اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ والے گھر میں کوئی غیر مسلم رہتا ہو، وہ عیسائی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا یہودی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔ اس گھر کے لوگ کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں، ان پر کوئی مشکل آن پڑے اور وہ کسی کی مدد کے طلب گار ہوں تو ہمارا طرزعمل کیا ہوگا؟
ہم فوراً ان کی مدد کو لپکیں گے
یا
اپنے گھر میں بیٹھے رہیں گے کہ اچھا ہے، یہ غیر مسلم مصیبت اور مشکل سے دوچار ہوا،
ہمارا طرزعمل کیا ہوگا بھلا؟
اگر ان کا کوئی فرد ایکسیڈنٹ کا شکار ہوا اور جاں بحق ہوگیا
تو بھی ہمارا کیا یہی طرزعمل ہونا چاہیے کہ اچھا ہے ایک غیرمسلم مرگیا؟؟؟؟
اس سوال پر پہلے اچھی طرح سوچ لیجیے، اپنے آپ کو کسی نتیجے پر پہنچا لیجیے، پھر آگے بڑھتے ہیں۔
اگر آپ مجھ سے میری رائے جاننا چاہیں تو
مجھے تو غیرمسلم کی مدد کے لیے فوراً لپکنا خوبصورت عمل محسوس ہوتا ہے، جبکہ دوسرا طرزعمل انتہائی کمینہ پن لگتا ہے۔
ذرا تصور کریں ایک ایسی دنیا کا جہاں ہر کوئی دوسرے کی مدد کے لیے لپک رہا ہو، مسلمان غیر مسلم کے لیے اور غیرمسلم مسلمان کی مدد کے لیے سرگرم ہو۔ کوئی کسی کے نقصان کی تمنا نہ کرے، اس کی مصیبت پر خوش نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ کیسی لگے گی یہ دنیا آپ کو؟؟؟؟ خوبصورت دنیا ؟
یہ سارے سوال گزشتہ چند روز سے میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
اس کا سبب کیا تھا؟
گزشتہ دنوں ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی اپنے ساتھیوں سمیت ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اگرچہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن تھی۔ تاہم مجھے ان کا یہ طرزعمل اچھا نہیں لگا۔
اولاً ڈاکٹر ابراہیم رئیسی غیرمسلم نہیں تھے، بس! ایک دوسرے مسلک کے تھے، مجھے اس مسلک کے بعض نظریات و افعال سے کسی بھی طور پر اتفاق نہیں ہے، علامتی طور پر بھی اتفاق نہیں کرپاتا لیکن یہ کس قدر کمینہ پن ہوگا کہ میں ان کے جاں بحق ہونے پر خوشی مناؤں۔
ہم اس خاتم النبیین ﷺ کے امتی ہیں جنھوں نے اپنے بدترین مخالف بلکہ دشمن عبداللہ بن ابی کی موت پر خوشی نہیں منائی تھی بلکہ غم زدہ ہوئے تھے حتیٰ کہ اسے کفن کے لیے اپنی چادر عطا کی اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے طلبگار ہوئے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دشمن اور مخالفین کے لیے سراپا خیرخواہی تھے۔ کیا کوئی ایک بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ انھوں نے دشمن کو ملنے والی تکلیف پر مسرت محسوس کی ہو یا اس کی موت پر خوشی منائی ہو؟
ہر کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس عمل کی تعریف کرتا ہے، اسے اپنی تحاریر اور تقاریر میں بطور نمونہ پیش کرتا ہے کہ میدان جنگ میں دشمن سپہ سالار بیمار ہوا تو سلطان نے نہ صرف جنگ روک دی بلکہ دشمن سپہ سالار کے علاج معالجہ کے لیے اپنا حکیم بھیج دیا۔ جب تک وہ صحت یاب نہیں ہوا، سلطان جنگ کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
یہ روشن مثالیں صرف بیان کرنے کے لیے نہیں، ان سے اپنی ذات کے لیے بھی روشنی حاصل کرنا ہوتی ہے۔
ذرا ! سوچیں تو سہی کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم معاشرے میں ہے، وہ وہاں مشکل ، مصیبت میں گرفتار ہو جائے اور غیرمسلم اس سے لاتعلق رہیں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ اگر مسلمان وہاں جاں بحق ہوجائے اور غیرمسلم اس پر خوشیاں منانا شروع کردیں تو آپ کو کیسا لگےگا؟
دوستو!
اس دنیا سے نفرت کو ختم کرنے میں پورے اخلاص سے اپنا کردار ادا کریں، نفرت بہت پھیل چکی۔ یہ نفرت اس دنیا کو بھسم کر رہی ہے، اب کچھ ایسا کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا محبت اور پیار اور اخلاص سے بھر جائے۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی، ان کے ساتھیوں کی۔ آمین
ہم ایرانی قوم سے تعزیت کرتے ہیں کہ وہ اپنے بہترین قائدین سے محروم ہوگئی۔
2 پر “ڈاکٹر ابراہیم رئیسی اور ساتھیوں کی موت پر خوشی منائی جائے؟” جوابات
بالکل درست کہاآپ نے۔ نفرت کے بیج بونے والے اگر ذرا سی دیر کے لیے یہ یاد کر لیں کہ اس کی آگ میں وہ خود بھی جھلسیں گے تو یہ ان کے حق میں اچھا ہو
ابراہیم رئیسی ایک قابل احترام شخصیت تھے۔ امت مسلمہ کے نمایاں شخصیات میں شمار ہوتا ہے ان کا۔
لیکن۔۔۔۔ اس سب کا شعور تو اسے ہو جسے امت کا مطلب سمجھایا ہو خسی نے
یا پھر اسے کم ز کم اپنی اس دنیاکی فکر ہو کہ جس کے حسن کو نفرت کی آگ نے بد نما کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے
فکرو شعور سے آراستہ خوب صورت تحریر ۔۔۔ واقعی ہم سب کو سوگ وار ہونا چاہیے ۔۔ کہ ایک ایسا شخص جو امت کے ساتھ اپنا رشتی مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہا تھا اچانک راہ عدم کا مسافر ہوا۔۔ ان کی اور ساتھیوں کی موت کسی سانحے سے کم نہیں۔۔ ۔۔کاش ہم تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچیں۔۔۔ ۔