عاصمہ شیرازی
ہم کہ وہ مسافر جو اُلٹے پاؤں سفر میں ہیں۔ انتخابات کے نام پر چُنتخابات اور عوام کے نام پر خواص کے فیصلے پچھتر برسوں کا قصہ ہے کوئی نئی بات نہیں۔
برس ہا برس سے سیاست مخالف بیانیہ کسی کام تو آیا۔ پچھتر برسوں میں سیاست دانوں کے خلاف ذہن سازی نے اعتبار اور معیار دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب جو بُت تراشا ہے وہی پوجا جائے گا۔ مقبولیت مطلق العنانیت میں بدل چکی ہے۔ اب پچھتاوے کیا ہووت۔
عمران خان کی سیاست سے لاکھ اختلاف مگر سچ تو یہ ہے کہ تمام اندازے، بیانیے، قیافے اور تخمینے قطعی طور پر مسترد ہو چکے ہیں۔ اس کا کریڈٹ عمران خان کو بالکل نہیں جاتا بلکہ اُن قوتوں کو ضرور جاتا ہے جو غیر مقبول ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ حامی نہیں مخالف ووٹ اور ووٹر ہے۔ اس کا کریڈٹ روایتی سیاسی قیادت اور طرز سیاست کے سر بھی ہے جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
اب کی بار پنجاب کا نوجوان ووٹر اور خواتین متحرک ہوئی ہیں۔ پرچی کے اس انقلاب میں نوجوانوں کی شمولیت اور دلچسپی نے انتخاب کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔ جمہوریت کی فتح ہے کہ فیصلہ کُن ووٹر جمہوری عمل میں شراکت دار بنا تاہم ایک بار پھر جمہور کی رائے کو احترام نہیں ملا۔
عوام نے عام انتخابات میں فیصلہ سُنایا ہے۔ فیصلہ ساز حیران ہیں اور پریشان بھی کہ لاکھ جتن ہارے، ہینگ بھی دیا اور پھٹکری بھی اور رنگ پھر بھی نہیں آیا۔
ن لیگ بند کمروں سے نہ نکلی، نواز شریف جس ’پاسبل مشن‘ پر آئے وہ ’مشن امپاسبل‘ بن گیا۔ مزاحمت کی بجائے مفاہمت، نظریے کی جگہ مصلحت اور بیانیے کی جگہ سمجھوتے کو ملی۔ اُمید ہے کہ ن لیگ بطور جماعت محاسبہ کرے گی کہ نوشتہ دیوار ناکامی وقت سے پہلے پڑھی کیوں نہ گئی؟
21 اکتوبر کے بعد جنوری کے تیسرے ہفتے میں انتخابی مہم کا آغاز اور وہ بھی بیانیے کے بغیر۔ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے ’مجھے ووٹ دلواؤ‘ کا بیانیہ اور وسطی پنجاب یا پنجاب تک محدود ہو جانے والی سیاسی جماعت واضح طور پر کندھوں کی متلاشی رہی۔ عوام سے دوری، مسائل کی عدم نشاندہی اور بیانیے کی کمزوری کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے مراسم ن لیگ کی شکست کی بنیادی وجہ بنے۔
انتخابی مہم کا انحصار میاں نوا ز شریف پر تو کیا گیا مگر بکنے والی پراڈکٹ کو بغیر آواز بیچنے کی کوشش کی گئی۔ میاں نواز شریف کو نہ تو کھُل کر مہم چلانے دی گئی اور نہ ہی کسی اور نے چلائی۔ بھلا وہ کیا بیانیہ دیتے کہ جن کے سبب بیمار ہوئے تھے اُسی سے دوا مانگ رہے تھے۔ بیانیے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام نکل چُکا تھا اور شاید وقتی مجبوری بھی تھی اور دوری ضروری بھی۔
اب جب ریاست بند گلی میں ہے تو راستہ سیاسی جماعتوں ہی نے نکالنا ہے۔ ہم پھر ماضی میں کھڑے ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کو مشکل فیصلے کرنا ہیں۔ مقتدرہ سیاسی جماعتوں کے سامنے کھڑی ہے اور ہاتھ میں چھڑی ہے۔ فیصلہ صادر ہے کہ سب مل جُل کر اچھے بچوں کی طرح مملکت چلائیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی وزارت عظمیٰ کا نہ تو دعویٰ دار ہے اور نہ ہی حق دار۔
پاکستان پیپلز پارٹی اعداد کے ہیر پھیر میں بادشاہ بنانے اور گرانے میں اہم ہے اور مذاکرات کی میز پر آئینی عہدوں، پنجاب کی وزارت اعلیٰ، بلوچستان کی حکومت کے پتے پھیلائے بیٹھی ہے تاہم وفاق میں وزیراعظم کو ووٹ دینے کے علاوہ قطعی طور پر حکومتی عہدوں کے حصول میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
ن لیگ پنجاب حکومت بنانا چاہتی ہے جبکہ بلوچستان اور پختونخوا کی قوم پرست جماعتیں خود کو دیوار سے لگا محسوس کر رہی ہیں۔ شراکت اقتدار میں اُنھیں اور جے یو آئی ایف کو حصہ نہ ملا تو مشکل اور اگر مل گیا تو مسئلہ۔
تحریک انصاف نہ اقتدار میں دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی مقتدر اُن سے بات کرنے کو تیار۔ خیر پختونخوا میں تحریک انصاف ابھی سے جلوہ دکھا رہی ہے اور صوبے کی پولیس قیادت کو دھمکیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ البتہ تحریک انصاف کی جیل سے باہر قیادت آگے بڑھنا چاہتی ہے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اب اس سے زیادہ محاذ آرائی ممکن نہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ سب جماعتیں اب ایک میز پر بیٹھیں، عمران خان انکاری ہوں تو بھی اُن کے نمائندوں کو میز پر لایا جائے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی استحکام کی ضمانت بھی ہے جو دستیاب نہیں ہے۔ کیا حکومت سازی سے قبل سیاسی جماعتیں میثاق معیشت کی راہ ہموار کر پائیں گی؟( بشکریہ بی بی سی )
ایک تبصرہ برائے “ریاست بند گلی میں”
عمدہ کالم۔۔۔۔ حقیقت حال ۔۔۔۔۔۔