی پرسکون تھی۔اس کی عادات رہن سہن اور مزاج بتاتا ہے کہ اسے وہاں کوئی مشکل نہ تھی مگر پھر انسان سےکوئی لغزش ہوئی جس کی پاداش میں اسے دیس نکالا مل گیا۔
ڈکٹر ونسٹن کے مطابق زمین ایک ایسی جگہ تھی جو جیل کے مشابہ تھی۔اور اگر غور کیا جائے تو زمین کی ساخت ایسی ہے کہ یہ خشک زمین کاایسا ٹکڑا تھی جس کے چاروں طرف پانی تھا جو جیل کے لیئے انتہائی موزوں جگہ تھی۔ ڈکٹر ونسٹن کی تحقیق میں بہت سارے ایسے نکات ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔اس کی تحقیق کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اس کرہ ارض میں ایک جانور بھی ایسا نہیں ملے گا جو دائمی بیماریوں کا شکار ہو۔یہ مرض صرف انسان کو لاحق ہے۔سارے جانور دھوپ میں زندہ رہ سکتے ہیں مگر انسان نہیں کرسکتا۔
ڈاکٹر ونسٹن کا کہنا ہے کہ انسان پر کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے اداسی کا دورہ پڑتا ہےحالانکہ اس کے پاس سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ایسا اس لئے ہوتا کیونکہ وہ اپنے اصل گھر کے لئے بے چین رہتا ہے۔اسے اپنے اصل گھر کی یاد ستاتی ہے۔
ونسٹن اپنی لیب میں کمپیوٹر پر جھکے کام میں مصروف تھا جب کیتھی لیب میں داخل ہوئی۔۔پریشانی اس کے چہرے سے ہویدہ تھی۔”سر! غضب ہو گیا” کیتھی نے آتے ہی اعلان کیا۔۔۔
"کیا ہوا؟”ڈاکٹر ونسٹن نے کیتھی سے استفسار کیا۔۔
"سر! ہماری ریسرچ چوری ہوگئی ہے۔۔۔”اور ڈاکٹر ونسٹن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔”ایسا نہیں ہوسکتا کیتھی! کبھی نہیں۔۔۔”ڈاکٹر ونسٹن نے نفی میں سر ہلایا۔۔”مگر ایسا ہو چکا ہے سر!”۔۔۔۔کیتھی نے زور سے کہا۔
اگلا پورا ہفتہ ڈکٹر ونسٹن اور کیتھی کو اس بھید کو معلوم کرنے میں لگے بالآخر سراغ مل ہی گیا اس کتاب کا جس میں ہو بہو ڈاکٹر ونسٹن کی تحقیق سے متعلقہ حقائق موجود تھے۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن ابھی تک صدمہ کی کیفیت میں تھے۔۔۔ایک ایسی کتاب جو چودہ سو سال پہلے لکھی گئی ہو ،ان کی تحقیق کا عکس تھی۔
ڈاکٹر ونسٹن ایک ذہین اور سچا سائنس دان تھا۔۔۔جو سچائی پہ یقین رکھتا تھا۔۔۔اس نے اپنی تحقیق میں اس کتاب کو بطور حوالہ استعمال کرکے تحقیق کو چارچاند لگا دیئے۔۔۔چودہ سو سال پرانی کتاب کا حوالہ بذات خود اس تحقیق کی Authenticityپر دلالت کرتا تھا۔۔۔
"سر! آپ نے تو کمال کردیا ورنہ میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ ہماری اتنے سالوں کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔۔”کیتھی نے ڈاکٹر ونسٹن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن نے مسکراہٹ سے اثبات میں سرہلایا اور نظریں گود میں رکھے "قرآن مجید”پر اٹکا دیں جو ان کی زندگی میں انقلاب لانے والا تھا۔