برج میلاد دیکھنے کے بعد ہم ٹیکسی میں ہوٹل آئے جہاں ہمارے لیے گلزار ہال میں ڈنر کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہاں پر ہمارے ٹیبل کے گرد عطاءاللہ، واجد، مونس اور حفیظ بیٹھ گئے۔ کھانے میں کباب، سلاد، چاول، مشروبات اور پڈنگ شامل تھی۔ اس کے بعد ہم میر حمید میر کی سربراہی میں ہوٹل سے باہر قریبی کھانے پینے کی ایک جگہ پر گئے۔ راستے میں ایک چوک پر لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا بوس و کنار میں مصروف تھا۔ ہمارے گروپ میں سب سے کم عمر نوجوان ممبر نے زور سے میرا ہاتھ دبا کر پوچھنے کے سے انداز میں بتایا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ جو کچھ ہورہا ہے، ہونے دو۔ہم یہاں مہمان ہیں۔ اس پر ان کو شاک لگا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان۔ سفرنامہ، قسط:1
ایران کشور جہان۔ سفرنامہ، قسط:2
ایران کشور جہان۔ سفرنامہ، قسط:3
ایران کشور جہان۔ سفرنامہ، قسط:4
بہرحال ہم نے وہاں پر آئس کریم کھائی جس میں بادام، پستہ، کاجو اور اخروٹ ڈالا گیا تھا اور پھر ایک شربت سے لطف اندوز ہوئے۔ اس کے بعد واپس کمرے میں آکر نمازیں ادا کیں اور پھر آرام سے سوگئے۔ یوں تہران میں ہمارے پہلے دن کا اختتام ہوا۔
انتیس اپریل دو ہزار چوبیس
صبح اٹھے اور ناشتے کے لیے نیچے لابی میں آئے۔ یہاں ہماری مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ میں، عطاءاللہ اور حفیظ اپنی اپنی پلیٹوں میں پسند کی چیزیں لاتے اور خوش گپیوں کرتے ہوئے کھاتے چلے جاتے۔
واجد اور مونس آج ناشتہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ شاید کل والی بھوک نے کچھ سبق سکھا کر ان کو جلدی نیند سے بیدار کردیا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ شہد کے جو ساچے رکھے ہوئے تھے ختم ہوگئے تھے۔ پتہ چلا کہ کچھ مہماںوں نے حسب ضرورت کھانے کے علاوہ تحفے کے طور پر اپنے ساتھ بھی رکھ لیے تھے۔ ناشتے میں پاکستانیوں کے علاوہ بہت سے ممالک کے مہمان بھی تھے۔
کچھ ہی دیر میں مہمانوں کو ایکسپو لے جانے والی بس میں بیٹھ کر ایکسپو پہنچ گئے۔ میں آج بس میں دائیں طرف والی کھڑکی کی جانب بیٹھ گیا اور تہران کا بہت تفصیل سے نظارہ کرنے لگا۔ راستے میں پل طبیعیات کے پاس سے گزرے، یہ بہت ہی خوبصورت ٹورسٹ ایریا بنایا گیا۔ سڑک کے کنارے پھولوں کو خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ اوپر ایک اسٹیل کا زبردست پل نظر آیا جو انجینئرنگ کا شاہکار لگ رہا تھا۔ میں نے دوستوں سے ذکر کیا تو پتہ چلا کہ ہمیں پل طبیعات جانا ہے۔ لیکن وقت کی کمی کے سبب یہ خوبصورت ٹورسٹ ایریا دیکھنے سے رہ گیا۔آپ اگر تہران جائیں تو اس کو ضرور دیکھنے جائیے گا۔
ایکسپو میں آج میرا پروگرام تھا کہ میں زیادہ وقت فوڈز والے ہالز میں گزاروں گا۔ انٹرویوز کے ساتھ ساتھ کچھ پروڈکٹس اور کمپنیز کے سٹالز وزٹ کروں گا تاکہ ان کی ڈسٹری بیوشنز لے سکوں۔ میں اور حفیظ ہالز نمبر 8-9 میں چلے گئے، مختلف اسٹالز کو دیکھا، ایک کمپنی کی پروڈکٹس کو پسند کیا، ان کے ساتھ کاروباری معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔ کوالٹی اور قیمتیں مناسب لگیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا۔
یہاں گلف فوڈز دبئی کے اسٹائل میں تمام اسٹالز کو سجایا گیا تھا۔ ایران فوڈز پروڈکٹس میں کافی ترقی کر گیا ہے۔ تقریباً ہر اسٹال پر وزیٹرز کو اپنی مصنوعات پیش کی جا رہی تھیں۔ یوں ہم بھی مختلف اسٹالز پر مختلف چیزوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، خاص طور پر جوسز اور بسکٹس، اسنیکس سے۔ اس دوران علی اصغر کتری بھائی نے حکم دیا کہ ایک خشک دودھ پروسس کرنے والی کمپنی کے ایکسپورٹ ڈائریکٹر کا انٹرویو کرنا ہے۔ چنانچہ ہال نمبر 10 چلے گئے۔
زگشیر کمپنی والوں سے کاروباری معاملات پر گفتگو ہوئی اور ان کی مصنوعات پاکستان امپورٹ کرنے کے لیے بات چیت ہوئی۔ زگشیر کمپنی کے پاس 46 ہزار دودھ دینے والی گائیں اور بھینسیں موجود ہیں۔ یہ اپنی مصنوعات کئی ملکوں کو ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا، انٹرویو کے اختتام پر انہوں نے ایک خوبصورت گفٹ پیش کیا۔
ہر کمپنی کے اسٹال پر ایرانی خواتین کا کردار دیکھا۔ وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر کام کررہی ہیں۔ باوقار انداز میں انہوں نے ہمیں اپنی کمپنیز کا تعارف کرایا۔ وہ باہر ملکوں میں ایرانی مصنوعات بھیجنےکے لیے بہت زیادہ پرجوش انداز میں کسٹمرز کو ڈیل کررہی تھیں۔ ہالز کے وزٹ کے دوران یہ مشاہدہ ہوا کہ ایرانی کمپنیز اور حکومتی اہلکار عربوں اور چائینیز کو بہت زیادہ پروٹوکول دے رہی تھیں۔
ہمارے دوستوں نے کہا کہ ہمیں چابھار فری زون والوں کا بھی انٹرویو کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ چلیں یہ تو بہت اچھا ہے کہ ہمیں معلومات ملیں گی اور ہم مستقبل میں چابھار میں کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔
ایکسپو میں ایران کے فری زونز کا الگ ہال میں انتظام کیا گیا تھا۔ ایران نے ہر سرحدی علاقے اور بارڈر کراسنگ کے علاقے میں فری زون بنائے ہیں جہاں مقامی لوگوں کو کاروبار کی سہولتیں دی گئی ہیں۔ ہم فری زونز کے ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں تو نظارہ ہی کچھ اور ہے۔ پرجوش انداز میں لوگ اپنے اپنے فری زونز میں موجود کاروبار کی سہولتوں اور اس کی اہمیت کے بارے میں وزیٹرز کو بریف کررہے تھے۔ چابھار فری زون کے اسٹال پر میر حمید میر اور علی اصغر کتری کی وجہ سے ہمارا پرجوش استقبال کیا گیا۔ اور پھر انہوں نے اپنے سوشل میڈیا کے چینلز کے لیے میرا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا۔ وہاں پر بھی میں نے دیکھا کہ خواتین لیڈ کررہی ہیں۔
ایک خاتون اچھی بلوچی بول رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بلوچ ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ بلوچ نہیں مگر بلوچی اچھی بول لیتی ہیں۔ ان کے ڈائریکٹر کو ’ریٹیلر میگزین‘ پیش کیا۔ انٹرویو کے لیے ان کو اجازت لینا تھی اور ہمیں دوسری جگہوں پر جانا تھا۔ ہم وہاں سے گھومتے گھومتے دوستوں کو تلاش کرتے رہے۔ سب دوست ملے تو لنچ سے محظوظ ہوئے۔ مجھے تو ان کا انتظام بہت اچھا لگا۔ ہر شخص اطمینان اور سہولت سے کھانا کھا رہا تھا۔ ہم کھانا لے کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے جہاں پہلے ہی ایک لڑکی اور خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان سے اجازت لے کر، وہاں بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔
کچھ دیر بعد لڑکی نے ہم سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے ہیں؟ پھر خود ہی کہنے لگی کہ وہ افغان ہے اور پاکستان کا وزٹ کرچکی ہے۔ اس کی امی کینسر کی مریضہ تھیں اور علاج کے لیے پاکستان جانا چاہتی تھیں مگر ویزہ نہیں مل رہا ہے۔ وہ لڑکی بہت ماڈرن اور لبرل لگ رہی تھی۔ نہیں لگتا تھا کہ اس کا افغانستان سے تعلق ہے۔ وہ ہمارے گروپ کے ممبرز سے بے تکلف ہوگئی۔
نثار لال نے میرے کان میں سرگوشی کے سے انداز میں کہا کہ احتیاط کریں، یہ کسی ملک کی خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بہت تجربہ ہے کہ ایسے میلوں اور کانفرنسز میں ایسی جو خواتین فوراً بے تکلف ہوجاتی ہیں، وہ کسی ایجنڈے پر ہوتی ہیں۔
پھر نثار لال نے اس سے پوچھا ’ آپ کے ساتھ جو خاتون ہیں، یہ آپ کی ماں نہیں ہیں۔‘ خاتون نے جواب دیا ’ نہیں، یہ میری ماں ہی ہیں۔‘ اس نے خاتون سے کہا’ میں نہیں مان سکتا، کیونکہ اس کی اور آپ کی عمر میں جو فرق ہے، وہ ظاہر کر رہا ہے کہ آپ دونوں ماں بیٹی نہیں ہیں۔ پھر نثار لال نے خاتون سے براہ راست سوال کرلیا کہ وہ کس کے لیے کام کررہی ہیں؟ اس نے گول مٹول جواب دیا۔ چنانچہ نثار لال نے مجھے وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا اور ہم چلے گئے۔
ہم نے کھانا ختم کیا اور نماز کی ادائیگی کے لیے امام بارگاہ میں چلے گئے۔ آج عطاءللہ نے بھی ہمارے ساتھ امام بارگاہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اکھٹی ادا کیں۔
آج دوستوں نے پروگرام بنایا تھا کہ شام کو تہران کے ایک قدیم بازار تجریش جائیں گے اور واپسی پر تہران میٹرو کو انجوائے کریں گے۔ ٹیکسی میں میرے ساتھ حفیظ، سجاد، مسلم اور ڈاکٹر خالد بیٹھ گئے۔ آج ہم جن علاقوں سے گزر رہے تھے، وہ تہران کم یورپین اسٹائل کے علاقے لگے۔ گھروں کا اسٹائل اور طرز تعمیر، گلیاں اور سڑکیں یورپ سے کافی مماثلث رکھتی تھیں۔ تجریش بازار قدیم ایرانی بازار ہے۔ اس کو زبردست انداز میں قائم و دائم رکھا گیا ہے۔
بازار کے شروع میں ایک لڑکا کیتلی میں ایرانی قہوہ بیچ رہا تھا۔ دوست اس سے لطف اندوز ہوئے۔ اس کے پاس ادائیگی کیلیے کارڈ مشین موجود تھی۔ ایران مکمل طور پر ایک کیش لیس سوسائٹی بن رہا ہے۔ ہر جگہ آپ کو کارڈ لیس ٹرانزیکشن کی سہولت ملے گی۔ آپ نے اگر ایران میں اپنے پاس کارڈ نہیں رکھا تو سمجھیں کہ آپ فقیر اور غیر مؤثر ہیں کیونکہ کیش بہت زیادہ رکھنا پڑے گا جو آپ سنبھال نہیں سکیں گے۔
تجریش بازار میں ایک خشک فروٹس کے دکاندار نے زعفران کی چائے پلائی جو ایک پرلطف تجربہ رہا۔ زندگی میں پہلی بار زعفران کی چائے نوش فرمائی۔ ییلو کلر کی چائے بنتی ہے۔ یہاں چاول پر بھی زعفران کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ اس بازار کے وزٹ کے دوران مجھے واش روم جانا تھا۔ قریبی امام بارگاہ کے واش رومز کو استعمال کرنے کے لیے میں سجاد اور مسلم تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے پہنچے۔ خواتین کے لیے زیریں اور مرد حضرات کے لیے بالائی منزل پر واش رومز بنائے گئے تھے۔
یہ واش رومز کسی بھی پنج ستارہ ہوٹل کے واش رومز سے کم نہیں تھے۔ صاف ستھرے اور ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ۔ جب کچھ تازہ دم ہوئے تو ہم نے ایک بندے سے پوچھا کہ کیا ہم امام بارگاہ میں تصویر بناسکتے ہیں؟ اس نے ’ہاں‘ میں سر ہلایا ۔ ہم نے ایک اور نوجوان سے درخواست کی کہ ہماری تصویریں بنائے۔
ہم نے دیکھا کہ خواتین کے لیے ایک کمرہ بنایا گیا تھا جہاں خواتین نماز کے لیے آنے والی خواتین کو کوئی چادر نما چیز دے رہی تھیں۔ لوگ جوتوں سمیت مسجد کے احاطے میں آ اور جا رہے تھے۔ تجرجیش بازار گھومتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ مڈل فیمیلز کا بازار ہے۔ کھانے پینے اور ملبوسات کی دکانیں زیادہ تھیں۔
اس کے بعد پیدل چلتے ہوئے تہران کو دیکھتے رہے۔ کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد تہران کی مشہور شاہراہ پر سرمئی شام کو خوب انجوائے کیا۔
اب جس علاقے میں چل رہے تھے وہ اپرمڈل کلاس کا ایریا لگ رہا تھا۔ خواتین مغربی لباس اور واجبی سے ایک اسکارف کے تکلف میں قید تھیں۔ ایران خوبصورت لوگوں کا ملک ہے۔ اس علاقے میں آزاد خیال لوگوں کی اکثریت تھی۔ ہم فردوس گارڈن کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ لے کر اندر گئے جہاں سینیما اور دانشوروں کے بیٹھنے کی جگہیں تھیں۔
میں اپنے خیالوں مست تھا کہ دوستوں نے کہا کہ کافی شاپ تشریف لائیں، کافی پیتے ہیں۔ اندر کا ماحول ایران جدید تھا اور لوگ خوش گپیوں میں مشغول تھے۔
یہاں سے پھر دو کلو میٹر دور تجرجیش بازار قدیم کے پاس میٹرو اسٹیشن جانا تھا۔ پاؤں میں شدید تھکاوٹ تھی بہرحال چلتے رہے۔ میٹرو اسٹیشن کے دروازے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ سجاد اور مسلم ہمارے ساتھ نہیں۔ ہمارے مقامی ساتھی ان کو ڈھونڈنے اور میزبان میر حمید میر ، ڈاکٹر خالد دوبارہ زرجیشت بازار کی طرف چلے گئے۔ وہ واپس آئے اور کہنے لگے کہ وہ لوگ پیچھے بھی موجود نہیں ہیں۔ ان کا موبائل بھی نہیں لگ رہا تھا۔
ہم سب پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ دونوں نوجوان ہم سے آگے تھے اور اسٹیشن کی ایک منزل کی سیڑھیاں اتر کر ہمارا انتظار کررہے تھے۔ تہران کا میٹرو اسٹیشن ایک انجینئرنگ کا شاہکار ہے۔