غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ ہر طرف زخمی اور لاشیں نظر آتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے ظلم کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ عبداللہ منصور کے مطابق صیہونی جارحیت کے نتیجے پچیس ہزار سے زائد بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد ملبے کے نیچے دبے رہنے کے امکانات موجود ہیں۔ شہید، زخمی اور ملبے کے نیچے دب جانے والے بالغ مرد و خواتین کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔غزہ میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اصل حقائق اور نقصانات کے اعداد و شمار سامنے نہیں آرہے ہیں۔
دنیا کی بڑی طاقتیں صیہونیوں کی پشت پر کھڑی ہیں یا پھر تماشا دیکھ رہی ہیں۔ فلسطین کے ارد گرد کی عرب ریاستیں اپنے شغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عربوں کا طرز عمل ایسا ہے گویا انہیں فلسطینیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عرب ریاستوں پر صیہونی عورتوں کی اولادیں حکمران ہیں۔ ان کے اجداد مسلم خلافت توڑنے کے مشن میں برطانیہ کے فرنٹ مین کا کردار کرتے رہے ہیں۔
اسرائیل خلافت کے انہی غداروں کی مدد سے قائم کیا گیا تھا لہذا ان سے فلسطین کے لیے کچھ کرنے امید لگانا دیوانگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مسلم خلافت کے غدار عرب حکمران خاندان مسلم دنیا میں مساجد و مدارس تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرکے اپنا تصور بہتر بنائے ہوئے ہیں۔
عربوں کے علاوہ باقی مسلم دنیا کے حالات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ان ملکوں پر بھی زیادہ تر سابق سپر طاقت برطانیہ کے وفادار غلاموں اور مسلم دنیا کے غداروں کی اولادیں حکمران ہیں۔ برطانیہ کے لے پالک بچے آج امریکہ کے زیر کفالت ہیں اور امریکہ پوری طرح صیہونیوں کے شکنجے میں ہے۔ اس فریم ورک میں یہ لوگ بالواسطہ صیہونیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
فلسطین میں مزاحمت کرنے والے گروہ دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ یاسر عرفات کی پی ایل او پُرامن مزاحمت کی قائل رہی ہے جبکہ اس حکمت عملی سے اختلاف کرنے والے ذہن اخوان المسلمون کے ہم خیال شیخ احمد یاسین کے گرد جمع ہوتے گئے جن کے نزدیک مسئلہ فلسطین کا واحد حل عسکریت ہے۔ یہ امر غیر اہم نہیں ہے کہ اپنے وقت کے انتہائی طاقتور مزاحمت کار یاسر عرفات کے نکاح میں بھی ایک یہودی عورت تھی۔
فلسطین کے حالیہ المیے کا آغاز شیخ احمد یاسین کی جماعت کی عسکری کارروائیوں کے بعد ہوا ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ عسکری گروہ زیادہ تر زمینی حقائق کی بجائے جذباتی ردعمل کے حامل ہوتے ہیں جنہیں ٹریپ کرنا انتہائی آسان ہدف ہوتا ہے۔
غزہ کے عسکریت پسندوں کی کارروائی کے وقت ہم نے لکھا تھا کہ اس کا نقصان عام فلسطینیوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس وقت جذباتی جنونیوں نے ہمارا مذاق بنایا اور ہمیں دین بیزار قرار دے کر مطعون کیا۔ آج نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہمارا مطالعہ یہ ہے کہ طاقتور دشمن اپنے سے کمزور مخالف کو کچلنے کے لیے اسے دانستہ اشتعال دلاتا ہے تاکہ وہ بغیر درست اندازے اور تیاری کئے طاقت کے استعمال کی طرف نکل جائے۔ غزہ المیہ اس کی واضح مثال ہے۔
صیہونی اپنی منصوبہ بندی میں مسلسل پیش رفت کررہے ہیں۔ صیہونیوں نے غزہ تباہ کر کے مزاحمت کاروں کی اصل قوت کے خطرات کو کنٹرول کرنے کا بندوبست کرلیا ہے۔ وہ اپریل 24 میں سرخ گائیوں کی قربانی کی تقریبات کی تیاریاں کررہے ہیں جس پر عمل ہونے کے بعد خدانخواستہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا۔
ہم متعدد دفعہ اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ مسلم دنیا اپنے دشمنوں کے وفاداروں اور جذباتی جنونیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ دشمن کے وفاداروں سے تو امید رکھنا ہی کم عقلی ہے لیکن مخلص مگر جذباتی جنونیوں کی حکمت عملی میں بھی خیر کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔
ہمارے نزدیک جہاد کو عسکریت کے دائرے میں محدود کرکے دیکھنے والوں نے مسلم دنیا کا کم نقصان نہیں کیا۔ ہماری سمجھ کے مطابق جہاد دراصل منصوبہ بند اور ہمہ جہت طاقت کے حصول کی جدوجہد کا نام ہے۔ عسکریت اس کا صرف ایک اور آخری آپشن ہے۔ دانا اور ہوشیار دشمن کا مقابلہ اس وسیع تصور کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو سکتا البتہ غزہ جیسے تکلیف دہ المیوں کا جواز ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ایک تبصرہ برائے “غزہ کا المیہ”
بہت خوب۔۔۔۔۔ خلاف اسلامیہ کے غدار عرب حکمران ۔۔۔۔ درست اصطلاح ۔۔۔۔ درست تجزیہ۔۔۔ جہاد واقعی جذباتیت کا نام نہیں ۔۔۔۔ اس کے لیے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔۔۔