پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پرہے ،2023کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔جبکہ 2018 کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 20 کروڑ 76 لاکھ 80 ہزار تھی۔ملک میں شرح خواندگی کی شرح 58.92 فیصد ہے ۔جبکہ تیزی سے بڑھتی آبادی کے سبب دستیاب قدرتی وسائل پر بھی شدید دباؤ کاسامناہے۔اگر آبادی کو بروقت کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک پانی اور توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ بغیر منصوبہ بندی کے بڑھتی ہوئی آبادی سے زرعی اراضی اور اس کے استعمال پر اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔ زرعی اراضی کی دستیابی جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کثرت سے تھی، اس میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری پھیلاؤ میں اضافہ زرعی اراضی کو مزید دباؤ کا شکار بنا رہا ہے۔ زرعی اراضی کےغیر زرعی مقاصد کےاستعمال کے سبب آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے ۔ اس کے واضع اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خورونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے زرعی زمینوں کو بھی تیزی سے رہائشی سکیمو ں میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔مہنگائی کا رونا تو ہر کوئی رو رہا ہے لیکن اس کے اسباب جن میں آبادی سرفہرست ہے کی جانب کوئی توجہ نہیں کر رہا ۔
انہی مسائل کے حل کے لیے آئی آر ایم این سی ایچ(INTEGRATED REPRODUCTIVE, MATERNAL, NEONATAL AND CHILD HEALTH) اینڈ نیوٹریشن پروگرام، محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر پنجاب اور ٹی سی آئی(The Challenge Initiative) گرین سٹار کے تعاون سے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں "خاندانی منصوبہ بندی چیمپئنز” کے عنوان سے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں ، سی ای او ہیلتھ لاہور ڈاکٹر فیصل ملک، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ( ایچ آر، ایم آئی ایس) ڈاکٹر محمد آصف، ڈی سی آئی آر ایم این سی ایچ، لاہور ڈاکٹر فروخ امین، پرونشل لیڈ ٹی سی آئی گرین سٹار ڈاکٹر اسلم باجوہ، پرونشل لیڈ جیپائیگو فرقان نصیر، چیئرپرسن آئی آر ،پنجاب یونیورسٹی ، ڈاکٹر ڈاکٹر عرونا، ایڈیشنل ڈائریکٹر ای پی آئی ، ڈاکٹر ثمرہ، نمائندہ سول سوسائٹی ڈاکٹر کلثوم ،میڈیا ، اساتذہ، علماء، اور میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔تقریب کا مقصد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو خاندانی منصوبہ بندی کی معلومات فراہم کرنا اور انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے چیمپئنز بنانا ہے۔۔ تقریب کے آغاز میں ڈسٹرکٹ کارڈینیٹر، آئی آر ایم این سی ایچ، ڈاکٹر فروخ امین نے شرکاء کا استقبال کیا اور ورکشاپ کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے ٹی سی آئی گرین سٹار کے کردار کو سراہا۔ پرونشل لیڈ ٹی سی آئی گرین سٹار ڈاکٹر اسلم باجوہ نے پاکستان کی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی اور ٹی سی آئی گرین سٹار، اس کے مقاصد اور حکومتی اداروں کے ساتھ اس کی کاوشوں پر روشنی ڈالی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنیئر منیجر ٹی سی آئی جی ایس ایم ڈاکٹر ہرا نے کہا کہ شاہ جہاں کا تاج محل جو اس نے اپنی بیوی کی وفات پر بنوایا وہ اتنا سود مند نہیں جتنا کہ دشرات مان جی نے ایک ہتھوڑے سے سڑک بنا کر کیا ،فرق اتنا ہے کہ شاہ جہاں کی بیوی اس کے 14 ویں بچے کی ولادت کے وقت انتقال کر گئی جبکہ دشرات مان جی اپنے ہاں پہلے بچے کی ولادت کے لیے اپنی بیوی کو ہسپتال لے جارہا تھا راستے کا پہاڑ اس کی بیوی اور اس کے بچے کی جان لے گیا جس سے اس نے اس پہاڑ کو ایک ہتھوڑے کی مدد سے توڑ توڑ کر راستہ بنایا تاکہ کسی اور کی عورت اس طرح فوت نہ ہو ۔انہوں نے مزید کہا تیزی سےبڑھتی بے ہنگم آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے ،یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل کر اس پر کام کریں ۔
اس موقع پر اے ڈی، ای پی آئی ڈاکٹر ثمرہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر آٹھ منٹ بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ،بڑھتی آبادی کے سبب ٹریفک ،کھانے پینے اور دیگر مسائل کا ایک انبار ہے ۔بچے کی پیدائش کے پہلے ہزار دن بہت اہم ہوتے ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ "خاندانی منصوبہ بندی” کے پیغام کو موثر طریقے سے معاشرے میں پہنچانے کے لیے باہمی روابط کا مضبوط ہو نا بہت ضروری ہے ۔ انہوں نےشرکاء کو خاندانی منصوبہ بندی اور ویکسینیشن کے تعلق کے متعلق آگاہ کیا اور اسے فروغ دینے پر زور دیا۔ڈی ایچ او ( پی ایس) ڈآکٹر محمد آصف نے شرکاء کو خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقہ کار سے آگاہ کیا۔ اے ڈی ای پی آئی ، ڈاکٹر ثمرہ نے شرکاء کو خاندانی منصوبہ بندی اور ویکسینیشن کے تعلق کے متعلق آگاہ کیا اور اسے فروغ دینے پر زور دیا۔ علماء کی کثیر تعداد نے معاشرے میں آبادی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے پر زور دیا اور اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا اعادہ کیا۔تقریب میں پینل ٹاک کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں علماء، اساتذہ کرام، اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت و افادیت پر تفصیلی گفتگو کی اور آبادی کے پھیلاؤ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے فروغ دینے کی تدابیر پر بھی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عرونا، چئیر پرسن انٹرنیشنل ریلیشنز ڈپارٹمنٹ ، پنجاب یونیورسٹی کا کہناتھا کہ خاندانی منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس لیے یہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ذمہ داری کے کہ وہ اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کے طوفان سے بچایا جا سکے۔
ایک تبصرہ برائے “پاکستان میں بڑھتی آبادی۔۔۔۔۔۔۔۔اسباب،اثرات اور تدارک میں کمیونٹی کا کردار”
ترقی یافتہ ممالک میں کتنی اراضی غیر آباد پڑی ہے۔ اپنے ملک میں بلوچستان اور سندھ کے کئ علاقے آپ کومعلوم ہوگا غیر آباد پڑے ہیں۔منصوبہ بندی یہ نہیں ہوتی کہ آپ فطرت کے معاملات میں چھیڑ چھاڑ کردیں۔۔۔ہاں مگر سرمایہ دارانہ نظام کایہی طریقہ واردات ہے۔ ۔۔۔
بات کی جائے اپنے ملک کی۔۔۔ خواتین مانع حمل دوائیاں کھا کھا کے صحت برباد کر بیٹھی ہیں۔۔ بڑے بڑے سیٹھ وجاگیردار ڈھیر سارے وسائل پہ قبضہ جما کے بیٹھے ہیں۔ شادیاں ناکام اور طلاق کی شرح میں اضافہ روز افزوں ہے۔ حکومتوں کی پالیسیوں سے لوگ خود کشیاں کررہے ہیں۔۔۔ ہسپتالوں میں علاج نہ ملنے سبب مر رہے ہیں۔ ۔۔۔اور آپ کیا چاہتے ہیں؟؟؟ہو سکے تو پیش کردہ اعداد وشمار اس بڑے ناگ کے منہ پہ دے ماریے جا کر کہ جو اپنے خاندان اور گماشتوں کے ہمراہ پورے ملک کے وسائل پہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔۔۔غریب کے لیے ہی سارے ٹوٹکے کیوں؟؟؟؟روٹی کا لقمہ تو اس سے چھین لیا اس نظام نے ، مطالبہ ہے کہ افزائش نسل کے فطری حق سے بھی باز آجائے۔کیوں؟؟؟؟؟؟ بھئ نظام بدلے گا تو سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ منصوبے کے تحت نئے شہر۔۔۔ شہروں میں صنعت وحرفت کاقیام۔۔۔ پیداواری استعداد کی صلاحیت کے مطابق تقسیم و گروتھ۔۔۔۔۔
یہ سب ہوگا تو آبادی بڑھنے کا غم آپ کی جان ہلکان نہیں کرے گا