نئی نسل پی ٹی وی اور پرائیوٹ ٹی وی چینلز کی کنٹرولڈ انفارمیشن سے آزاد ہوگئی ہے۔ آج ذہنوں پر شتر بے مہار سوشل میڈیا کا راج ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ خیالات کی باہمی کمیونیکیشن ہو رہی ہے جس سے ایک دوسرے کے مسائل اور سوچنے کے انداز کی سمجھ آتی ہے جبکہ منفی پہلو یہ ہے کہ غیر مصدقہ انفارمیشن کے ٹرینڈز چلتے ہی نہیں بہت تیز دوڑتے ہیں۔
سوشل میڈیا چونکہ عام شہری سے جڑا ہوا ہے اس لیے کامیاب وہی ہے جو اس کی مہارتوں کو جانتا ہے۔
انسانی ذہن بار بار نظر سے گزرنے والے مناظر سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر وہ مناظر مہارت سے فلمائے گئے ہوں تو ان کی اثر انگیزی کہیں بڑھ جاتی ہے۔ ماضی میں بھی ٹی وی چینلز پر جن پروڈکٹس کے اشتہار زیادہ چلتے تھے ان کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی تھی۔
انسانی کمزوری یہ ہے کہ بار بار سنائے یا دکھائے جانے والے امور پر یقین کرنے لگتا ہے۔ ’جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ کہ لوگ اس پر یقین کرنے لگیں کا فلسفہ اسی انسانی کمزوری کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔
آج کا انسان بہت مصروف ہے۔ باہمی روابط اور انفارمیشن کے حصول کے لیے سوشل میڈیا ٹولز کا محتاج ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج مقابلے کا بڑا میدان سوشل میڈیا ہے۔ مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گرفت رکھنے والی سیاسی و غیر سیاسی آرگنائزیشنز کامیابی سے دن کو رات اور رات کو دن بنا کر پیش کررہی ہیں۔
آج اوپن ڈائیلاگ کا فورم سوشل میڈیا ہے جس سے جڑے بغیر عام لوگوں کے خیالات تک رسائی مشکل ہوچکی ہے جو افراد یا آرگنائزیشنز سوشل میڈیا سے باخبر ہیں، بروقت اور دلیل کے ساتھ اس پر رائے زنی کی صلاحیت رکھتی ہیں، وہ کامیاب ہیں۔ اور جو آج بھی روایتی سوچ سے کام چلا رہے ہیں وہ مارکیٹ میں بری طرح پٹ رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان ایسے سیاستدان ہیں جن کی نجی زندگی و سیاسی زندگی اور دور اقتدار کے ساتھ بے انتہا کمزوریاں جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ نئی نسل کے ذہنوں پر راج کررہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی ماہر سوشل میڈیا ٹیم ہے جسے نہ صرف سوشل میڈیا ٹیکنالوجی پر عبور حاصل ہے بلکہ ان کی میڈیا ٹیم کو بہترین تھنک ٹینک کی رہنمائی بھی حاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں میں صرف عمران خان واحد سیاستدان ہیں جو جدید دور کے اصل میدان سوشل میڈیا پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کے چلائے ٹرینڈ تیزی سے پھیلتے ہیں۔ جب تک ان کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے وہ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔
ہماری نظر میں جو افراد یا آرگنائزیشنز شعور کی بیداری، سماج اور نظام میں مثبت تبدیلیوں پر کام کررہے ہیں انہیں مکمل مہارتوں اور ٹیم ورک کے ساتھ اس میدان میں آنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا کا میدان چھوڑ کر دوسرے میدانوں میں کام کرنے والے اصلاح کاروں کے غلط ادراک کی وجہ سے سماج کبھی درست رہنمائی اور درست سمت اختیار نہیں کرسکے گا۔
ایک تبصرہ برائے “سوشل میڈیا: سیاسی مقابلے کا اصل میدان”
اس کالم میں جزوی سچائی بیان ہوئی ہے۔۔ سوشل میڈیا کے نقصانات کو کم زیر بحث لایا گیا ہے ۔۔۔۔المیہ یہ ہے کہ” جھوٹ” کو شعور کا نام دے دیاگیا ہے ۔۔