امجد صدیقی
جب پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا، اور پھر جب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے خواتین اور دوسرے مذاہب کی خصوصی نشستوں کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر دل میں کسک اٹھی کہ کاش! ان میں ہمارا بھی ذکر ہوتا !!
بڑی چھوٹی سب جماعتوں نے اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کیے، میں نے سب پڑھے مگر مجھے وہ نظر نہ آیا جس کی مجھے امید تھی۔ آخر میں جو منشور آیا، وہ مسلم لیگ نون کا تھا۔ اس سے مجھے خصوصی امید تھی کہ جس ساڑھے تین کروڑ اسپیشل پرسنز کے حقوق کا ذکر کسی دوسرے منشور نے شامل نہیں کیا، یقیناً اس میں ضرور شامل ہوگا مگر مایوسی ہوئی۔
وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد، پنجاب میں بننے والی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بہن محترمہ مریم نواز صاحبہ کا صوبائی اسمبلی میں افتتاحی خطاب پرجوش، باوقار اور انتہائی متوازن تھا، وہ عوام کی ضروریات، ان کی تکالیف، ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کا اعلان کر رہی تھیں، مجھے بھرپور امید تھی کہ وہ ان ساڑھے تین کروڑ خصوصی لوگوں کے بارے میں بھی کچھ بولیں گی۔
مریضوں کو بروقت ہسپتال تک جانے کے لیے ایئر ایمبولینس کی بات ہوئی، ان کے لمز کو بچانے کا بھی ذکر ہوا مگر میری امید بر نہ آئی اور خطاب ختم ہو گیا۔ اس امید کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی میری گزشتہ 43 سالہ دوسری زندگی میں سب سے زیادہ رحم دلی، انسانیت، احساس اور مدد کا جذبہ ہمیشہ خواتین میں ہی دیکھا
مگر خاتون وزیر اعلیٰ کا ہم لوگوں کو بھول جانا تکلیف کا باعث بنا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تقریبا ساڑھے تین کروڑ لوگ ایسے ہیں جو باقی مخلوق کی بخشش اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام تک پہنچانے کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں مگرشاید حکمرانوں کو یہ قبول نہیں۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں 76 سال گزرنے کے بعد بھی تقریباً ساڑھے تین کروڑ معذور افراد جنھیں اسپیشل پرسنز کا نام دیا گیا ہے، کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔ آج بھی آپ معذور افراد کو سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے ہی دیکھتے ہیں۔
کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کی وجہ سے معذوری اس کا مقدر بنتی ہے۔ کسی محرومی یا معذوری کے شکار شخص کو ہمارا معاشرہ عضوِ ناکارہ کی طرح کاٹ کر پھینک دیتا ہے، انہیں اپنے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے، ان سے فاصلہ رکھا جاتا ہے، معذوروں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں بسنے والے، کسی نہ کسی طرح کی معذوری میں مبتلا تقریباً ساڑھے تین کروڑ معذور افراد کو لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی تلخ باتیں اور سخت جملے برداشت کرنا پڑتے ہیں، معذوری کے طعنے سننا پڑتے ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ معذور افراد منحوس ہیں، ان پر خدا کا عذاب آیا ہے یا یہ اپنے کسی گناہ یا جرم کی وجہ سے اس حالت کو پہنچے ہیں۔ ان کے بارے میں سب کچھ تو کہہ دیاجاتا ہے لیکن کوئی شخص ان سے ہنس کر بات کرنا پسند نہیں کرتا، ان کے ساتھ پیار بھرے دو بول نہیں بول سکتا، کوئی ان سے ہمدردی یا ان کی دل جوئی نہیں کرتا۔
معذوروں کے ساتھ امتیازی اور ظالمانہ سلوک ان کے گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے سے ہوتا ہوا حکومتی سطح تک دکھائی جاتا ہے۔ معذور افراد کو گھر میں بھی قبول نہیں کیا جاتا، ان کو پہلے دن سے ہی ناکارہ قرار دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے بس بھیک مانگنی ہے۔
اگر کسی گھر میں کوئی معذور بچہ موجود ہو تو والدین اس کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اس کو ابتدا ہی سے معذوری کے طعنے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خود گھر والے اسے وبال، بوجھ اور مصیبت سمجھنے لگتے ہیں۔ اسے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر اسے گھر کے کونے میں پھینک کر اس کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے۔
بالکل یہی رویہ ہمارے اندر اجتماعی طور پر اور حکومتی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔ کوئی بھی حکومتی ادارہ معذوروں کا والی وارث نہیں بنتا۔ کوئی بھی ان کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ادارہ ان کے لیے کسی بھی قسم کی سہولت یا آسانی پیدا کرنے کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی معذور کو اپنے کسی مسئلے کے لیے کسی سرکاری دفتر یا ادارے میں جانا پڑے تو اس کے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور اسے خوب ذلیل کیا جاتا ہے۔
پورے ملک میں کہیں بھی معذوروں کے لیے بنیادی سہولیات موجود نہیں، کسی دفتر، کسی ادارے، کسی سرکاری یا پرائیویٹ بلڈنگ میں ویل چیئر کے لیے راستے موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹرز، میڈیا ہاؤسز، پلازے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں کہیں بھی ویل چیئر والے افراد کا بہ آسانی جانے کا انتظام نہیں۔ اگر کوئی ہے بھی تو وہ ناقابل استعمال یا اس کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ ریلوے ہو یا پرائیویٹ بسیں، ویگنیں کہیں بھی ویل چیئر کی رسائی نہیں ہے حتیٰ کہ جدید انداز میں بننے والی میٹرو بس اورنج لائن ٹرین میں بھی معذور افراد کو رسائی نہیں دی گئی۔
معذور لوگ آخر جائیں تو کہاں جائیں۔ میں نے گزشتہ 20 برسوں میں نہ جانے کتنی بار صاحبان اقتدار سے ملنے کی بھرپور کوشش کی کہ ان کے اگے پاکستان میں بسنے والے 15 فیصد معذور لوگوں کے مسائل کا رونا رو سکوں مگر نہ تو ان کو کوئی ملنے دیتا ہے اور نہ ہی وہ خود ملنا چاہتے ہیں حالانکہ میں نے تن تنہا ویل چیئر پر 52 ملکوں کا دورہ کیا ہے۔
میں نے سعودی عرب میں اپنے 40 سالہ قیام کے دوران جس بھی عظیم شخصیت کو جن میں میاں نواز شریف صاحب بھی شامل ہیں، ملنے کی خواہش کی تو انتہائی پروٹوکول کے ساتھ ملاقات ہوئی مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ہمیں دھتکار دیتا ہے۔ جب حکومتیں ہی بے حس ہوجائیں تو پھر کون ہے جو انہیں زندہ رہنے کا حق دے سکے؟ کوئی ہے جو انہیں امید دلا سکے کہ اس ملک میں معذور بھی عزت سے رہ سکتے ہیں؟ کوئی ہے جو انہیں یقین دلاسکے کہ معذوروں کو اس ملک میں باعزت روزگار ملے گا؟ شاید ایسا کوئی بھی نہیں ہے۔
میں گزشتہ ماہ سات دن کے لیے متحدہ عرب امارات گیا۔ وہاں میں نے دیکھا مجھ جیسے لوگوں کو وی وی آئی پی سے بھی بڑھ کر پروٹوکول دیا جاتا ہے، انہیں سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ وہ پورے ملک میں کہیں بھی جانا چاہیں، کچھ بھی کرنا چاہیں، انھیں عام انسانوں سے کہیں زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ سرکاری کاموں کے لیے ان کو دفتروں کے دھکے نہیں کھانا پڑتے بلکہ خود سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ ادارے جن میں بینک بھی شامل ہیں، ان کے گھر پہنچ کر ان کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری کام سرانجام دیتے ہیں، ان کو سہولیات مہیا کرتے ہیں، انہیں پیپل اف ڈیٹرمینیشن peoples of determination کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معذور افراد کو اسپیشل پرسنز کا نام ضرور دیا گیا مگر ان کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی قانون بنتا بھی ہے اس پر سرے سے ہی کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔
اگرچہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مجھے سینیٹر بنانے کی پیشکش کی گئی مگر میں نے قبول نہیں کی تھی۔ یہ سوچ کر انکار کردیا تھا کہ ہمارے ملک کے سارے سیاستدان صرف کرسی کے لیے لڑتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پکی کرسی دی ہوئی ہے مگر اب پاکستان واپس آ کر سوچتا ہوں کہ وہ پیشکش ٹھکرانا میری غلطی تھی۔ جہاں خواتین اور مینارٹیز کو اسمبلی میں سیٹیں ملتی ہیں، وہاں پر ساڑھے تین کروڑ اسپیشل پرسن کا بھی حق بنتا ہے۔
کاش! میں اس وقت تین کروڑ روپے پارٹی فنڈ دے کر یہ پیشکش قبول کر لیتا تو یہ حالات نہ ہوتے اور اب تک اسپیشل پرسنز کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں معقول نشستیں ہوتیں، اور وہ وہاں اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتے۔
پنجاب بھر میں ابھی تک کوئی بھی ایسا ضرورت کے مطابق پیرا پلیجک سنٹر اور ری ہیبلیٹیشن سینٹر مکمل ادارہ بحالی معذوراں نہیں بنایا گیا جہاں ایک چھت کے نیچے معذور افراد کی معذوری کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر پنجاب حکومت ان افراد کی ری ہبلیٹیشن کے لیے، بحالی معذوری پر توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں کہ 70 فیصد معذور افراد کو برسر روزگار کر کے معاشرے میں باعزت مقام نہ دلایا جا سکے۔
امجد صدیقی
whatsApp 0303 5455077
ایک تبصرہ برائے “ساڑھے 3 کروڑ پاکستانی جنھیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں”
یقیناً ایک جائز مطالبہ ہے۔ خصوصی افراد معاشرے کا اہم جزو ہیں۔ خصوصاً امجد صدیقی صاحب جیسے لوگ جنہوں نے معاشرے میں اپنا انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے اور ایک کامیاب کاروباری شخصیت کی حیثیت سے سینکڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کیا۔
امجد صدیقی صاحب جیسی شخصیت کو بلامغالبہ خصوصی افراد کے نمائندہ کے طور پر حکومتی ایوانوں میں ہونا چاہئے