گزشتہ دنوں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کانووکیشن تقریب کے دوران ایک بھارتی نژاد امریکی طالبہ ’شروتی کمار‘ نے اپنی کلیدی تقریر میں غزہ اور غزہ کے حامیوں سے اس انداز میں اظہار یکجہتی کیا کہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ہکا بکا رہ گئی اور وہ اسے ڈگری عطا کرنے سے پہلے، اس کی تقریر سننے پر مجبور ہی رہی۔ کیونکہ سامنے موجود تمام طلبا و طالبات شروتی کمار کے ہر جملے پر غیرمعمولی پرجوش انداز میں تالیاں پیٹ رہے تھے۔
اس قدر زیادہ دادوتحسین کی شاید شروتی کمار کو بھی توقع نہیں تھی۔ ان کی بدن بولی، چہرے کے تاثرات یہی ظاہر کر رہی تھی۔ انھوں نے جیسے ہی یہ تقریر کی، ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے لگے۔ پھر لوگ شروتی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک پہنچنے لگے۔ اور وہاں بھی اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کرنے لگے۔ لوگوں کی طرف سے دادوتحسین کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شروتی کمار کا انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اب تک مجموعی پینتیس پوسٹس لگی ہیں۔ پینتیسویں پوسٹ ہاورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی کلیدی تقریر ہے۔ پہلی چونتیس پوسٹس میں سے بتیس پوسٹوں پر لائکس کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے، دو پوسٹوں پر لائیکس کی تعداد بارہ سو، تیرہ سو ہے لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے کلیدی خطاب کو ملے ہیں گیارہ ہزار سے زائد لائیکس۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے، اس وقت لائیکس کی صورت حال اسی قدر تھی۔
اسی حوالے سے ایک بات کہنا بہت ضروری ہے، جو اس مضمون کا حاصل ہوگا، لیکن وہ بات اس تحریر کے آخری حصے میں لکھی جائے گی۔ پہلے جانتے ہیں کہ شروتی کمار نے مزید کیا کہا جو اس قدر مقبول ہوا۔
شروتی کمار نے کہا’مجھے افسوس ہے کہ ان حالات میں طلبہ غزہ کے لیے آواز بلند کررہے ہیں، اساتذہ غزہ کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ہارورڈ تک ہماری آواز نہیں پہنچ رہی ہے۔‘
امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والی بھارتی نژاد طالبہ نے غزہ پر اسرائیل کی جاری نسل کشی کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کے خلاف یونیورسٹی کی من مانی کارروائی پر ہارورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ شروتی کمار کا تعلق امریکی ریاست ’نبراسکا‘ سے ہے۔ واضح رہے کہ انھیں گریجویشن مکمل کرنے والے طلبہ کے کانووکیشن کی تقریب میں کلیدی تقریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ ’مَیں آج یہاں کھڑی ہوں لیکن مجھے اپنے اُن ساتھیوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے، انہیں پہچان دلانی چاہیے جو یہاں نہیں ہیں۔ سن دوہزار چوبیس کے بیچ سے آج میرے 13 ساتھی فارغ التحصیل نہیں ہوں گے۔‘
واضح رہے کہ ہارورڈ کرمسن کے مطابق 13 فلسطینی اور ان کے حامی طلبا کو کیمپس میں ہونے والے احتجاج میں ان کی فعال شمولیت کی وجہ سے فارغ التحصیل ہونے سے روک دیا گیا، حالانکہ یونیورسٹی کے فنون اور سائنس کی فیکلٹی کی اکثریت نے طلبا کو ڈگریاں دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی گورننگ باڈی ہارورڈ کارپوریشن نے ان طلبا کو ڈگری نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
شروتی کمار کی تقریر کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ نے اُن 13 طلبا کے ساتھ یکجہتی کے لیے واک آؤٹ کیا جنھیں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے پر ڈگری جاری نہیں کی گئی تھی۔
یونیورسٹی کی جانب سے شروتی کو تقریر کا اسکرپٹ فراہم کیا گیا تھا لیکن انھوں نے وہ اسکرپٹ نہیں پڑھا بلکہ اپنے گریجویشن گاؤن کی آستین سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جس پر ان کے اپنے خیالات درج تھے۔اور پھر اسی کی بنیاد پر تقریر کی۔ ان کی تقریر کا زیادہ حصہ فی البدیہ تھا۔
شروتی کمار نے کہا کہ ’مَیں کیمپس میں اظہار رائے کی آزادی اور سول نافرمانی کے حق کے لیے عدم برداشت دیکھ کر سخت مایوس ہوئی ہوں۔ اس (غزہ اور غزہ حامی طلبا کے لیے) پر طلبہ نے آواز بلند کی ہے، اساتذہ نے آواز بلند کی ہے، ہارورڈ! کیا تم ہمیں سن سکتے ہو؟‘
تالیوں کی گونج کے درمیان شروتی کمار نے مزید کہا کہ ’موسم خزاں میں، ہارورڈ میں سیاہ فام اور براؤن طلبا کے ساتھ ساتھ، میرے نام اور میری شناخت کو بھی عوامی سطح پر نشانہ بنایا گیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے رنگ اور نسل کے اس امتیازی طرزعمل نے ہماری ملازمتوں کو غیر یقینی بنا دیا، ہمارے تحفظ کو غیر یقینی بنادیا، ہماری فلاح و بہبود کو غیر یقینی بنا دیا۔‘
’ہم غزہ کے واقعات پر اپنی کمیونٹی میں شدید تقسیم اور اختلاف کے لمحے میں ہیں۔ میں پورے کیمپس میں درد، اضطراب اور بے چینی دیکھتی ہوں۔ لیکن اب ہم میں سے اکثر نے ان واقعات سے نظر پھیر لینے ہی میں عافیت جانی ہے۔ ہم نہیں جاننا چاہتے کہ نسلی طور پر نشانہ بننا کیسا ہوتا ہے۔ شاید، ہم نہیں جاننا چاہتے کہ تشدد اور موت کا سامنا کرنا کیسا ہوتا ہے، لیکن ہمیں سب کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یکجہتی کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ ہم کیا جانتے ہیں کیونکہ، نہ جاننا ایک اخلاقی موقف ہے۔ بس! ہمیں صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھ کر درست راستہ منتخب کرنا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ شروتی کمار اپنے سامنے موجود بے خبر یا بے خبری کو راہ فرار کے طور پر اختیار کرنے والے طلبا و طالبات کو غزہ کے واقعات سے آگاہ کر رہی تھیں اور ان طلبہ و طالبات کے بارے میں بتا رہی تھیں جنھوں نے غزہ کے لیے آواز بلند کی تھی۔
بعد ازاں شروتی کمار نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں ان سب لوگوں کو شکریہ ادا کیا جنھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ان کی تقریرکے لیے زبردست حمایت کی، اور جس کا عنوان تھا ’نہ جاننے کی طاقت۔‘ اس تقریر کی تیاری کے آغاز میں انھوں نے محسوس کیا کہ کہنے کے لیے صحیح الفاظ تلاش کرنا ایک ناممکن کام ہے۔ ان میں تقریر کی تیاری اور پھر اسے کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ پھر وہ بعض یونیورسٹی پروفیسرز سے لے کر دوسرے طلبا تک نے ان کی مدد کی جس نے شروتی کمار کو طاقت کے ساتھ حوصلہ فراہم کیا۔ وہ کہتی ہیں گریجویٹس کی تقریب سے ایک رات پہلے، انھوں نے خدا سے درخواست کی کہ وہ انھیں طاقت، ہمت اور بہادری دے تاکہ وہ وہی کچھ کرسکیں جو انھوں نے بعدازاں کیا۔ وہ کہتی ہیں ’ اس دن اسٹیج پر کھڑے ہوئے، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا یہ وہی تھیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ اس وقت وہ ناقابل تصور درد اور الم محسوس کر رہی ہیں۔’ مجھے انسانیت کے لیے امید برقرار رکھنی ہے۔ اس وقت جاری موت اور غم ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ ہم اسے نظر انداز کر سکیں یا اس معاملے میں غیر جانبدار رہ سکیں۔ چاہے 30 افراد کا گروپ ہو یا 30,000 کا، میں آپ کو بولنے کی ترغیب دیتی ہوں!!‘
شروتی کمار کی تقریر سن کر، مجھے ایک خیال بہت زیادہ ستانے لگا ہے کہ بہت سی تصاویر میں انتہائی مختصر لباس پہننے والی، ہندو لڑکی ان تمام مسلمانوں سے بہتر ہے جو زہد و اتقا کے مینار بنے رہتے ہیں لیکن غزہ میں قریباً چالیس ہزار، بچوں، خواتین اور مردوں کی شہادتیں دیکھ کر بھی انھیں کوئی رحم نہیں آرہا۔ وہ رقیق القلب نہیں ہورہے۔ وہ غزہ کے مظلومین کے حق میں ایک حرف ادا کرنے پر تیار نہیں، وہ اسرائیل کی صہیونی حکومت کی مذمت کو تیار نہیں۔ ایسے مسلمانوں سے بہتر ہیں وہ ہندو، عیسائی، یہودی اور ملحدین جو واشنگٹن، نیویارک، لندن، پیرس سمیت دنیا بھر کے مختلف شہروں اور مقامات پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات آپ کی طبعیت پر گراں گزرے تو جان کی امان طلب کرتا ہوں۔
اس تحریر کے پہلے حصے میں جس ’حاصل‘ کا ذکر کیا تھا، وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر کچھ کام کرنے چاہئیں۔ یقیناً وہ کام غزہ کے مظلومین کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے اور ظالموں کے لیے مہلک۔ اگر فلسطینیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل سے لڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو کم از کم ہم فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر کی رائے عامہ کو کھڑا کر سکتے ہیں، شروتی کمار اور ایسے ہی ہر فرد کی باتوں اور کردار کو داد و تحسین کے ذریعے سپورٹ کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ لوگ مزید سرگرم کردار ادا کریں گے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ شروتی کمار کو غزہ کے حامی طلبہ کے حق میں آواز بلند کرنے سے جو غیرمعمولی حوصلہ افزائی ملی ہے، کیا وہ غزہ والوں کے لیے مزید کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں کرے گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے ہر فرد کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ بالخصوص اسرائیل کے اندر بلند ہونے والی جنگ مخالف آوازوں کو مزید زوردار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا، برطانیہ ، فرانس، جرمنی سمیت دنیا بھر کے جنگ مخالف طبقہ کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹوٹی پھوٹی عبرانی، انگلش، فرنچ، جرمن، ڈچ ، عربی زبان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ کیا آپ یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
بادبان: عبید اللہ عابد
2 پر “شروتی کمار بہت سے مسلمانوں سے کیوں اچھی ہیں؟” جوابات
جب مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے۔۔۔ بلکہ مسلمان کہاں ہیں؟؟۔۔۔ راکھ کاڈھیر۔۔۔۔ شیعہ ہیں۔۔۔ یہ سنی ہیں۔۔ یہ سلفی ہیں۔۔اہلحدیث ہیں۔۔ مسلمان امت کا وجود ہوتا تو اور چاہیے کیاتھا۔۔۔زہد و اتقا کے بے بنیاد کے مینار دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں اللہ کو نہیں۔۔ ان کانام نہاد،، زہدو تقوی،، انھیں خول میں بند کر گیا۔۔۔ تو پھر شروتی کمار جیسے لوگ غنیمت ہیں۔ اس وقت اشد ضرورت ہے اس امر کی کہ غزہ کے حق میں جو آواز اٹھائ جائے اسکاتسلسل برقرار رہے۔ اس میں شدت آئے ۔
بے مثل۔۔۔ تقریر بھی۔۔ اور تحریر بھی۔۔۔۔قابل داد وہ ہندو لڑکی۔۔۔ جس نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا درد محسوس کیا ۔۔۔۔۔۔ اور بے توقیر ہیں وہ منصب دار،متقی،زاہد۔۔۔۔ جو اسلام کاورد کرتے ہیں۔۔۔حمیت نام تھا جس کا وہ گئی تیمور کے گھر سے۔۔۔