محمد خلیق ارشد
سابق چیئرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پنجاب برانچ)
1947 میں، پاکستان میں گندم کی پیداوار تین ملین ٹن تھی، اب ہم اس کی پیداوار میں تیس ملین ٹن تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ اس دوران پاکستان کی آبادی مسلسل بڑھتی گئی، تاہم اپنی آبادی کی ضرورت پوری کرتے ہوئے، چند برسوں سے ہم خودانحصاری حاصل کرنے اور ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوئے ورنہ گندم امپورٹ ہی ہوتی رہی۔
پہلے پہل ہماری پرائس انٹرنیشنل مارکیٹ سے کم تھی اور کسان مطالبہ کرتے رہے کہ بیرونی کسان کو ڈالر دینے کی بجائے لوکل کسان کو سہولت دی جائے تاکہ ملک میں گندم کی پیداوار بڑھ سکے اور ملک میں فوڈسکیورٹی بھی رہے۔ ہوتے ہوتے ایسا ہوا کہ ہماری قیمت بین الاقوامی قیمت سے بڑھ گئی۔ پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیہاتی ووٹ لینے کا فیکٹر بھی سیاسی حکومتوں کے مدنظر تھا چنانچہ گندم کی امدادی قیمت بڑھتی گئی۔نتیجتاً شہری آبادی کے لیے آٹے کی قیمت بڑھ گئی۔ پھر اس کے مداوے کے لیے سبسڈی دینے کا عمل شروع ہوا۔
محمکہ خوراک جس امدادی قیمت پر گندم خریدتا تھا، اسے سٹوریج اور مارک اپ شامل کرکے اصل قیمت پر فلور ملز کو فروخت کرنے کی بجائے سستاکرکے فروخت کرتا تھا تاکہ آٹا سستا رہے۔ تاہم اس سبسڈی کا ستر فیصدحصہ خورد برد ہوتا رہا۔اس کے نتیجے میں حکومت کے خزانے پر گردشی قرضہ بڑھتا چلا گیا۔ پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے تقریباً 600 ارب روپے دے کر گردشی قرضہ اُتارا۔
اب آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ سبسڈی ختم کرکے کاروبار کو آزاد کریں کیونکہ حکومت کا کام کاروبار نہیں پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ پچھلی تمام حکومتوں کے دور میں اِس ایجنڈے پر غور ہوتا رہا کہ حکومت کو گندم کے کاروبار سے نکل جانا چاہیے اور صرف سٹریٹجک ذخائر کو رکھا جانا چاہیے تاکہ ہنگامی ضرورت میں کام آسکیں۔
پچھلے سال ملکی پیداوار کم تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں نیشنل فوڈ سیکورٹی کے تخمینےکے مطابق 24-2023 کے سال میں تقریباً 25 لاکھ ٹن گندم کا شارٹ فال تھا جس کے لیے امپورٹ کی اجازت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل توپوں کے رخ فیڈرل گورنمنٹ کے اداروں اور چند افسران کی طرف ہیں حالانکہ امپورٹ فیصلہ درست تھا۔
اگر امپورٹ نہ ہوتی تو یقیناً گندم کی فصل آنے سے پہلے 20 کلو کا آٹا 4000 روپے کا بکتا، اور اس کے نتیجے میں حکومت کی کایا پلٹ چکی ہوتی۔ یہ اس وقت ہونے والی امپورٹ ہی کا ثمر ہے کہ آج آٹے کا تھیلہ 1900 کا بک رہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ احتیاط کی گئی اور ایک ملین ٹن سے زیادہ امپورٹ ہوئی۔ اور حکومتی گندم مہنگی اور خراب کوالٹی ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہو سکی۔
آج بھی ملک میں فصل آنے سے پہلے ملک میں تقریباً 4.5 ملین ٹن گندم موجود ہے۔ مارک اپ کی وجہ سے حکومتی خزانہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ لہٰذا حکومت خریداری میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اصولی طور پر یہ درست سمت میں قدم ہے لیکن حکومتی سطح پر مکمل یو ٹرن صحیح نہیں حکومت کو مرحلہ وار اپنے آپ کو نکالنا چاہیے تھا۔ تاکہ پرائیویٹ سیکٹر سٹوریج بنا سکے۔
مزید یہ کہ محدود مقدار میں ویٹ پروڈکٹس کی ایکسپورٹ کی اجازت ہو تاکہ گندم کا ریٹ بھی سٹیبل رہے اور کسان کو اس کی محنت کی کمائی ملتی رہے۔ بفرض محال آٹے کی قیمت بڑھتی ہوئی محسوس ہو تو خط غربت سے نیچے بسنے والوں کی براہ راست مالی مدد کی جائے نہ یہ کہ ہر امیر غریب کو سبسڈی سے نوازا جائے۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی کسی کا کاروباری استحصال نہیں کرسکتا جب تک مناپلی قائم نہ ہو۔ فلور ملوں کی استعداد پہلے ہی پانچ گنا ہے۔ یہ رسد اور طلب ہے جس سے قیمت طے ہوتی ہے۔
ایک ماہ پہلے سے اب تک گندم کی قیمت جس نسبت سے کم ہوئی ہے اُس سے کہیں زیادہ نسبت سے آٹے کی قیمت کم ہوئی ہے۔ یہ فلور ملوں کے درمیان صحت مند مقابلہ ہے کہ جس سے صارفین کو سستا اور عمدہ کوالٹی کا آٹا مل رہا ہے۔ قیمت فی 20 کلو 1200 روپے کم ہو چکی ہے۔
امید ہے اس وضاحت سے بہت سی الجھنیں دور ہو جائیں گی۔
ایک تبصرہ برائے “پاکستان میں گندم کا بحران کیوں پیدا ہوا، حل کیا ہے؟”
بہت خوب ۔۔۔۔ حقیقت حال کی عکاسی ۔۔۔۔۔ ۔