پاکستانی نژاد طالبہ صبا انور کی تحقیق کو بارسلونا کی ایک یونیورسٹی نے نہ صرف تھیسز آف دا ایئر کا ایوارڈ دیا ہے بلکہ ان کے تیار کردہ خوراک کے پلان کو ایک ہسپتال نے اپنے مریضوں کے لیے اپنے ہاں لاگو بھی کر دیا ہے۔
پاکستانی نژاد ہسپانوی طالبہ صبا انور کے منصوبے کو کاتالونیا میں سال کا بہترین تحقیقی کام قرار دیا گیا، گزشتہ برس انھوں نےیونیورسٹی آف بارسلونا میں تھیسز کمپیٹیشن بھی جیتا، ان کے تیار کردہ خوراک کے پلان کو ایک ہسپتال نے پاکستانی مریضوں کو موٹاپے اور ذیابیطس سے بچانے کے لیے اپنے ہاں لاگو بھی کر دیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ہسپانوی شہر بارسلونا کے ایک بڑے اسپتال ’جرمانز تریاسی پوجولٗ نے پاکستانی طالبہ کے تجویز کردہ غذائی پلان کے مطابق پاکستانی کھانے تیار کرنے کے لیے کچن فراہم کیا ہے۔ اس منصوبے کی خاص ہسپانوی معاشرے میں گم شدہ تصور کی جانے والی پاکستانی خواتین کی بھرپور شرکت ہے۔ 26 سالہ صبا انور محمد یونیورسٹی آف بارسلونا میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔
صبا انور محمد کہتی ہیں ’جب میں یہاں نیوٹریشن اور ہیلتھ کی فیلڈ میں داخل ہوئی تو میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ جو ہماری پاکستانی کمیونٹی ہے بالخصوص اپنی فیملی کو ، اپنی دوستوں کے خاندانوں میں، بہت سے ایسے افراد کو دیکھتی تھی جو بہت ہی کم عمری میں ذیابیطس اور دل کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ ہیں۔ یہ ان بیماریوں سے بہت زیادہ متاثرہ ہیں‘۔
نوریا الونسو پیدرول ، اینڈو کرائنولوجسٹ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا نام پیفاس ہے۔ اور بارسلونا میں مقیم پاکستانی تارکین وطن خاص طور پر اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس تحقیق کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم ایک صحت مند طرز زندگی کی تعلیم کے ذریعے مختلف کارڈیومیٹابولک امراض مثلاً موٹاپا اور ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے ذریعے مثبت نتائج حاصل کرسکیں، تاکہ مستقبل میں خاص طور پر ہارٹ اٹیک اور فالج کے خطرات کو کم کیا جاسکے۔
تیرہ برس میں ہجرت کرکے پاکستان کے شہر منڈی بہاؤالدین سے بارسلونا، سپین میں پہنچنے والی صبا انور محمد کے تحقیقی کام کو سال دو ہزار اکیس کا بہترین ریسرچ پراجیکٹ قرار دیا گیا۔ اور گزشتہ برس انھوں نے یونیورسٹی آف بارسلونا میں تھیسز کمپیٹیشن بھی جیتا۔
وہ کہتی ہیں ’یہاں جو ہمارا ہیلتھ اسٹاف ہے، اس کے پاس ایجوکیشنل میٹیریل نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ ہمارے پاکستانی مریضوں کی رہنمائی کرسکیں۔میں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے یہاں دو گائیڈز تیار کیں جو ہیلتھ ایجوکیشنل گائیڈز ہیں ، جو شائع ہوچکی ہیں اور وہ ہماری یونیورسٹی کے پیج پر دستیاب ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیے
مصباح خاتون، پہلی پاکستانی نژاد جرمن خاتون پارلیمان کا حصہ بن سکیں گی؟
دنیا کو خواتین رہنماؤں کی ضرورت ہے، پاکستانی نژاد کینیڈین سیاست دان سے مکالمہ
’روایتوں کو چیلنج کرنا امی ابو دونوں کی تعلیمات تھیں‘
اس منصوبے کا آغاز تین برس قبل بارسلونا شہر سے 70 کلومیٹر دور یونیورسٹی آف وک سے ہوا تھا۔ اس منصوبے کی پذیرائی اور کامیابی کے حوالے سے کوارڈینیٹر پروفیسر کرسٹینا باقے کروسیاس بتاتی ہیں ’ صبا کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ایک بہت ہی دلچسپ پراجیکٹ ہے۔ کیونکہ اس سے اسپین میں مقیم پاکستانی خواتین کے گروپ کے ساتھ کلینیکل ٹرائل اور سائنسی تقاضوں کے مطابق مکمل کیا گیا ہے‘۔ اس پروگرام میں شریک خواتین کے دو گروپس بنائے گئے تھے۔ 70 تجرباتی گروپ میں اور 70خواتین انٹروینشل گروپ میں شامل تھیں۔ اس پروگرام کا مقصد تعلیم اور صحت مند خوراک کی عادات کو بہتر بنانا تھا۔ اور یہ صرف غذائیت کی سطح تک محدود نہیں بلکہ ثقافتی اور لسانی ضروریات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔
اسپین میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن آباد ہیں۔ کتلونیا میں ان کی آبادی تقریباً ساٹھ ہزار ہے جن میں تیس فیصد خواتین ہیں۔
صبا انور نے یہ سفر تنہا شروع کیا تھا مگر بارسلونا میں آباد ایسی پاکستانی خواتین میں سے ایک سو چالیس کو کامیابی سے اس منصوبے کا حصہ بنایا ہے جو ہسپانوی معاشرے میں اپنی انتہائی محدود شرکت کے سبب تنقید کی زد میں رہتی ہیں۔ اور علامتی طور پر معاشرتی اعتبار سے گم شدہ تصور کی جاتی ہیں۔ اب یہ خواتین اپنی اور خاندان کی صحت اور سماجی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مختلف اسپتالوں میں ہیلتھ ایمبیسیڈرز کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون شائستہ عابد بتاتی ہیں
’ میں دو ہزار دس میں اسپین میں آئی، اس وقت میری صحت بھی ٹھیک تھی اور میرا وزن بھی 60 کلوگرام تھا۔ اس کے بعد میرے تین بچے پیدا ہوئے۔ ہر بچے کی پیدائش کے بعد میرا وزن 10کلوگرام بڑھ گیا اور 90 کلوگرام تک پہنچ گیا۔ پھر میں اس ڈائٹ پلان پر عمل کیا جو صبا انور نے بتایا۔ جس کے نتیجے میں میرا وزن 20 کلوگرام کم ہوا۔ اب اس پراجیکٹ میں ایک ہیلتھ ایمبیسیڈر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔
یہ خواتین اس منصوبے سے وابستگی کے سبب اب مقامی زبان بھی سیکھ رہی ہیں۔ اور مختلف سینٹرز میں پاکستانی پکوانوں کو میزبان معاشرے میں متعارف کروانے کے لیے ورکشاپس اور تصویری نمائشوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔
صبا انور نے پاکستانی خواتین کے تشخص کو بدلنے اور پاکستانی عورت کے لیے ہسپانوی معاشرے میں ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی برادری کو صحت کے حوالے سے لاحق خطرات سے تحفظ کے لیے بہترین منصوبے پیش کیے ہیں جنھیں مقامی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
ایک تبصرہ برائے “صبا انور محمد: پاکستانی خاتون ہسپانوی معاشرے کو موٹاپے اور ذیابیطس سے نجات دلا رہی ہیں”
عمدہ تحقیق ۔۔۔۔ صبا انور کی کاوشوں کو سلام ۔۔۔۔ اس تحقیق کی عام لوگوں تک رسائی ہی لوگوں کے لیےسود مند ہو سکتی ہے