یکم مئی سن دو ہزار چوبیس
آج ہم نے ایران شمال کی طرف جانا ہے جو بحر کیسپین کے ساتھ واقع ہے اور کافی ٹھنڈا علاقہ ہے۔ جب ہم نے ٹور پلان کیا تھا تو اس میں شمال کی طرف جانا لازمی بتایا گیا تھا۔
صبح ناشتے سے فارغ ہوئے تو ایک ہائی ایس وین ہوٹل پہنچ گئی تھی۔ اس وین میں ہم نے اگلے تین دن ہزاروں کلومیٹر پر محیط خوبصورت ترین علاقوں کو دیکھنے کے لیے جانا تھا۔ دوست حسب سابق لیٹ تھے۔
ناشتے سے فارغ ہوئے تو اپنے پاسپورٹ لینے کے لیے ہوٹل رومز کی ڈور کارڈز واپس کرنے تھے۔ پاسپورٹ حاصل کیے جو انھوں نے ہمیں خوشی خوشی واپس کیے، ہاں! البتہ ہمارے کچھ دوستوں کو کپڑوں کی استری اور پانی کی اضافی بوتل کے چارجز دینا پڑے۔
میں اور حفیظ نے دوستوں کو پہلے ہی متنبہ کیا ہوا تھا کہ کمرے میں موجود منی بار کو جو فریج میں بنایا گیا ہے، استعمال نہیں کریں کیونکہ ان کے ریٹس بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:1)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:2)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:3)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:4)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:5)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:6)
ایک مرتبہ ایک ٹریننگ کے دوران ہمارے دوستوں نے رمادا ہوٹل کراچی میں دل کھول کر منی بار کو مفت کا مال سمجھ کر انجوائے کیا اور آخر میں اپنی جیب کے سارے پیسے دے کر جان بچائی، پھر بھوک کے عالم میں گرومندر کراچی میرے پاس ناشتے کے لیے تشریف لائے۔ اس دن کے بعد دوستوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں، کیونکہ آج کل حلوہ پوری کا ناشتہ بھی بہت مہنگا ہوگیا ہے بھائی۔
وین میں ہم نے شمال کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ مقامی دوست علی اصغر رئیسی اور میر حمید میر کی موجودگی کے سبب ہمیں ایران کے بارے میں معلومات اور سہولتیں ملیں۔
جیسے ہی تہران کی حدود سے باہر نکلے تو پہاڑی علاقے شروع ہوگئے۔ سب سے حیران کن بات ایرانی حکومت کا ان علاقوں کے سفر کو خوشگوار بنانے کے لیے ٹنلز کا جال بچھانا ہے۔ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ اس قدر زیادہ ٹنلز بنائے گئے ہیں کہ آپ کئی گھنٹے سفر کریں تو وہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ کشادہ ٹنلز ٹریفک کے لیے بنائے گئے ہیں، آنے اور جانے کیلیے الگ لگ۔ بلاشبہ ان سرنگوں اور قدرتی کے دلفریب نظاروں نے ہمارے سفر کو آغاز ہی سے خوشگوار بنادیا تھا۔
ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ گاڑیوں کو روکا جارہا ہے۔ کچھ وقت کے لیے ہمیں بھی رکنا پڑا۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ آج سے لانگ ویک اینڈ کی وجہ سے ہزاروں لوگ تہران سے شمال کی طرف فیملیز اور دوستوں کے ساتھ محو سفر ہیں اور رش بہت زیادہ ہے۔ لوگوں کی سہولت اور آگے تنگ دروں میں ٹریفک کی روانی کے لیے اس کو کچھ وقت کے لیے روک کر مینیج کیا جا رہا ہے۔
آپ کو یہ سفر بہت زیادہ اچھا لگے گا اگر آپ دوستوں اور فیمیلیز کے ساتھ قدرتی نظاروں کو رک رک کر انجوائے کریں۔
راستے میں یہ بات چلی کہ شمالی علاقہ جات ہمارے پاکستان میں بھی ہیں مگر سہولیات اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کہ سبب اب لطف دینے کے بجائے اذیت کا باعث بن رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم سرسبز و شادب اور بلند و بالا پہاڑوں کے قریب ہوتے گئے ویسے ویسے موسم خوشگوار ہوتا گیا۔ ایک جگہ دوپہر کے کھانے کے لیے رکے۔ یہ بھی ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔
اکبر جوجا کباب جو ایران اور اس علاقے کی ایک خصوصی ڈش ہے، کے ساتھ ساتھ مچھلی کا بھی آرڈر کیا گیا۔ یہاں پر مخصوص انداز میں دہی کو مٹکے میں پیش کیا گیا جس کا ذائقہ بہت زبردست تھا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر میں ہم بحر کیسپین کے کنارے پہنچ گئے۔
بحر کیسپین جانا میرے لیے ایک خواب تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کرم سے پورا کیا۔ بحر کیسپین کے کنارے کچھ گھنٹے گزارنے کے بعد ہم مازندران صوبے میں رامسر کے علاقے میں پہنچ گئے۔ یہ راستہ طویل اور سبزے سے بھرپور ہے۔ تہران سے رامسر 231 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے جو تقریباً پانچ سے چھ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ہمارے دائیں طرف بحر کیسپین اور بائیں جانب سرسبزو شاداب پہاڑ تھے۔ ساحل پر ہر جگہ ٹورسٹ کے لیے ریسورٹ اور ہوٹل، موٹلز اور سرائے بنائے گئے ہیں۔
ہم چونکہ علی اصغر رئیسی کی میزبانی میں تھے تو ان کو پتہ تھا کہ کون سی جگہ شب بسری کے لیے منتخب کرنی ہے۔ جب منزل پر پہنچ گئے تو علی بھائی اور کچھ دوست راستے میں کھڑے ولا دلانے والے ایجنٹس سے، جنہوں نے ہاتھوں میں ولا کے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے، بات کرنے لگ گئے۔ ایک ولا ساحل سمندر کے کنارے تھا جس کو دوستوں نے مسترد کیا جس پر ایجنٹ نے کچھ اور آپشن دیے۔ اس نے بتایا کہ پہاڑوں پر ایک ولا ہے مگر مہنگا ہے۔ ہم نے کہا کہ پہاڑوں پر چلتے ہیں۔
آدھے گھنٹے کے بعد پہاڑوں پر ایک ولا دکھایا گیا جو ہمارے گروپ کے اراکین نے پسند کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر طرف سرسبز و شاداب پہاڑ اور صاف ستھری سڑکیں، خاموشی اور ٹھنڈا موسم۔ ولا گراؤنڈ پلس تین فلور پر مشتمل تھا۔ جو بہت ہی شاندار سہولتوں اور طرز تعمیر کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ یہ ہمیں شاہی ولا لگا۔ اس کی ایک خاص بات سوئمنگ پول بھی تھا۔
دوست اپنے اپنے سامان کے ساتھ کمروں میں براجمان ہوگئے۔ اسی اثنا میں ولا کے مینجر سے میں نے پوچھا کہ کیا چائے مل سکتی ہے؟ اس نے بتایا کہ سامان ختم ہوگیا ہے۔ پھر اس نے میرے اصرار پر تین کپ بغیر دودھ کے سلیمانی چائے بنائی جس میں چینی بھی نہیں تھی، بس کچھ چینی کے کیوبز دیے۔ مغرب سے کچھ وقت پہلے یہ بھی نعمت مرقبہ سے کم نہیں تھی۔ نماز ظہر اور عصر ساتھ ادا کی۔ کچھ دیر بعد مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ادا کیا گیا۔
دوستوں نے بتایا کہ رات کا کھانا خود بنائیں گے اس کے لیے حفیظ اور علی بھائی قریبی بازار گئے اور گوشت، دودھ، تربوز اور ناشتے کا سامان لائے۔ ہمارے دوست اپنے ساتھ گوادر سے شان مصالحے کے پیکٹس بھی ساتھ لائے تھے جو کڑاہی اور بریانی بنانے میں استعمال ہوئے۔ کچھ دیر بعد سجاد اور مسلم شاکر نے ہمیں زبردست گولڈن چائے پلائی۔ نثار لال اور مونس نے باربی کیو کا انتظام کیا اور کڑاہی تیار کی۔
کہا گیا کہ کسی دوست (مونس ) نے کڑاہی میں چینی بھی نمک سمجھ کر ڈالی تھی جسے نثار لال نے کمال ہوشیاری سے کنٹرول کیا۔ اسی دوران کچھ دوست سوئمنگ پول میں کودنے لگے۔ باہر ٹھنڈا موسم اور سوئمنگ پول کا پانی گرم۔ یہ بھی ایک بہت ہی اچھا تجربہ تھا کہ مری جیسے علاقے میں ہم رات کی سردی میں گرم سوئمنگ پول کو انجوائے کررہے تھے۔ یہاں پر یہ بتاتا چلوں کہ ایرانی کے شمالی علاقہ جات کے تفریحی پوائنٹس پر بنائے گئے ولاز میں سوئمنگ پول لازمی طور پر بنائے جاتے ہیں۔
بعدازاں کھانا کھایا جو واقعی نثار لال اور دوستوں کا محبتوں کا مظہر تھا۔ کھانا کھا کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔(جاری ہے)