07 اکتوبر 2023 سے صہیونی ریاست کی غزہ پر جاری جارحیت میں حالیہ ایرانی حملہ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے ،خود صیہونی ریاست کے اندر سے بھی ریاست کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں،جو کہ آنیوالے وقت میں ریاست کے نام نہاد وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں،دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن بھی اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتے نظر آرہے ہیں اور اپنے آپ کو ایک معاملہ فہم کو طور پر پیش کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
حالیہ ایرانی حملہ نے صیہونی ریاست کے لیے ایک اور مشکل کھڑی کر دی ہے کہ آیا وہ اب اس حملے کا جواب دے یا نہ دے ،تاہم اس کے اتحادی اسے جواب نہ دینے کا ہی مشورہ دے رہے ہیں جس پر غالباً ریاست عملدرآمد کرے گی ،کیونکہ ایران پر حملہ کا مطلب مشرق وسطیٰ میں ایک نیا محاذ کھولنے کے مترادف ہوگا ۔جب کہ ایران نے بھی حملہ کا بھرپور جواب دینے کا عزم کیا ہے۔اس لیے سعودی عرب،چائینہ اور روس سمیت سب ہی ممالک نے ایران کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے صیہونی ریاست کوغزہ پر جاری جارحیت کو روکنے کے لیے نظر ثانی کی بھی درخواست کی ہے ۔
ایران پرصیہونی حملے سے مشرقی وسطیٰ(مقدرہ بین الاقوامی فضائی سفر (IATA) کی تیار کردہ مشرق وسطیٰ کی تعریف کے تحت بحرین، مصر، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، فلسطین، اومان، قطر، سعودی عرب، سوڈان، شام، متحدہ عرب امارات اور یمن مشرق وسطی کا حصہ ہیں) میں نئی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہونے کا قوی امکان موجود ہے جس کے براہ راست اثرات ایشائی ممالک پر بھی ہونگےخاص طور پر تیل کی صنعت سے متعلق مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔
حالیہ دنوں میں سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ،جس سے پاکستان میں 5 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری سے ایک نئے اور بہتر دور کے آغاز کی توقع کی جارہی ہے ،جبکہ صیہونی ریاست اور غزہ جنگ بندی پر پاکستان اور سعودی عرب کا یکساں موقف ہے ۔لیکن اگر صیہونی ریاست ایران پر حملے کے لیے کوئی اقدام کرتی ہے تو اس سے پاکستان سمیت دیگر ایشائی ممالک کو توانائی سمیت معاشی بحران کے شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
اس وقت صیہونی ریاست کےتنازعات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال خطرات سے دوچار ہو چکی ہے ۔ان خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لئے جن عالمی اداروں اور بین الاقوامی طاقتوں کو اپنا کردار ادا کرنا تھا وہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔بظاہر انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کی ناکامی نے پوری دنیا کے سامنے ان کا اصل اور بھیانک چہرہ بے نقاب کر دیا ہے،یہی وجہ ہے صیہونی ریاست کی غزہ میں جارحیت کے ابتدائی ایام میں جب نام نہاد اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی تو اسے امریکہ نے ویٹو کر دیاجس کا مقصد صیہونی ریاست کا تحفظ تھا۔
مشرق وسطیٰ میں حالات کی خرابی کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا ۔مشرق وسطیٰ میں بد امنی پاکستانی معیشت کے پہیہ کو جام کر دے گی،کیونکہ مشرق وسطی ٰ پاکستان کی سب سے بڑی اور زرخیر منڈی کے طور پر جانی جاتی ہے ۔مشرق وسطیٰ میں ہنگامہ خیزی کا اثر سی پیک پر بھی پڑے گا جو محض چین کو پاکستان کے ساحل کے ذریعے بحیرہ عرب سے ملانے کا منصوبہ ہی نہیں بلکہ اس منصوبے کا ایک مقصد خلیجی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے لیے ایک متبادل راستہ فراہم کرنا ہے،پاکستان کے سی پیک منصوبے میں سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک نے خاص دلچسپی کا بھی اظہار کیا ہے۔ یہ منصوبہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل شروع کیا گیا۔ سی پیک میں سڑکوں اور ریلوے منصوبوں میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ اور مختلف اقتصادی زونز کی تکمیل کی جا چکی ہے مگر پھر بھی دشمن قوتیں اس کو روکنے کی درپے ہیں ۔
بھارت نے سی پیک کے مقابل انڈیا-مشرق وسطی-یورپ اکنامک کوریڈور ( IMEC )منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کا راستہ CPEC سے زیادہ طویل ہے، جس میں خلیجی ممالک اور صیہونی ریاست شامل ہے۔صہیونی ریاست کو ٹرانزٹ کوریڈور کے مرکز میں رکھنے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں، جن میں مغربی ممالک کی منڈی بھی شامل ہے۔ تاہم خطے میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی اور اسرائیل فلسطین تنازع کی شدت کے سنگین نقصانات کا اثر آئی ایم ایف سی پر بھی براہ راست پڑے گا ۔
مشرق وسطیٰ میں صورتحال بگڑنے پر توانائی بحران کے ساتھ ساتھ اجناس کی منڈیوں پر بھی برے اثرات پڑنے کا شدید خطرہ ہے ۔اگر صیہونی ریاست سمیت امریکہ کو لگا م نہ ڈالی گئی تو ابھرنے والی خوفناک صورتحال میں پاکستان سمیت پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے اور تیسری عالمی جنگ کی آگ پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔