رعنائی خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی اڑتے جہاز کی آواز کے تعاقب میں نظریں آسمان کی اور ضرور اٹھتی ہیں ۔
وہ جب پہلی بار جہاز پربیٹھی تو اشتیاق اتنا تھا کہ یہ خوشخبری کلاس فیلوز سے شیئر کی کہ کل جہاز پر بیٹھوں گی ۔ اس کی کلاس فیلو نے اپنے گھر کی فضائی نظارے سے جس طرح بھی پہچان ممکن ہو سکتی تھی تمام نشانیاں اسے ازبر کروائیں اوروعدہ کیا کہ وہ اڑتے جہاز کو دیکھ کر گھر کے صحن سے ہاتھ ہلا کر الوداع کہے گی ۔اسے بھی جہاز کی کھڑکی سے جوابی سلامی پیش کرنی تھی ۔ لیکن جب جہاز اڑا تو ایکدم اتنا اونچا ہو گیا کہ سہیلی کا گھر نظر ہی نہیں آیا ۔اتنی اونچائی سے سارے گھروندے ایک سے لگتے تھے ۔ اور ننھے گھروندوں میں موجود گڈے گڈیاں تو نظر بھی نہیں آتی تھیں۔
کیامعصوم زمانہ تھا کہ سہیلی سے کیا وعدہ پورا نہ کر سکنے کا ملال تمام جوش پر حاوی آ گیا ۔ جہاز کے کپتان پر بھی بےحد غصہ تھا کہ اس نے ایکدم سے جہاز اتنا اونچا کیوں اڑا لیا ۔ اس کی سہیلی کا گھر ایر پورٹ کے بالکل قریب تھا اور اس نے پکی بات بتائی تھی کہ جہاز اس کے گھر کے بالکل قریب سے گزرتا ہے ۔ دونوں ہاتھ پورے کھول کے سمجھایا تھا کہ اس کے گھر کے صحن سے کتنا بڑا جہاز نظر آتا ہے اور گھر کی چھت سے تو اگر وہ زرا اونچی چھلانگ لگا سکے تو جہاز کو چھو بھی سکتی ہے ۔بس گھر کے باہر گلی میں گرنے کے ڈر سے چھلانگ نہیں لگاتی کہ کہیں ٹانگ نہ ٹوٹ جائے پھر وہ پڑھائی کیسے کرے گی ۔
اپنا دھیان سہیلی سے محسوس ہوتی ندامت سے ہٹانے کے لیے اس نے اپنی امی سے پوچھا کہ اگر جہاز گر جائے تو کیا احتیاط کرنی چاہیے ۔ اس کی والدہ نے دہل کر اسے ٹوکا اور آیتہ الکرسی پڑھنے لگیں ۔ کچھ دیر بعد جہاز کو جھٹکا سا لگا اور ہوائی جہاز ، زمینی جہازوں کی مانند لڑکھڑانے اور نیچے گرنے لگا ۔ بےوزنی کی کیفیت محض چند سیکنڈ کی ہو گی لیکن پیٹ کے موجودات حلق تک پہنچانے کے لیے کافی تھی ۔ اس ننھی بچی کے لیے تو یہ سبھی ایک رولرکوسٹر رائیڈ جیسا سنسنی خیز تھا لیکن باقی تمام جہاز سے اللہ اکبر اور مختلف دعائیہ صدائیں بلند ہوئیں ۔ کپتان کا اعلان سنائی دیا کہ پریشان مت ہوں معمول کی ایر پاکٹ ہے ۔ اس روز اسے اس کی امی نے ایر پاکٹ کی ٹرم کے متعلق سمجھایا ۔ کہ یہ ہوا کے مختلف دباو کا علاقہ ہے
چھٹی گزار کے جب دوبارہ جہاز پر سوار ہوئی تو واپسی کے سفر میں ایر ہوسٹس کے ذریعے جہاز کے کپتان سے فرمائش کی کہ اسے کاک پٹ دیکھنا ہے ۔ جو قبول کر لی گئی ۔
سمارٹ نیلی وردی میں دوستانہ لہجے والا پی آئی اے کا کپتان اس ننھی بچی کو بہت اچھا لگا ۔اسکول کی بچی کے ڈاکٹر بننے کے عزم کو کپتان نے بہت سراہا۔ کاک پٹ میں اتنی ساری گھڑیوں جیسے رنگ برنگی روشنیوں والے ڈائلز دیکھ کر وہ بہت حیران بھی ہوئی اور کپتان اور سیکنڈ کپتان کی مہارت اور انکی باہمی انگریزی گفتگو سے متاثر بھی ۔ اسے کچھ دیر بعد جہاز میں اپنی سیٹ پر واپس آنا پڑا ۔لیکن ذہن وہیں ڈائلز انگریزی ٹرمز سامنے کی سکرین سے نظر آتے بادل اور دور سے نظر آتی زمین پر لیٹی آڑی ترچھی سیاہ اور سلور لکیروں میں الجھا رہا ۔
میڈیکل کالج میں داخلے کے بعد اس نے اسی روٹ کے کئی سفر کیے۔ قریبا ہر ہفتے دو ہفتے بعد گھر واپسی کے لیے وہ جہاز پر سوار ہوتی۔اسی سفر میں اسے وہی پہلے سفر والے مہربان کپتان دوبارہ ملے ۔ اسے انکل کیپٹن یاد تھے اور انکل کیپٹن کو بھی وہ اسکول گرل یاد تھی ۔ جب انہیں پتا چلا کہ ننھی اسکول گرل ، میڈیکل اسٹوڈنٹ ہو گئی ہے تو اسے بہت شاباش بھی ملی۔
اس روٹ کے جہاز کا عملہ کپتان سے لے ایر ہوسٹس تک اسے پہچاننے لگا تھا بلکہ ایرپورٹ پر بھی اسے نوٹس کیا گیا تھا کہ ایک ٹین ایجر ہر ہفتے کی دوپہر جہاز پر سوار ہوتی اور اتوار یا پیر کو واپس آتی۔
اسی جہاز میں اس نے کاک پٹ میں کھڑے رہ کے جہاز کو لینڈنگ سے پہلے رن وے کی سیدھ میں پوزیشن اختیار کرنے کے لیے موڑ کاٹتے دیکھا ۔ کپتان اور سیکنڈ کپتان کو لینڈنگ سے پہلے کی چیک لسٹ ترتیب سے پڑھتے اور چیک، چیک کی صدائیں بلند کرتے دیکھا ۔ جب سبھی مسافر سیٹوں میں بیلٹ باندھ کر بیٹھے تھے تب وہ میڈیکل اسٹوڈنٹ کاک پٹ میں کپتان کی سیٹ کے عقب میں ایر ہوسٹس کے ساتھ کھڑی جہاز کی لینڈنگ دیکھتی تھی ۔
اس سفر میں اس نے کئی ہستیاں دیکھیں ۔ منیر نیازی صاحب کے ساتھ بھی اسے سیٹ ملی۔ مرتضی برلاس بھی دیکھے ۔ گھر جا کے جب یہ خبر فخریہ بتائی تو سب خوش ہوئے لیکن اگلے ہی دن غالبا جنگ اخبار میں منیر نیازی صاحب کا کالم جو جہاز کے سفر نامے اور ان سے اگلی نشست پر تشریف فرما دو فیشن ایبل خواتین کی بےمغز گفتگو پر ان کے طنزیہ تبصرے پر مشتمل تھا،نے گھر بھر میں اس کی بھد اڑانے کا شافی بندبست کر دیا تھا ۔
اسی سفر میں ایک ویل آف حضرت اور ایک اسٹائلش خاتون کا ابتدائے سفر میں تعارف اور انتہائے سفر میں ٹیلیفون نمبرز کے ساتھ ساتھ انتہائی والہانہ مسکراہٹ کے تبادلے کو اس لڑکی نے نہائت حیرت سے دیکھا کہ کیا ڈیڑھ گھنٹے کی عارضی شناسائی اتنی جلدی اتنی گہری بھی ہو جایا کرتی ہے ۔
کہاں ایک چھوٹی سی یاد لکھنے بیٹھی تھی کہ یہ تو سلسلے ہوئے ۔۔