گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ بتاتی ہے کہ انسانی تاریخ میں، دنیا میں سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات کب اور کہاں ہوئے تھے؟
یہ ’اعزاز‘ ایک افریقی ملک لائبیریا کو حاصل ہے۔ 1927 میں وہاں صدارتی انتخابات ہوئے۔ لائبیریا اور امریکا کی دوہری شہریت رکھنے والے ایک سیاست دان ’چارلس ڈی بی کنگ‘ نے انتخابات میں ایسی ’عظیم الشان‘ کامیابی حاصل کی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ یہ ایسے بے مثال انتخابات تھے کہ ان کی نظیر دنیا کا کوئی بھی معاشرہ پیش کرنے سے کم از کم اب تک قاصر رہا۔
اُس وقت لائبیریا میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 15 ہزار تھی۔ تاہم سابق وزیر خارجہ ’چارلس ڈی بی کنگ‘ نے 2 لاکھ 34 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدمقابل بے چارے امیدوار کے حصے میں صرف 9 ہزار ووٹ آئے۔ آج بھی لائبیریا کے عوام جب 1927 کے مذکورہ بالا صدارتی انتخابات کا سوچتے ہیں تو ان کے چہروں پر عجب شرمیلی سی مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخابات اس لیے یاد آئے کہ پاکستان میں بھی حالیہ عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی، دھاندلی اور دھاندلی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سوچا کہ کہیں ہم نے لائبیریا کا ریکارڈ نہ توڑ ڈالا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں توڑا۔ باقی کوشش کی جاتی رہے تو کیا نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں، چاہے وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ عام تاثر بھی یہی ہے کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات نے سویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن کا وہ قول غلط ثابت کردیا جس کا پچھلے کسی کالم میں حوالہ بھی دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ووٹ گننے والے فیصلہ کرتے ہیں۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں 2018 سے بھی زیادہ دھاندلی ہوئی۔
پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے ایک ہفتہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انتخابی نتائج کا فیصلہ کس نے کیا؟ نہ انتخابی میدان میں اترنے والوں کو پتہ چلا نہ ہی ووٹروں کو سمجھ آئی۔ ایک من چلے نے یہاں تک کہہ دیا کہ انتخابات کا انتظام کرنے والے ادارے کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ فیصلہ کس نے کیا۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اور کسی کو پتہ ہو یا نہ ہو، نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراطلاعات و نشریات ضرور جانتے ہیں کہ انتخابی نتائج کا فیصلہ کس نے کیا۔ لوگوں کو اس بات کا بالکل اسی طرح یقین ہے جس طرح انھیں کل صبح سورج طلوع ہونے کا یقین ہو۔ دونوں عظیم رہنما جب میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو ان کے چہرے بتاتے ہیں کہ انھیں سب پتہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
الیکشن ہوگئے! اب کیا ہونے جا رہا ہے؟
پاکستان میں پالیٹیکل اسپیس کا مسئلہ
اب اگلا سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج کا جس نے بھی فیصلہ کیا، اس نے کیا فیصلہ کیا؟
سیاسی جماعتوں کے کارکنان کہتے ہیں کہ عجیب فیصلہ ہے، جو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد جو ’فارم 45‘ کی صورت میں فیصلہ سامنے آتا ہے ، وہ جب ’ فارم 47‘ میں لکھا جاتا ہے تو کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ مثلاً اگر ’فارم 45‘ میں درج ہوتا ہے کہ 19 ہزار ووٹ لیے گئے، لیکن یہ تعداد’ فارم 47‘ میں 9 ہزار ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا سب امیدواروں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ صرف انہی کے ساتھ ہوتا ہے جن کی جماعت دھاندلی کے خلاف احتجاج کا اعلان کرتی ہے۔ اگر وہ اعلان نہیں کرتی تو 19 ہزار ہی لکھا نظر آتا ہے بصورت دیگر 9 ہزار ہو جاتا ہے۔
انتخابات اور ان کے نتائج کا نظارہ کرنے والے دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نواز شریف ایک طرف کھڑے سوچ رہے ہیں کہ ’ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘۔ وہ تن تنہا حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ دوسری طرف حضرت مولانا فضل الرحمن ششدر کھڑے ہیں۔ انھیں کیک میں اچھا خاصا حصہ ملنے کا یقین تھا۔ ایسی وفاقی حکومت جس میں اچھے خاصے جُسّہ کے ساتھ موجود ہوں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی ان کی ہوں گی۔ لیکن یہ کیا؟ قومی اسمبلی میں چار، خیبرپختونخوا میں سات اور بلوچستان میں گیارہ سیٹیں۔ اے این پی اور جماعت اسلامی کو بھی ایسے نتائج کی توقع نہ تھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے گروہ منہ بسورے کھڑے ہیں۔ یہ سب سڑکوں پر نکلنے اور ایک بڑی احتجاجی تحریک کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پاکستانی قوم بھی حیران کھڑی ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان انتخابات نہیں کروا رہا تھا تو بحران میں تھا۔ اس بحران سے نجات پانے کے لیے الیکشن کروائے تو اس سے بھی بڑے بحران میں پھنس گیا۔
میری دانست میں یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہوسکتا ہے، اور اس کا راستہ بھی نہایت آسان ہے۔
موجودہ نگراں حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان سے ایک درخواست کے ذریعے ایک کمیشن قائم کرائے جہاں ہر شکایت کنندہ پہنچ سکے، کسی کی راہ نہ روکی جائے۔ وہاں فارم 45 اور فارم 47 کا موازنہ کرلیا جائے، دونوں کی صحت کا جائزہ لیا جائے۔ اس کی روشنی میں شکایت کنندہ کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان کردیا جائے۔ نہایت سادہ اور آسان حل ہے بشرطیکہ کوئی تنازعہ حل کرنا چاہے۔ کیونکہ ہر امیدوار اور ہر گروہ یہی ایک مطالبہ کر رہا ہے۔
لیکن اگر ملک اور قوم کا ’وسیع تر مفاد‘ اسی میں ہے کہ جو نتائج تیار کیے گئے ہیں، انھیں بلاچوں چراں قبول کیا جائے، ان پر کوئی انگلی نہ اٹھائی جائے، کوئی شکایت لب پر نہ لائی جائے تو پھر مان لینا چاہیے کہ ملک اور قوم کا ’وسیع تر مفاد‘ اسی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
اگرچہ آٹھ فروری کے عام انتخابات بذات خود ایک انہونی ہیں لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑی انہونیاں ہو رہی ہیں۔ یہ چھوٹی انہونی ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمان اور جناب عمران خان پچھلے چھتیس گھنٹے سے ایک دوسرے پر واری جا رہے ہیں؟ مولانا ایک طرف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے بے وفائی کا گلہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف والوں کے گلے میں بانہیں ڈالے انھیں منانے کی کوشش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
مولانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار سیاست دان ہیں۔ اگر انھوں نے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی بات کی ہے تو خواہ مخواہ نہیں کی۔ اور یہ کہ وہ اپوزیشن بینچوں پر نہیں بیٹھیں گے۔ اور جو کچھ مولانا کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، ممکن ہے کہ اس کے پیچھے تین بار وزیراعظم رہنے والے محمد نواز شریف ہوں۔
ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حضرت مولانا فضل الرحمن ، جناب محمد نواز شریف اور جناب عمران خان ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر قہقہے لگا رہے ہوں۔ اور جناب آصف زرداری اور ان کے فرزند ارجمند بلاول بھٹو زرداری سمندر کی طرف منہ بسورے کھڑے ہوں۔ فی الحال اسے ایک سازشی نظریہ کے طور پر پڑھ لیجیے۔ اور پھر آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
ایک تبصرہ برائے “الیکشن 2024 اور اسکے نتائج: اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا”
اچھا ہے۔۔۔۔۔۔امکانات پہ ہی بات ہوسکتی تھی۔۔۔۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ۔