آنکھ کھلتے ہی اس نے پکارا ’کہاں ہو؟‘
’تمہارے پاس ہوں’ آنکھیں ملتے ہوئے وہ بولی۔
وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ خوش کیوں نہ ہوتا! دشتِ تنہائی میں اس کی آواز کے ترنم نے اس کی سماعت کو زندگی کے ساز سے آشنا کردیا تھا۔
‘سنو ۔۔۔’
’ہوں۔۔۔۔‘
’مجھے چھوڑ کے کہیں چلے تو نہیں جاؤ گے نا؟‘
‘بھئی جیسے اس پرانی رہائش گاہ، اس شاندار محل میں ساتھ نبھایا، اسی طرح یہاں بھی نبھاؤں گا۔ اور پھر تمھارے بن میں ہوں بھی تو نامکمل ۔۔۔۔ مگر یہ تم کہاں چل دیں؟‘
وہ اس کے پیچھے پیچھے لپکا۔ اور کیا دیکھتا ہے کہ وہ زمین سے کچھ اکھیڑنے کی کوشش کررہی ہے۔
’ارے رے رے۔۔۔ یہ کیا کررہی ہو؟‘
‘بھوک لگی ہے’
‘میں ہوں نا میری جان! چھوڑو یہ کام میں کروں گا۔ دیکھو تو نازک سے ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں۔’
‘یہ گندم ہے نا، میں اس کی روٹی بناؤں گی۔’
‘ہاں ٹھیک ہے مگر اس کی کاشت، اس کی کٹائی وغیرہ سب کام میں کروں گا۔ دیکھو! میرے ہاتھ بھی کتنے مضبوط ہیں نا۔’
اس نازبرداری پہ اس کا رواں رواں جھوم اٹھا جیسے گنگنا رہا ہو۔
’پھول ہیں، رنگ ہیں، لمحوں کی صباحت ہم ہیں‘
تھوڑی دیر بعد نیامطالبہ پیش کردیا’ پیاس محسوس ہورہی ہے‘۔
میں پانی کی تلاش میں جاتا ہوں‘۔’
‘میں اکیلی۔۔۔۔ ڈر لگے گا۔ وہ دور جنگل سے بھیڑیوں کی آوازیں بھی آرہی ہیں مجھے، میں تمھارے ساتھ ہی چلتی ہوں۔’
‘میں زیادہ دور نہیں جاؤں گا۔ تم یوں کرو یہ جو حصار میں نے کھینچ دیا ہے، اس سے باہر نہ آنا اور یہ ۔۔۔ یہ لو۔۔ یہ لپیٹ لو خود کوچھپا لو اس سے ‘اور۔۔۔
’ یہ کیا ہے؟‘
’یہ حجاب ہے ‘
اور پھر جب وہ واپس آیا تو تھکن سے چور تھا۔ مگر جونہی اس پر نظر پڑی، اس کی ساری تھکن دور ہوگئی۔ اس نے پلکوں کی جھالر جو اٹھائی تو اس کی آنکھوں کی جھیل میں ڈوب جانے کو جی چاہا۔
‘بیٹھونا۔۔۔۔۔ ارے! تمھارا بدن تو تپ رہا ہے۔’ وہ اس کے لیے فکرمند ہو رہی تھی۔
‘ہاں، تمھارے سراپے سے دور وہاں باہر دھوپ بڑی کڑی ہے۔’
وہ اس کے اور قریب ہوگیا۔
‘جب بھی میرے قریب ہوتے ہو، ایک خوبصورت سا احساس بدن میں جھرجھری لیتا ہے۔ جانے اس احساس کا نام کیا ہے۔۔۔’
وہ اس سوال پر غور کر ہی رہے تھے کہ اوپر آسمان سے ایک آواز آئی:
‘سنو ! ادھر دیکھو۔ اپنے دائیں طرف نوشتہ پڑھو۔’
وہ دونوں بغور پڑھنے لگے۔
’ یہ جس انداز سے زندگی کا آغاز تم دونوں نے کیا ہے، یہی عین فطرت ہے۔ سنو! تم میں سے ایک مرد ذات ہے اور ایک عورت۔
اے مرد تم خاوند ہو اور یہ عورت تمھاری شریک حیات ۔ فطرت پہ جب تک رہو گے، خوش رہو گے، فتنوں سے محفوظ رہو گے۔ اور ہاں اے عورت ذات! ابھی تم نے جو محسوس کیا، اس خوبصورت احساس کا نام ہے ‘حیا’۔
سنو! اس احساس کو مرنے نہ دینا ورنہ بے وقعت ہوکے رہ جاؤ گی۔ تم دونوں آگاہ رہو جس بدبخت نے تمھیں تمھارے اس عالی شان محل سے نکلوایا تھا وہ تمھارا ازلی دشمن اپنے لاؤ لشکر سمیت تمھاری اس دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ وہ تم دونوں کو اپنے اپنے مقام سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ حیا کے احساس کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہوگا۔ اس مقصد کے لیے بڑے دلکش نعرے تمھیں سکھانے کی کوشش کرے گا۔ یاد رکھو اس کی پہلی ندا پر لبیک کہہ دیا تو گویا فتنوں کی دلدل میں قدم رکھ دو گے۔ اس لے اس سے بچ کے رہنا۔’
وقت گزرتا گیا۔۔۔یہ دو وجود دو نہ رہے، آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی کا رشتہ وجود میں آیا۔ نند، بھاوج، دیور ،جیٹھ سبھی رشتے تخلیق ہوتے گئے۔ خاندان بنتے گئے سادگی، قناعت اور جانفشانی کے ساتھ
جب تک شرم و حیا کا چلن معاشرے میں رہا،زندگی پرسکون رہی، دن عید اور رات شبِ برات رہی۔
مگر وہ ازلی دشمن کب چین سے بیٹھنے والا تھا۔ وہ پاکیزہ اور سچی محبت کرنے والے دو دلوں کا دشمن خوب منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آیا۔
اس نے ابن آدم کے قلب کو جنسی بے راہ روی اور ہوس پرستی کے جذبات سے بھر دیا۔ بنت حوا کے چہرے سے حجاب کھینچ اتارا، حیا باختگی اور بد چلنی کے گھنگرو اس کے پاؤں میں پہنا دیے اور اسے بیچ بازار ناچنے کا حکم دیا۔
مردوں کا ہجوم بڑھتا گیا وہ ناچتی رہی۔ ازلی دشمن کے ایک چیلے نے آگے بڑھ کر بنت حوا کے تن پر جو لباس نام کی چیز رہ گئی تھی وہ بھی تار تار کردی۔ قہقہے بلند سے بلند ہوتے گئے، بڑے سرمایہ دار کی تجوری بھرتی گئی، توند بڑھتی گئی۔ نسلوں کی امین، گھر کی ملکہ ، نزاکت وحسن کااستعارہ ، باباآدم کی شہزادی ۔۔۔۔۔۔عورت ذات کو بازار کی رونق بناچکنے کے بعد، اس کے تن ڈھانپنے کے فطری حق کو متنازعہ بنا دینے کے بعد ازلی دشمن کے گماشتوں نے توجہ کی اس مستحکم حصار کی طرف جو باباآدم نے اس کے لیے کھینچا تھا۔
بین الاقوامی ساہوکار، دنیاکے بڑے سرمایہ دار کی توند اور تجوری بھرنے کےلیے لازمی ٹھیرا کہ صنف نازک انسانی نسل کی افزائش وتشکیل کی فطری ذمہ داری سے جان چھڑائے اور سرمایہ داری کے نظام کی خدمت میں جت جائے۔ وہ مضبوط حصار۔۔۔۔۔۔گھر۔۔۔۔۔ خاندان۔۔۔۔ بڑی رکاوٹ تھا لہذا اسے توڑنے کی جستجو شروع ہوئی۔ایسے سلوگنز ، مراعات ، تعیشات متعارف کرائے گئے کہ نسلوں کی معمار احساس کمتری کاشکارہونے لگی۔
سب رشتے متنازعہ ٹھیرے۔اک غیرمتنازعہ رہا توبس تجارت کارشتہ۔
حصار ٹوٹنے لگا، بس! دیواریں رہ گئیں، گھر منہدم ہونے لگے۔ کھڑکیاں بچ گئیں، بنیادیں ڈھے گئیں، روزن رہ گئے، ستون ہٹادیے گئے ۔
اب جو ،شہزادی غیرمحفوظ ہوئی توپہنچی فیکٹری میں ، کھڑی ہوگئی مالز میں ، آرٹ کی ’خدمت‘ کا ٹھیکہ لے لیا۔
زمین کے ننھے فرشتوں کو، شہزادی کے بچوں کو ازلی دشمن نے اپنے زیرتربیت لیا۔۔۔آہ۔۔۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ معاشرے میں چوروں، ڈاکوؤں ،قاتلوں، بدمعاشوں کی بہتات ہوگئی۔
ازلی دشمن کے چیلے، بین الاقوامی سرمایہ دار کے گماشتے ساراسرمایہ کھینچ اپنے ملکوں میں لے گئے ۔ مجبوروں ، غلاموں ، محکوموں کی قبروں پہ اپنے عالیشان محل ، خوبصورت شاہراہیں ، مضبوط پل ، پارکس ، دفاتر ، ریسرچ سنٹرز بنانے والوں نے ساری بھوک، ساری محرومیاں تیسری دنیاکی طرف دھکیل دیں۔ ساتھ انھیں ایک دلفریب نعرہ دے دیا:
‘ویمنز امپاورمنٹ’
آج یہ نعرہ بڑا دلکش ہے ، ببانگ دہل ہے، مارکیٹ میں چالو ہے۔مگر آہ!
باباآدم کی شہزادی ، بنت حوا چور چور ہے۔
فطری ذمہ داریاں نبھانا چاہتی ہے تو سرمایہ دار کا بھونپو میڈیا اسے’ قید و محصور ‘ کے طعنے دیتاہے۔
رشتوں کاتقدس نبھاناچاہتی ہے تو تربیت و تطہیرفکر سے محروم معاشرہ اس کی نازک کمر پہ بوسیدہ رواجوں کے وہ تازیانے برساتاہے کہ بس! وہ ٹوٹ کے رہ جائے۔
قانون، سیاست وتعلیم کے میدان میں قدم رکھناچاہتی ہے تو ضابطہ طے ہے کہ اس میدان میں بھی شوپیس بن کے آؤ، مرد ذات کے کندھے سے کندھاملاتی ہوئی آؤ تاکہ وہاں موجود مردحضرات کی آنکھیں پل بھر کے لیے بھی ‘لذت بصارت’ سے محروم نہ رہیں۔
اپنے حجاب کے ساتھ تحقیق وسائنس کے شعبہ میں قدم رکھتی ہے تو انصاف، عدل ، انسانیت کے تمام ضابطے بالائے طاق رکھ کر اسے اس کے اپنے ملک سے اٹھالیاجاتاہے۔نام نہاد، عدالت، اسے 80سال کی سزا سناڈالتی ہے۔
یورپ اورمغرب کی عورت
یورپ اور مغرب کی عورت خودکو ملنے والے’ حقوق’ اور’آزادی’ کاجوخمیازہ بھگت رہی ہے اس کی صرف ایک مختصر سی جھلک امریکی ادارہ ، national crime victimization survey,Bureau of justice statistics, U .S dept of justice 1995 , 2003کی صرف ایک رپورٹ میں ملاحظہ کیجیے کہ جس کے مطابق امریکہ میں
ہر پانچ میں سے ایک جنسی زیادتی عوامی جگہوں یاپارکوں میں ہوتی ہے۔
29فیصدمتاثرہ خواتین کے مطابق مجرم اجنبی ہوتے ہیں۔
59فیصد زیادتی کے واقعات شام چھ بجے سے صبح چھ بجے کے ۔درمیان ہوتے ہیں
16فیصدزیادتی کے واقعات میں مجرم اسلحہ استعمال کرتاہے۔
ہسپتالوں میں شعبہ حادثات میں 33فیصد عورتیں زیادتی کاشکارہوتی ہیں
آج کی بات تو یہی ہے کہ
عورت زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ
مجھے میراچھناہوامقام چاہیے۔
مجھے تحفظ چاہیے۔
مجھے اپنے اور اپنوں کی پذیرائی چاہیے۔
مجھے میری شناخت چاہیے۔
مجھے فطرت پہ زندہ رہنے کاحق چاہیے۔
میں ٹوٹ چکی ، میں کراہ رہی ہوں ۔
تو۔۔۔ ہے کوئی
انسانیت نواز۔۔۔۔؟؟
ہے کوئی مسیحا۔۔۔؟؟
کوئی محسن ۔۔؟؟
کوئی دردآشنا۔۔۔؟؟؟
زخموں سے چور اے عورت ذات!
تو جو ہوش وخردکی سماعت کےساتھ سنے تو کہوں کہ
مسیحابھی۔
دردآشنا بھی ۔۔
معاملہ فہم بھی۔۔
محسن بھی۔۔۔
ہے ناں ایک۔
ارے تو قدردان ہو تو آ تجھکو دکھادوں۔۔۔۔ زمان ومکان کے پردے سرکا ذرادیکھ یہ منظر۔۔۔
مردحضرات بیٹھے ہیں۔معاشرہ وہ جہاں بیوی سے محبت کاتذکرہ معیوب ہے۔ پوچھاجاتاہے’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے زیادہ محبوب کون ہے؟
جواب آیا’عائشہ ‘
پوچھنے والا جھینپ ساگیا ،نہیں مردحضرات میں ؟
جواب آیا ‘عائشہ کاباپ‘
ایک اورمنظردیکھو
جس معاشرے میں نومولود بچی کو زندہ درگورکردیاجاتا تھا وہاں محسن نسواں صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تربیت ملاحظہ کرو۔
کسی سفر میں تھے،ازواج مطہرات ہمراہ تھیں ، ساربانوں نے اونٹوں کو تیز تیز چلاناشروع کردیا۔فرمایا:’آرام سے بھئی آبگینے ہیں آبگینے۔۔‘
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ آبگینے اپنی شناخت پہچانیں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے یہ اشعار ان آبگینوں کے مقام کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ پیام عمل بھی دیتے ہیں۔۔۔
خاتونِ اسلام سے خطاب
ای ردایت پردہ ی ناموس ما
تاب تو سرمایہَ فانوس ما
طینت پاک تو ما را رحمت است
قوت دین و اساس ملت است
کودک ما چون لب از شیر تو شست
لا الہ آموختی او را نسخت
می تراشد مہر تو اطوار ما
فکر ما گفتار ما کردار ما
ای امین نعمت آئین حق
در نفسہای تو سوز دین حق