یہ ایک ایسے عام آدمی کی خود نوشت ہے جس کے اجداد اصفحان و توران سے نہیں آئے تھے، محمد بن قاسم کی فوج میں بھی شامل نہیں تھے، گھوڑوں کے سوداگر بھی نہیں تھے، سونے اور ریشمی کپڑے کا کاروبار بھی نہیں کرتے تھے، کبھی نواب یا نواب کے وزیر اعظم بھی نہیں رہے تھے، رام پور سے وظیفہ بھی نہیں کھاتے تھے، کابل سے تلواریں چلاتے ہوئے برصغیر میں نازل بھی نہیں ہوئے تھے، پنج ہزاری تھے نہ ہی پنج صدی۔ ان کے لکھنو میں آموں کے باغات بھی نہیں تھے۔ باپ دادا سرکاری ملازمت میں سیکرٹری بھی نہیں رہے تھے۔ ظاہر اس خدمت میں انہیں کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ بھی نہیں ملا تھا۔ نہ اجداد میں کوئی ترقی پسند تھا نہ ہی کوئی برصغیر کی تحریک آزادی میں شامل رہا۔ یہ عام آدمی کسی علمی ادبی سرکاری ادارے کا چیئرپرسن بھی نہیں رہا۔ اس کے گھر میں حکومت سے ملنے والے کسی ایوارڈ کی ٹھیکری بھی نہیں مل سکتی۔
یہ عام آدمی ہے علی اکبر ناطق۔
جناب علی اکبر ناطق ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔ ’آباد ہوئے برباد ہوئے‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس ’خودنوشت‘ سے پہلے ان کے ناول، افسانوں اور شاعری کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی شخصیت کے باقی تفصیل آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔ اس خودنوشت کا ماحول کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا آپ نے بلونت سنگھ کے ناولوں میں پڑھ رکھا ہے۔ مجھے بھی اسی ماحول سے دلچسپی ہے۔ یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس نے مجھے اس خودنوشت سے جوڑا۔ آپ کو بھی یہ منفرد خودنوشت خوب پسند آئے گی۔ اس پسندیدگی کا ایک نہیں کئی اسباب ہیں۔
علی اکبر ناطق نے زندگی کی پوری کہانی نہایت بے تکلفی لیکن پوری دیانت داری سے لکھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے آباؤ اجداد میں سے ہر ایک کا خاکہ لکھا۔ یہ سارے خاکے پڑھ کر خاصی حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہوئے مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور اس پر تقدس کی چادر چڑھا دیتے ہیں، ان کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور خامیاں چھپا لیتے ہیں۔ تاہم علی اکبر ناطق نے ہر چیز بلا کم و کاست بیان کردی۔
اپنی دادی اماں کے ایک چچا زاد کے بارے میں یہاں تک بتا دیا کہ وہ علاقے سے گھوڑے اور خچر چوری کرکے منڈی میں بیچا کرتے تھے۔اسی طرح باقیوں کی بھی خوبیاں اور خامیاں یکساں بیان کردیں۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں، آباؤ اجداد کے اس تذکرے کو آپ انڈیا کے علاقہ فیروز پور سے پاکستان کے علاقے اوکاڑہ تک کی داستانِ ہجرت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد مصنف کی اپنی زندگی کی کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی ہی رہتی ہے۔ اس میں ان مختلف لوگوں کے دلچسپ خاکے موجود ہیں جنہوں نے علی اکبر ناطق کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں اساتذہ کرام بھی ہیں، ان کے گاؤں کی مشہور لیکن دلچسپ شخصیات بھی ہیں، اور ان کے دوست بھی شامل ہیں۔ گاؤں کے چار پاگلوں کے خاکے بھی ہیں اور علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے بھی۔ الغرضیکہ یہ خودنوشت ایک ایسے شخص کی ہے جس کی زندگی تجربات سے بھری ہوئی ہے اور جسے اپنی حیات میں طرح طرح کے سبق ملے ہیں۔
یہ کتاب واقعات سے کا مجموعہ ہے۔ ایک واقعہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی گود میں بیٹھنے کا بھی ہے۔ یہ واقعہ نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا۔ ایک واقعہ جناب احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات کا بھی ہے۔ یہ بھی دلچسپ احوال ہے۔ اسی طرح اپنے زمانہ طالب علمی کا مفصل تذکرہ کرتے ہیں اور روزگار کی خاطر جدوجہد کی کہانی بھی لکھتے ہیں۔ کتاب کے 9 ابواب ہیں۔
آخری باب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں میں روزگار کی تلاش میں گزرے شب و روز کا قصہ ہے۔ میرے خیال میں کتاب کا سب سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز باب یہی ہے۔ اس میں کھجوروں کے باغات بھی ہیں اور گدھوں پر کھجوریں لاد کر منڈی تک پہچانے والا علی اکبر بھی۔ آدھی رات تک آگ پر دنبہ رکھ کر رزمیں گاتی، طبلے پیٹتی اور گوشت کھاتی حبشی عورتیں بھی ہیں اور چودھویں کے چاند کی چاندنی میں صحرا میں لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جو مشہور عرب شاعر امراؤ القیس کے قصیدے اور عرب شعرا کی شاعری سنتے ہیں۔
علی اکبر ناطق نے اپنی داستان حیات ان گمنام مارے جانے والے شہیدوں کے نام کی ہے جنھیں انیس سو سینتالیس کی تقسیم نے کھا لیا تھا۔ واقعتاً یہ ایک منفرد کہانی ہے۔ اگر آپ کے اندر رومان کے جذبات مچلتے ہیں تو یہ خود نوشت ضرور پڑھیے گا۔ یقیناً لطف اٹھائیں گے۔
نام: آباد ہوئے برباد ہوئے (خود نوشت)
مصنف: علی اکبر ناطق
قیمت:1500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس اپ 03215440882
ایک تبصرہ برائے “ایک عام آدمی کی خودنوشت”
علی اکبر ناطق کی خود نوشت ۔۔ کے تعارفی کلمات جان دار اور دل چسپ ہی نہیں۔۔ بھرپور طنز سے بھی لبریز ہیں۔۔۔ نہیں ہے۔۔۔ کا بہت عمدہ استعمال ۔۔۔ یہ منفرد خودنوشت ہے۔۔۔ جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے ۔۔۔