شمائلہ-اقبال، ویو پوائنٹ

  غزہ، عارضی جنگ بندی کے بجائے پائیدار امن کی ضرورت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فلسطین، جو سات اکتوبر 2023 سے مسلسل اسرائیلی بربریت کا شکار ہے، کو یہ ظلم سہتے ہوئے قریباً دو سو دن سے زائد ہو چکے ہیں۔۔۔۔مگر اسرائیل کے منہ کو لگے خون کی پیاس میں کمی  آئی نہ  اس کی شدت پسندی میں۔۔۔۔ دنیا میں اس وقت کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیلی جارحیت کا منہ نوچ سکے۔ غیرت مسلمانی کہیں منہ پہ چادر اوڑھے گہری نیند سو چکی ہے جس کے بیدار ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

7اکتوبرسے اب تک غزہ میں 34ہزار 183شہید جبکہ 77 ہزار 143 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقے غزہ میں سب سے زیادہ اسرائیلی جنگ کے شکار خواتین اور بچے ہیں۔ اب تک شہید ہونے والے افراد میں 14 ہزار 500 سے زائد بچے اور 9ہزار 500 خواتین شامل ہیں۔

شہداء کی اصل تعداد کیا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اصل تعداد  مذکورہ بالا اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ابھی تک کئی لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے ان دو سو دنوں میں غزہ کی پٹی پر 75ہزار ٹن بارود برسا کر غزہ کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کر کے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔

7 اکتوبر 2023سے جاری اسرائیلی حملوں میں غزہ کے 3لاکھ 80ہزار سے زائد رہائشی یونٹ اور 412تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی بربریت کے ہاتھوں ہسپتال تک محفوظ نہیں۔ جنگی جنون میں مبتلا اسرائیلی فوج اب تک 32ہسپتالوں اور 53مراکز صحت کو نشانہ بنا چکی ہے۔

انہی اسرائیلی حملوں میں اب تک 556مساجد اور 3چرچ بھی تباہ ہو چکے ہیں جبکہ آثار قدیمہ کے 206مقامات بھی اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک  ہونے والے نقصان کا تخمینہ 30ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری ہیں۔ یہ مظاہرے امریکہ اور فرانس کے بعد آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں تک پھیل چکے ہیں۔ سڈنی یونیورسٹی میں تو طلباء نے احتجاجی کیمپ لگا رکھے ہیں۔ یہ طلباء جہاں آسٹریلوی وزیراعظم کی اسرائیل اور غزہ کے بارے میں پالیسی کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں وہیں حکومت سے غزہ میں تشدد کی شدید مذمت کرنے کے مطالبے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ طلباء کا  یہ بھی مطالبہ ہے کہ اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ اس سے قبل پیرس میں درجنوں طلباء نے سوربون یونیورسٹی کے باہر احتجاج کیا جبکہ یونیورسٹی میں تقریر کے لیے آئے فرانسیسی صدر سے فلسطینیوں کی مدد کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں تاحال  مظاہرے جاری ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی جانب سے مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں طلباء کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہی نہیں اس وقت بہت سے طلباء کو یونیورسٹیز سے نکال بھی دیا گیا ہے۔

7اکتوبر 2023کو غزہ میں جنگ  شروع ہونے کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق 7450فلسطینی حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

فلسطینی قیدیوں کی تنظیم اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے قیدیوں اور رہائی پانے والے  وفد کے مشترکہ بیان میں 7اکتوبر کے بعد  سے جو تازہ ترین معلومات شیئر کی گئی ہیں ان کے مطابق اسرائیلی فورسز  نے مغربی کنارے کے شہروں ہیبرون، بیت الحم ،رام اللہ، طلکریم اور کالکیلیا میں پچھلے چند گھنٹوں کے دوران کم از کم  25فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے۔

 7اکتوبر2023 سے جب اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر حملہ شروع کیا، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی القدس میں فلسطینیوں کے خلاف حراستوں ،چھاپوں اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

غزہ میں جاری جنگ کے مستقبل قریب میں خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا اور اس تنازع سے پورے مشرق وسطیٰ میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ غزہ کے لوگوں کو ہولناک اور مایوس کن حالات کا سامنا ہے۔ ان کی تکالیف اور خطے میں جنم لیتی شورش ختم ہوتی نظر نہیں آتی ۔

غزہ میں ضرورت کے مطابق  امداد نہ پہنچنے کے باعث وہاں کے لوگوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ ان حالات میں وہاں مزید افراتفری پھیل رہی ہے جس سے امداد کی  فراہمی کی راہ میں حائل مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ جنگ میں بے گھر  ہونے والوں کو خوراک، پانی، پناہ اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ علاقے میں متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ نظم ونسق پوری طرح ختم ہونے کو ہے۔

 گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار ٹور وینز لینڈ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ غزہ کے ہنگامی حالات کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف حالیہ بحران سے نمٹنے بلکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے اس مسئلے کے سیاسی حل کی خاطر اجتماعی، مربوط اور جامع اقدامات کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لانے کی غرض سے معاہدے کی ضرورت ہے اور تشدد پر بات چیت کو ترجیح دینا ہو گی۔ بالٓاخر غزہ کے مسئلے کا طویل مدتی حل سیاسی ہی ہوگا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کی واحد اور موثر حکومت کا قیام اور اس کے لیے ایک واضح لائحہ عمل ہونا ضروری ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے لیے بین الاقوامی حمایت کو مضبوط کرنا اور اس میں اصلاحات لانا بھی لازم ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے قبضے کے خاتمے اور دو ریا ستی حل سے متعلق بات چیت کے لیے ایک مقررہ مدت میں سیاسی لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ رفح میں زمینی حملے سے بڑے جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے کونسل میں پیش کردہ قرار دادوں کو امریکہ کی جانب سے مسلسل ویٹو کیا جا رہا ہے جس سے انسانی جانوں کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ دوسری جانب طبی مراکز پر متواتر حملے جاری ہیں۔ طبی سہولیات پر یہ حملے انسانیت کے خلاف حملوں کے مترادف ہیں۔

اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حماس ہسپتالوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے لیکن اس دعوے کا کوئی مصدقہ ثبوت نہیں۔ چند روز قبل اسرائیل کی بمباری اور فائرنگ سے خان یونس میں ـ’ایم ایس ایف” کے عملے کا رکن اور اس کے اہل خانہ زخمی ہو گئے جبکہ متحارب فریقین کو اس جگہ ان کی موجودگی کے بارے میں پیشگی بتایا جا چکا تھا اور وہاں ایم ایس ایف کا جھنڈا بھی موجود تھا۔ حملے کے بعد بعض لوگ جلتی ہوئی عمارت میں پھنس گئے۔ فائرنگ کے باعث ایمبولنس کو موقع پر پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آئیں۔

اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں پر حملے ، ایم ایس ایف کی گاڑیوں کو تباہ کرنا اور اس کے قافلوں کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ اسر ائیل کی جانب سے ایسے حملے دانستہ یا نا اہلی کا نتیجہ ہے۔ غزہ میں امدادی کارکنوں کو ہلاک اور زخمی کیا جا رہا ہے اور ایسے میں وہاں امدادی اقدامات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لوگوں کو اتفاقی طور پر اور موقع ملنے پر ہی کچھ مدد پہنچتی ہے اور اس کی مقدار بھی انتہائی ناکافی ہوتی ہے۔ جب شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق روا نہ رکھا جائے تو امداد کی فراہمی کیسے ممکن ہے۔

غزہ کے لوگوں کو فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے، انہیں سکون کے عارضی وقفے کی بجائے پائیدار امن درکار ہے۔ اس سے کم کوئی بھی اقدام سنگین لاپرواہی ہو گی۔ 

[email protected]


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “  غزہ، عارضی جنگ بندی کے بجائے پائیدار امن کی ضرورت”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ تحریر ۔۔۔ غزہ کی صورتحال کی بھر پور عکاسی ۔۔۔ غیر مسلم دنیا میں ان کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کاتذکرہ ۔۔۔ اور مسلم دنیا کی حسب معمول بے حسی اور بے غیرتی۔۔۔۔۔۔۔اسرائیل کی بربریت۔۔۔امریکہ کی طرف داری ۔۔۔۔۔ اور ساری صورتحال میں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں اتی۔۔۔۔۔۔خدایا رحم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کی سنت کے خلاف ہے کہ بے حمیت مسلمانوں پہ رحم کھایے ۔