پاکستانی-نوجوان-لیپ-ٹاپ-کے-سامنے-کریڈٹ-کارڈ-پکڑے-ہوئے

آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری: پڑھے لکھے نوجوان آن لائن فراڈ کے شکار کیسے بنتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رواں برس 8 جنوری کی شام حارث معمول کے مطابق دفتر سے نکلے مگر وقت پر گھر نہ پہنچ سکے۔ گھر والوں کے رابطہ کرنے پر اُن کا موبائل بند جا رہا تھا۔

رات گئے حارث کی بہن کو اُن کے واٹس ایپ نمبر سے مسیجز موصول ہوئے جن میں بتایا گیا تھا کہ ’ہم نے جو کرنا تھا کر لیا ہے، اور تمھارے لڑکے کو واپس بھیج دیا ہے۔‘

ایک اور میسج میں کہا گیا کہ ’حارث کو شاید واپس پہنچنے میں تھوری دیر لگ جائے کیونکہ اُن کی موٹرسائیکل میں پیٹرول ختم ہو گیا تھا۔‘

حارث کے نمبر سے یہ پیغامات موصول ہونے پر اُن کے گھر والوں کو لگا کہ شاید اس کا موبائل چھین لیا گیا ہے۔ مگر صبح ہونے تک جب حارث واپس نہیں آئے تو اُن کے والد نے پولیس میں اُن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔

جب پولیس نے حارث کے موبائل کی لوکیشن ٹریس کی تو اس کی لوکیشن پہلے کراچی کے مضافات میں واقع سبزی منڈی اور پھر سندھ میں سکرنڈ شہر میں آئی۔ اس کے بعد ان کا نمبر بند ہو گیا۔

اسی اثنا میں حارث کے والد کو معلوم ہوا کہ اُن (والد) کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ دو لاکھ روپے مختلف اکاؤنٹس میں منقتل کیے گئے ہیں۔

اس دوران گھر والے اور پولیس حارث کو تلاش کرتے رہے۔ دو دن کی مکمل خاموشی کے بعد حارث کے موبائل نمبر سے دوبارہ میسجز موصول ہوئے جس میں انھوں نے اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لاہور میں ہیں۔

حارث نے اپنے گھر والوں کو یہ بھی بتایا کہ انھیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ والد کے ڈر سے گھر سے بھاگ گئے ہیں۔ حارث نے بتایا کہ دراصل انھوں نے اپنے والد کے پیسے ایک آن لائن بزنس میں لگائے تھے جو ڈوب گئے اور والد کے غصے کے ڈر سے گھر سے بھاگ گئے۔

حارث اب گھر واپس آ چکے ہیں لیکن انھیں اپنے پیسے واپس ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

حارث کراچی کے علاقے شفیق موڑ پر واقع ایک ایکسپورٹ کمپنی کے سپلائی چین ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔

حارث نے بتایا کہ اس کہانی کا آغاز ایک واٹس ایپ میسج سے ہوا تھا۔

’مجھ سے رابطہ کیا گیا اور مجھے آن لائن جاب کی آفر دی گئی۔ رابطہ کرنے والوں نے کہا کہ مجھے یوٹیوب کے چینلز سبسکرائب کرنے ہوں گے، اور تین چینل کامیابی سے سبسکرائب کرنے پر جیز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعے 600 روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائیں گے۔‘

حارث کہتے ہیں اُن کو یہ کام بہت آسان لگا اور ابتداً انھوں نے فوراً بتائے گئے تین چینلز سبسکرائب کر لیے۔ اس کے بعد انھیں ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ پر ایک نمبر پر رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ جب انھوں نے اپنے ’ٹاسک‘ کا سکرین شاٹ اور اکاؤنٹ کی تفصیلات بھیجیں تو اُن کو تھوڑی ہی دیر میں 600 روپے موصول ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ رقم کی منتقلی پر ان کا اعتماد بڑھا کہ شاید یہ اصلی نوکری ہے۔ ’اِس کے بعد مجھے ایک گروپ میں ایڈ کیا گیا جہاں مزید 12 ٹاسک دیے گئے جن میں کچھ چینلز کو لائیک کرنا تھا اور کچھ جگہوں پر آن لائن ووٹنگ میں حصہ لینا تھا۔ اس کام کے بدلے میرے اکاؤنٹ میں تقریباً 1200 روپے بھیجے گئے۔‘

حارث کو بتایا گیا کہ اگلے مرحلے میں انھیں ایک کرپٹو ایکسچینج میں سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

’مجھے بتایا گیا کہ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو مجھے مزید 9,800 روپے ملیں گے۔‘

حارث نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کر دی اور پھر وہی ہوا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ’پیسے بھیجنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی 9,800 روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئے۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے تھے تاکہ ثابت کر سکیں کہ بھئی دیکھ لو ہم قابل اعتبار لوگ ہیں۔‘

اس کے بعد حارث کو ایک اور ٹاسک دیا گیا جس کے بدلے انھیں 1800 روپے ملے۔ اس کے بعد دوبارہ کرپٹو میں 18 ہزار کی سرمایہ کاری کرنے کو کہا گیا جس کے بدلے انھیں 35 ہزار روپے دیے جانے کی خوشخبری سُنائی گئی۔

تاہم اس مرتبہ جب حارث نے 18 ہزار بھیج دیے تو اُن کو بتایا گیا کہ انھیں مزید 58 ہزار انویسٹ کرنا ہوں گے اور اگر وہ یہ نہیں کرتے تو اُن کے پہلے کے پیسے بھی واپس نہیں ملیں گے۔

’ان لوگوں نے کہا کہ آپ کو فوراً سرمایہ کاری کرنا ہو گی، اگر فوراً نہیں کریں گے تو آپ کا کریڈٹ سکور کم ہو جائے گا۔ مجھے رقم بھیجنے میں 10 سے 15 منٹ لگ گئے اور اس دوران میرا کریڈٹ سکور 100 سے کم ہو کر 90 ہو گیا۔‘

اور اس کے بعد مزید سرمایہ کاری کے تقاضے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حارث کو بتایا گیا کہ جب تک ان کا کریڈٹ سکور 90 سے واپس 100 نہیں ہو جاتا تب تک وہ اپنے پیسے اکاؤنٹ سے نکال نہیں سکیں گے۔ اُن کو مختلف اوقات میں تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار روپے مزید ٹرانسفر کرنے کو کہا گیا۔

’میں نے وہ بھی کر دیا، اور کریڈٹ سکور 95 تک پہنچ گیا۔‘

اس کے بعد اُن کو کہا گیا کہ اگر وہ مزید ڈیڑھ لاکھ روپے ڈالتے ہیں تو ان کا کریڈٹ سکور 100 ہو جائے گا اور وہ اپنے جمع شدہ تمام تر پیسے نکال پائیں گے۔ مگر تب تک حارث اپنے والد کے اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم خرچ کر چکے تھے چنانچہ جب انھوں نے مزید پیسے بھیجنے سے معذوری ظاہر کی تو انھوں فوری تمام گروپس سے نکال کر بلاک کر دیا گیا۔

حارث کہتے ہیں کہ ’میں اب بھی اس کرپٹو کی ویب سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ لاگ ان کرتا ہوں تو وہاں میرا اکاؤنٹ وہاں شو ہو رہا ہے لیکن وہ پیسے میں نکال نہیں سکتا۔‘

حارث وہ واحد فرد نہیں ہیں جنھیں فراڈ کرنے والوں نے آن لائن کام اور سرمایہ کاری کا جھانسہ دے کر لوٹا ہے۔

دانش لاہور کی ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں اور وہ اپنا خرچ اٹھانے کے لیے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ حال ہی میں وہ بھی ایسے ایک فراڈ کا شکار ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب انھیں واٹس ایپ پر آن لائن کام کے لیے مسیجز آئے تو انھیں لگا کہ یہ اصلی ہیں۔ شروع میں انھیں گوگل میپ پر مختلف جگہوں کے ریویو کرنے ہوتے تھے اور ہر ٹاسک کے بدلے انھیں 200 روپے ملتے تھے۔ ’ہر چند ایک ٹاسک کے بعد ایک ٹاسک ایسا ہوتا تھا جس میں مجھے سرمایہ کاری کرنے کو کہا جاتا تھا۔ پہلی بار 7,000 روپے انویسٹ کرنے کو کہا گیا اور کچھ ہی دیر میں لگائی گئی رقم منافع کے ساتھ واپس مل گئی۔‘

اگلے مرحلے میں انھیں 18 ہزار کی سرمایہ کاری کرنے کو کہا گیا۔ اور جب دانش نے پیسے بھیج دیے تو انھیں بتایا گیا کہ اس کے بعد انھیں ایک کمپنی میں ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی جس کے بعد ہی ان کی رقم بمع منافع واپس ملے گی۔

’میں نے انھیں بتایا کہ میں سٹوڈنٹ ہوں میرے پاس اتنے پیسے نہیں۔ اگر میرے پاس ہوتے تو شاید میں کر بھی دیتا کیونکہ وہ لوگ مجھے صحیح لگ رہے تھے۔‘

مگر جیسے ہی انھوں نے مزید سرمایہ کاری سے انکار کیا، ان کو بھی گروپ سے نکال کر بلاک کر دیا گیا۔

ایسی ہی ایک کہانی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کہ کیسے انھوں نے ایک سکیم میں تقریباً 70 ہزار روپے گنوائے ۔

جب انھوں نے تقریباً 70 ہزار لگانے کے بعد اپنی رقم کا تقاضہ کیا تو انھیں گروپ سے نکال کر بلاک کر دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے اس گروپ میں جو دوسرے لوگ تھے وہ اُن کے اپنے بندے تھے۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ اس کی رپورٹ کیوں نہیں درج کرواتے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے شرم آتی ہے کہ مجھ جیسا پڑھا لکھا شخص اس فراڈ کا شکار ہو گیا۔ بس سمجھ لیں میں نے ایک مہنگا سبق سیکھا ہے اس سے۔‘

کراچی کے حارث بھی اس معاملے کی رپورٹ نہیں کروانا چاہتے۔ وہ کافی دل برداشتہ ہیں اور کہتے ہیں کہ شکایت کرنے کا کیا فائدہ، پیسے تو واپس نہیں ملنے۔

نگہت داد پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں جو غیر سرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ کئی لوگ صرف اس شرمندگی کے باعث کہ وہ کیسے کسی کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے، شکایت درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔

نگہت کہتی ہیں کہ لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ اس میں اُن کی کوئی غلطی نہیں اور کوئی بھی شخص ایسے فراڈ کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ ’یہ فراڈ بڑی مہارت سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فراڈ کرنے والوں کے پاس لوگوں کا ڈیٹا ہوتا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔

’خراب معاشی حالات کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں اور اُن کو جب بھی کوئی کمائی کا موقع نظر آتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق عام افراد کی ایسے سکیم کا باآسانی شکار ہونے کی ایک اور وجہ سلیبریٹیز (معروف شخصیات) کی جانب سے آن لائن نوکریوں اور کمائی کے مواقع کے بارے میں کی جانے والی تشہیر ہے۔‘ یہ سلیبریٹیز اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز آپ کو یہ نہیں بتاتے کہ آپ آن لائن فراڈ سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‘

نگہت داد کہتی ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں پاکستان میں مالیاتی فراڈ کے کیسوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اُن کی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن پر سنہ 2023 کے دوران مالیاتی فراڈ کی تقریباً 750 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ’اگر ہمیں، ایک پرائیویٹ تنظیم کو، اتنی شکایات موصول ہوئی ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اصل تعداد کتنی ہو گی۔‘

ایف آئی اے سائبر سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفور کے مطابق صرف کراچی سے آن لائن فنانشل فراڈ کی روزانہ کی بنیاد پر 20-15 شکایتیں موصول ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی 90 فیصد شکایات فنانشل فراڈ سے متعلق ہوتی ہیں۔

رافع بلوچ سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے فراڈ میں استعمال ہونے والی برانچ لیس بینکنگ اپلیکیشنز کے اکاؤنٹ سادہ لوح افراد کے نام پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ اُن کے مطابق سکیمرز ان لوگوں کو بھی نوکری اور دوسرے لالچ دے کر اُن کے نام پر اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اور پھر ان اکاؤنٹس کو دوسروں کے ساتھ فراڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان جرائم میں ملوث افراد کے پکڑے نہ جانے کے متعلق بات کرتے ہوئے عبدالغفور کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ جعلی سموں پر رجسٹرڈ برانچ لیس بینکنگ ایپس کا استعمال ہے۔ ’جن کے نام پر سم رجسٹرڈ ہوتی ہیں، اُن کو اس کے متعلق علم بھی نہیں ہوتا اور ملزمان دور افتادہ علاقوں میں بیٹھ کر ان ایپس کے ذریعے لوگوں سے فراڈ کر رہے ہوتے ہیں۔‘

نگہت داد کہتی ہیں کہ کسی بھی نئی کمپنی کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے سے پہلے آپ اس کے بارے میں مناسب تحقیق ضرور کر لیں۔

’کئی لوگ کمپنیوں کے بارے میں گوگل یا اُن کے سوشل میڈیا پیجز پر ریویو چھوڑتے ہیں، اس سے آپ کو کافی حد اندازہ ہو سکتا ہے کہ آیا کمپنی صحیح ہے یا نہیں۔‘

ایف آئی اے کے عبدالغفور بھی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ کسی بڑے سٹور سے آن لائن خریداری کرتے ہیں تو آپ کو پتا ہوتا ہے کہ آپ کے پیسے کہاں جا رہے ہیں اور آپ کو کیا سامان ملے گا۔ اس ہی طرح سرمایہ کاری میں بھی قابل بھروسہ کمپنیوں کا انتخاب کریں۔‘

ان کا مشورہ ہے کہ اگر کسی کو پیسے بھیجیں تو اُن کے بینک اکاؤنٹ کو ڈیجیٹل ایپس پر ترجیح دیں۔ ’ڈیجیٹل ایپس کے برعکس، جو اکثر جعلی سمز استعمال کرتے ہوئے کھولی جاتی ہیں، بینک اکاؤنٹس کی فزیکل ویریفیکیشن ہوتی ہے اور فراڈ کی صورت میں ملزمان کے پکڑے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘

تاہم نگہت داد کہتی ہیں کہ اس سب کے باوجود اس نوعیت کے فراڈ سے بچنا کافی مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سکیمرز اپنے پاس موجود ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ’ٹارگٹیڈ مارکیٹنگ‘ کرتے ہیں۔ ’اُن کو آپ کی سماجی اور معاشی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ اس بات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو ایسے فراڈ سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اِس علاوہ حکومت کو چاہیے کہ عام شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے تاکہ ایسے سکیمز کا تدارک ہو سکے۔(بشکریہ بی بی سی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں