رمضان المبارک کی رحمتیں، برکتیں اور سعادتیں ’ لیلۃ القدر‘ میں اپنی شان کے لحاظ سے عروج پر ہوتی ہیں کیونکہ اس مبارک اور قابل قدر رات کو قرآن پاک جیسی عظیم نعمت انسانوں کی ہدایت اور فلاح کے لیے اتاری گئی۔’ ہم نے اس ﴿قرآن﴾ کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ ‘ ﴿القدر۔1)اور اس رات کی قدر و منزلت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ’ ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘﴿القدر۔3﴾ اور مزید فرمایا کہ ’ یہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘ ﴿القدر۔5﴾
علمائے امت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی طاق رات شب قدر ہے۔کسی رات کا تعین، اللہ رب العزت اور اس کے محبوب نبی و رسولﷺ کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ امت کے افراد طاق رات ﴿شب قدر﴾ کی تلاش اور اس کی فضیلت کو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں۔
عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن رات کے مجموعہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی ان تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہو اس سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب قدر ہو سکتی ہے۔اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے افضل ہے۔ ہزار مہینوں سے مراد کثیر تعداد کا تصور دلانا مقصود ہے کیونکہ اہل عرب کا یہی قاعدہ تھا۔
مسند احمد میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:’ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں ہے۔ جوشخص اللہ سے اجر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا۔ اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔ ‘ اس خیر، بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی، مغفرت حاصل کرنے کے لیے پورے شعور کے ساتھ اس رات میں اعمال صالحہ کرنا چاہئیں۔ وہ اعمال جو پوری توجہ، یکسوئی، دل کی لگن، شوق اور ہر نفسانی جذبے سے پاک ہو کر کیے جائیں اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں۔
خواتین جن کو گھریلو امور میں اپنا سارا وقت صرف کرنا پڑتا ہے اس رات کو پا لینے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کریں تو روحانی اور قلبی سکون سے فیض یاب ہو سکتی ہیں۔عموماً یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس رات کو صرف نفل نماز اور تسبیحات میں مشغول رہنا چاہیے۔ ہر نیکی کے مدارج ہیں۔ بہترین نیکی کی طرف سبقت لے جانا ہی مومن کا مقصد زندگی ہے۔ قرآن کی تلاوت، زبانی یاد کرنا، اس کا ترجمہ، فہم، غور و فکر، پھر اس کی تعلیم دینا اس پر خود بھی عمل کرنا، دوسروں کو اس کا شعور دینا، قرآن کے حقوق کی ادائیگی میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ اس رات کی سعادتوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جائے کہ 21 سے لے کر چاند رات ﴿جو کہ فضیلت میں شب قدر سے کم نہیں﴾ تک کیا اعمال صالحہ کیے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
منفی سوچوں سے چھٹکارا کیسے پائیں؟
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟
خواتین رمضان المبارک کیسے گزاریں؟
مہمان نوازی میں استطاعت سے بڑھ کے تکلف کیسا ہے؟
قرآن کی سورتیں یاد کرنا، قرآنی دعائیں، کسی سورت یا رکوع کا ترجمہ و تفسیر سمجھنا۔احادیث نبوی کا مطالعہ، مسنون دعاؤں کا یاد کرنا، سیرت نبوی کا مطالعہ، اسلامی لٹریچر میں سے کسی کتاب کا انتخاب کر کے مطالعہ کرنا، اس کے نوٹس لے لینا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی نظر میں علم دین سیکھنے سے بڑھ کر محبوب کوئی عبادت نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کلام کا صحیح فہم اور شعور حاصل کرنا بے شمار نفل نماز ادا کرنے سے زیادہ ثواب کا مستحق ہے۔چاہے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ خواتین اپنے حالات، علم، ماحول، گھریلو ذمہ داریوں کو مدنظر رکھ کر اپنا پروگرام مرتب کر سکتی ہیں کہ کون سی طاق رات کو کون سا کام کرنا ہے۔ منصوبہ بندی اور ترجیحات کا تعین ہر کام کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے اور سچی خوشی عطا کرتا ہے۔ الل ٹپ اور بے سوچے سمجھے کام کرنے کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔
بعض اوقات خواتین کو گھریلو امور کی ذمہ داری ادا کرتے کرتے عبادت کا بالکل وقت نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں گھر کے افراد کو خواتین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور اپنے معاملات کے بارے میں خودکفیل ہو کر ان کو تھوڑی سی آسانی فراہم کرنی چاہیے۔اگر خواتین کو طاق رات میں یکسوئی سے عبادت کرنے کا موقع زیادہ وقت کے لیے نہیں ملتا تو اس صورت میں بھی خواتین کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نیک نیتی، اللہ سے اجر طلب کرنے کی خواہش میں ادا کرنا چاہیے۔
چلتے پھرتے ذکر اذکار، بچوں کا کام، مہمانوں اور دیگر گھر والوں کی ضرورت، سحری اور افطاری کا انتظام بھی ایک اعلیٰ شان کی عبادت ہے۔ روزہ رکھوانا اور روزہ افطار کرنے کا انتظام کرنا، روزہ داروں کے لیے آسانی فراہم کرنا، عبادت کرنے والوں کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کرنا، خواتین کو بھی ان کی عبادات اور روزوں میں حصہ دار بنا دیتا ہے۔نیکی اور عبادت میں تعاون کرنے والا بھی اجر عظیم کا حق دار ہے۔
یہ اللہ کی شان عظمیٰ ہے کہ وہ کسی کے ذرہ برابر عمل کو اجر کا باعث بنا دیتا ہے۔ اس لیے خواتین اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے پوری یکسوئی سے اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب رکھیں اور دل میں یہ کڑھن محسوس نہ کریں کہ گھر کے فلاں فرد نے تو اتنے سارے نفل ادا کیے اور میں کچن کے کاموں میں اور لوگوں کی خدمت کرنے میں ہی الجھی رہی۔ عبادتوں میں مصروف اللہ کے بندوں کی خدمت کر کے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے والے برابر کے شریک ہیں۔ اجر و ثواب حاصل کرنے میں اگر اللہ کی محبت میں دو نفل ادا کرنے کا موقع مل جائے، زبان سے چند کلمات ادا ہو جائیں جن میں دل کی گہرائیوں سے خلوص کا اظہار ہو، ایک سجدہ ہی کرنا نصیب ہو جائے کہ اپنے رب کے قدموں میں گر کر گناہوں کی معافی مانگ لی جائے تو ان بے شمار نفلوں سے بہتر ہے جن میں دل اور دھیان نہ لگا ہو۔
اللہ تعالیٰ کو تو قلب سلیم درکار ہے۔ وہ قلب جو ریا، دکھاوے، بغض، حسد، بدگمانی، شک سے پاک ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عبادت کا صحیح شعور عطا فرمائے اور اپنی رحمت و کرم کا سایہ ہمارے افعال، افکار اور اعمال پر ڈال دے اور ہماری حقیر سی کوششوں کو شرف قبولیت سے نواز دے۔آمین
ایک تبصرہ برائے “شب قدر میں خواتین کیا کریں؟”
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔۔۔۔ بہت عمدہ ۔۔۔ روایت سے ہٹ کر عبادت کے مفہوم کو بیان کیا ہے۔